Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
گوشہ خواتین

عریانیت وبے پردگی سے پناہ

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: November 30, 2017 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
12 Min Read
SHARE
ربّ کائنات نے فطرت انسانی میں کچھ ایسی خواہشات ودیعت کر دی ہیں، جن کی تکمیل میں انسان ہمہ تن مصروف رہتا ہے ۔ یہ خواہشات خواہ مادی ہو ںیا روحانی ،دونوں کی تکمیل انسان بہر حال اپنی زندگی کے لیے ضروری سمجھتا ہے ۔مال و دولت کی آرزو ہو یا عزت و شہرت کی تمنا ، جب تک انسان ا س میں مطلوبہ کامیابی حاصل نہیں کرلیتااس وقت تک اسے راحت و سکون اور اطمینان نہیں ملتا ۔ خواہشات مادی یادنیاوی تمنائوں کی طویل فہرست میں انسان کے لیے ایک شئے مرغوب اور تمنائے مطلوب حسین عورت بھی ہے ۔ بالفاظ دیگرجنس مخالف سے لطف اندوزی کا جذبہ جبلّی طور پر ہر انسان خواہ مرد ہو یا عورت دنوں میں پایا جاتا ہے ۔ یہ الگ بات کہ مؤ خر الذکر میں شرم وحیا کی وجہ سے یہ فطرت سنجیدہ اور باوقار نظر آتی ہے ،جب کہ مقدم الذکر میں یہ بات ہمیشہ نہیں ہوتی ۔ موجودہ دور میں انسان کی اس جبلی خواہش نے شتر بے مہار کی حیثیت اختیار کرلی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ سماج میں ہر طرف لڑکیوں کا جنسی استحصال ،دوشیزائوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ، عورتوں کے ساتھ بدکاری ، راہ چلتی اکیلی اوربے بس خواتین کی اجتماعی آبرو ریزی کے واقعات سالہا سال سے بڑی تیزی سے پیش آرہے ہیں، البتہ اس میں کچھ عر صہ سے ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ اخلاقی زوال کی یہ صورت حال معاشرتی و سماجی خرابیوںں،عیش کوشیوں اور وحشیانہ شہوت پروریوں کا نتیجہ کہی جاسکتی ہیں ۔اس بدترین صورت حال کی ذمہ دار بداخلاق مرد کے ساتھ عورتیں بھی ٹھہرائی جاسکتی ہیں۔چونکہ آزادی نسواں کے پرفریب نعرے کی آڑمیں اور مرد وزن کی برابری کی پرفتن آوازسے متاثر ہ عورتوں نے مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنا شروع کیا، نیم برہنہ مغربی لباس زیب تن کیا،طرح طرح کے زیب وزینت کے اسباب اختیار کر کے اپنے حسن کی طرف لوگوں کو مدعو کرنے کی مجرمانہ حرکات کیں،جس کی وجہ سے وہ اور ان کی عزتیں ،آبروئیں،حرمتیں اور عصمتیں غیر محفوظ ہو تی گئیں۔نتیجہ یہ کہ آج کل سماج میں رونما ہو نے والے عصمت ریزیوں اور چھیڑ خوانیوں کے ہوش ربا واقعات اسی عریانیت و ننگا پن کے منفی نتائج کہے جاسکتے ہیں ۔
تاریخ کے صفحات سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ماضی بعید میں اسی ہندوستان میں یا ہندوستان کی قدیم تہذیب میں سماجی سطح پر عورت ومرد کے ناروا سلوک سے متعلق رُسوا کن امور اتنے پیش نہیں آتے تھے جتنے آج کے مہذب کہلانے والے دور میں پیش آرہے ہیں۔ وجہ یہ تھی کہ عہد سابق یعنی گذشتہ زمانے میں حجاب کو عورتیں نعمت جانتی تھیں اور کسی صورت پردہ کو مردوں کی طرف سے ظالمانہ پابندی نہ سمجھتی تھیں بلکہ حجاب و نقاب ان خواتین کی پہچان تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان تو مسلمان ہندو راجائوں کی عورتوں کے یہاں بھی پردہ کا ذکر ملتا ہے ۔ چنانچہ’’ تزک جہاں گیری ‘‘ جلد نمبر ایک میں عورتوں کے حجاب کی کیفیت سے متعلق یہ حقیقت صاف لفظوں میں اس طرح مذکور ہے کہ ’’ایک پردہ باریک سا بطریق حجا ب عورتوں کے چہروں پر ضرور ہوتا ہے، اگر ایک طرف ہندو عورتوں کا حال یہ ہے تو ہماری مسلم خوا تین اور مومن بیگمات بھی اس معاملہ میںکہیں زیادہ سخت نظر آتی ہیں ۔چنانچہ شاہی درباروں میں بیگمات اس وقت تک کسی غیر مردکے سامنے نہیں ہوتی تھیں جب تک کہ اپنے شوہروں سے اجازت نہ لے لیں کیونکہ بغیر رضامندی یا بے اجازت مالک نفس کے کسی غیر کے رو برو بے پردہ ہونا  صا حبان عفّت و عصمت سے بعید ہے ۔ یہی نہیں اگر کبھی کبھار بیگمات قیدیوں کے یہاں کار ثواب کی انجام دہی کے لئے پہنچتی بھی تھیں تو لباس اسلامی میں ملبوس اور پردئہ اسلامی زیب تن کئے ہوئے جاتی تھیں، پوری طرح پردہ کا اہتمام ہوتا تھا۔آج بھی راجستھا ن علاقہ میں گھونگھٹ کا رواج عام ہے ۔یہ عورتیں ظاہر ہیں جاٹ اور مرواری برادری سے متعلق ہیں اور غیر مسلم ہیں۔یہاں مشرقی تہذیب کا چلن آج بھی نمایاں طور سے دیکھا جاسکتا ہے۔ راجستھانیوںکی ہارڈ وئر کی دکانوں میں اپنی ضرورتوں کے پیش نظر آنے جانے کے دوران عورتیں نہایت سلیقہ کے ساتھ دکانوں میں آتی ہیں، اگر ان کے شوہر کے ساتھ ان کے جیٹھ بھی دکان میں ہوں تو وہ گھونگھٹ کا اہتمام کرتی ہیں ، جب کہ انجان لوگوں سے آمنا سامنا ہونے پر وہ کچھ زیادہ ہی محتاط نظر آتی ہیں ۔رہا مسلم سماج تو اس میں آج بھی اکیسویں صدی کی اس دوسری دہائی کے نصف آخر میں ایک بڑا طبقہ موجود ہے جو اس مشرقی روایت کا امین ہے ۔یہاں عورتیں روایتی حجاب برقع کے علاوہ گھونگھٹ کا بھر پور اہتمام کرتی ہیں۔اس لیے مذکورہ بالا دونوں مقامات یا دونوں طبقوں میں عصمت ریزی اور جنسی استحصال کی شرح وقوع نسبۃ بہت کم بلکہ نہ کے برابر ہے ۔جب کہ ماضی میں سماجی زندگی کی یہ طرز زیادہ عام تھی اس لیے اس زمانے میں مسلم اور غیر مسلم دونوں طبقوں میں اس طرح کی بے چینیاں کم دیکھنے کو ملتی تھیں۔
بے پردگی کی وبا دراصل کل تک کی فضائوں میں گھلا ہو ا نہیں تھا اسی لئے وہ عہد اپنی تہذیبی اور تمدنی ثقافتوں کی وجہ سے آج بھی ممتاز ہے اور روشن و مہذب تاریخ کے اوراق کا خوش گوار اٹوٹ حصّہ ہے ۔ اسی عہد گذشتہ کی ایک اور خاص شناخت یہ تھی کہ یہاں شوہرشرعی حاکم متصور ہوتا تھا ۔ وہ اپنے گھر کا قائد ، خاندان کا لیڈر اور اپنی بیوی کے نفس کا مالک سمجھا جا تا تھامگر آج کے اس بے ہنگم اور بے مروت سماج میں اس کی حیثیت محض ایک شریک سفر کی رہ گئی ہے ۔ اُسے ایک ایسا ساتھی کا درجہ دے دیا گیا ہے جس کی غیر موجودگی اس کی بیوی کے لئے غم ہجراں کا باعث نہیں بلکہ عین عنایت کی مترادف ہے ۔ مغربی نظریات زندگی نے عورت کو حریت و استقلال کے نام پر ایسی آزادی مرحمت فرمائی ہے کہ مردوں کودن میںگھر کی نگہبانی اور رات کوبچوںکی نگرانی کی ذمہ داریاں نبھا نی پڑتی ہیں ۔ مارکیٹنگ کے دوران آج کے شوہر جن کی بیوی جدیدیت پسند ہیں ان کی حیثیت اور بھی حسرت و افسوس کی موجب ہے کہ محترمہ بازار میں خریدو فروخت کے فرائض انجام دے رہی ہوتی ہیں تو باہر محترم شوہر ویٹر کی گرانقدر ذمہ ّداری نبھارہے ہوتے ہیں ۔ معاف کیجئے! ایسے ہی لوگوں کو زن پرست یا جورو کا غلام کہا جاتا ہے مگر جورو کی اس غلامی کے مجرم وہ اکیلے نہیں بلکہ وہ معصوم ہیں ۔اصل مجر م ان کے سسرالی افراد ہیں جنہوں نے زرخرید اور بے ضمیر وں سے تعویذ اور ٹوٹکے کرواکر اس کی مردانہ حیثیت کو زنانہ درجہ میں تبدیل کر نے کی نہایت شنیع حرکت انجام دی ہے ،جب کہ اہل مغرب نے اپنے مقلّدین کو اسی طرح کے اور کئی عظیم ا لشّان اخلاق باختہ تحائف دئے ہیں جن سے مہذب افرادکو بے چینی اور کڑھن ہوتی ہے ۔اسلامی معاشر ہ میں اس طرح کی غم ناک اور تشویش ناک صورتحال یقینا ایک لمحہ فکر یہ ہے۔جب کہ انسانی سماج میں بڑی تیزی سے رونما ہورہی اس طرح کی اخلاقی بے راہ روی اور سماجی زندگی کا یہ ناروا انقلاب بہر حال آئندہ نسل کے لیے زہر قاتل ہیں ۔
اسی غیر منقسم اور ماضی کے خوب صورت ہندوستان میں ایک ایسا خوش گوار وقت اور حسین لمحہ بھی گزار ہے کہ جب ایک بھائی بھی اپنی بہن کے سامنے آتا تو اس کی نگاہیں شرم و حیا کے باعث جھک جا یاکر تی تھیں ۔ ایک گھر میں رہائش کے دوران بھی بار بار آمنا سامنا سے بھی حتی الوسع احتیاط کا مظاہر ہر گھرانہ میں ہوتا تھا ،جس کی جھلک آج بھی سماج کے مہذب ترین اور مریادا کا پالن کرنے والے گھرانہ میں دیکھنے کو ملتا ہے ۔ مگر افسوس صد افسوس! آج سفید چشمی کا عالم یہ ہے کہ محرم و نا محر م کا امتیاز و فرق بالکل ہی ختم ہو گیاہے ۔ یہ مغربی تہذیب کی لعنت او ر بے پردگی کی گل کاری ہی ہے کہ باہمی رشتے بھی پور ی طرح مسخ ہورہے ہیں۔   
  اگر آج بھی ہماری عورتوں میں حیا و شرم کی فضا سازگار ہوجائے،دین ومذہب سے ان کا سچا رشتہ قائم ہوجائے،مشرقی تہذیب  سے اس کا تعلق استوار ہوجائے ، حجاب کی دولت بنات حوا کو حاصل ہو جائے، نقاب کی بیش بہا ثروت سے حوّا کی بیٹیاں مالا مال ہوجائیں،سادگی ان کی فطرت اور پرہیزگاری ان کی عادت ثانیہ بن جائے ،تو بلاشبہ مومن عورتیں آج بھی صلاح ا لدّین ایّوبی ؒ ،طارق بن زیادؒ اور شیخ عبدا لقادر جیلانیؒ جیسی عظیم شخصیّات کو اپنے  بطن سے جنم دے سکتی ہیں ۔یا یوں کہیے کہ تاریخ کا دھارا موڑدینے والا نو جوانو ں کا گروہ آج بھی ان کی ہی گرانقدر آغوش سے پیدا ہوسکتا ہے ۔ المختصر حجاب و پردہ خواتین کے لئے ایک خیر خواہ اسلامی قانون ہے ۔ایک ایسی چھائونی ہے جہاں منچلے لوگوں کو اپنے منھ کی بہرحال کھانی پڑتی ہے ۔ ایک پاک دامن، صاحب عفّت و عصمت خاتون زیور حجاب سے کبھی عاری نہیں ہوسکتی ۔معز زاور امانت دار خواتین کی غیرت و حمیّت کا تقاضہ ہی یہ ہے کہ اوباش لوگوں ا ور شر پسندوں کی نظروں کا و ہ محور نہ بنیں ۔ ایسی ہی عورت معاشرہ کی معمار اور قوم و مذہب کے لئے کارخانۂ مجاہدین ہوسکتی ہے ، ورنہ بقول کسے    ؎ 
جس سے سنبھالا نہ گیا اپنے ہی سر کا آنچل
اس سے کیا خاک ترے گھر کی حفاظت ہوگی  
 9469942541
[email protected]
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

پی ڈی پی زونل صدر ترال دل کا دورہ پڑنے سے فوت
تازہ ترین
سرینگر میں 37.4ڈگری سیلشس کے ساتھ 72سالہ گرمی کا ریکارڈ ٹوٹ گیا
برصغیر
قانون اور آئین کی تشریح حقیقت پسندانہ ہونی چاہیے، : چیف جسٹس آف انڈیا
برصغیر
پُلوں-سرنگوں والے قومی شاہراہوں پر ٹول ٹیکس میں 50 فیصد تک کی کمی، ٹول فیس حساب کرنے کا نیا فارمولہ نافذ
برصغیر

Related

گوشہ خواتین

مشکلات کے بعد ہی راحت ملتی ہے فکر و فہم

July 2, 2025
کالمگوشہ خواتین

ٹیکنالوجی کی دنیا اور خواتین رفتار ِ زمانہ

July 2, 2025
کالمگوشہ خواتین

نوجوانوں میں تخلیقی صلاحیتوں کا فقدان کیوں؟ فکر انگیز

July 2, 2025
گوشہ خواتین

! فیصلہ سازی۔ خدا کے فیصلے میں فاصلہ نہ رکھو فہم و فراست

July 2, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?