نواب غیاث الدین بیگ کے پاس دولت کے انبار تو نہ تھے لیکن اب تک ان کے پاس ایک قدیم خاندانی لائبریری تھی جس میں کتابوں کے کچھ نایاب نسخے موجود تھے۔ اب وہ کسی قدر بوڑھے ہوگئے تھے اور ضعیف بھی۔ ان کا اکثر وقت لائبریری میں ہی گزرجاتا۔ اب وہ قدیم نایاب نسخوں میں ہمیشہ کچھ پانے کی جستجو میں لگے رہتے۔ نواب صاحب کے دو ہی دوست تھے۔ ایک میر علی جو ادھیڑ عمر کے خاندانی دولت مند تھے اور دولت خرچ کرنا بھی جانتے تھے۔ ان کا دوسرا دوست ایک نوجوان تھا۔ کتابوں کے مطالعہ کے شوق نے اس کو نواب غیاث الدین کے قریب کردیا تھا۔
ایک دن کا واقعہ ہے ، نواب غیاث الدین بیگ بڑے جوشیلے انداز میں لائبریری کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ڈگ بھرتے رہے اور یہ عمل بہت دیر تک جاری رہا۔ نوکر یہ سمجھنے پر مجبور ہوگئے کہ شاید ان کی مجنونانہ حرکت اپنی مرحوم بیوی کی یاد اور اس سے پیدا شدہ اضطراب کا نتیجہ ہے۔
لیکن وہ اپنے دوستوں کا انتظار کررہے تھے۔ حیات جاوداں پانے کے لئے ایک قدیم نسخہ ان کے ہاتھ آیا تھا۔ جب دوست آئے تو ان کے اضطراب میں کسی قدر کمی ہوئی۔
وہ تینوں نسخے کے بارے میں بڑی رازداری سے باتیں کرنے لگے۔ تینوں کے دلوں میں حیات جاوداں کے لئے اُمنگ پورے عروج پر پہنچ گئی۔ اب تک وہ تینوں یہ سمجھتے آئے تھے کہ حیات جاوداں کی اصطلاح صرف قصے اور کہانیوں کی خاطر اختراع کی گئی ہے، لیکن آج ان کو معلوم ہوا کہ اس مفروضے کے پیچھے حقیقت بھی موجود ہے۔
ان تینوں کے درمیان طے پایا کہ حیات جاوداں پانے کے لئے وہ مہم اختیار کریں جس کی نشاندہی قدیم نسخے میں کی گئی تھی۔مہم کا آغاز سمندر کے راستے سے ہونا تھا۔ اس لئے فوراً ہی ایک سمندری جہاز کا، جو جدید سائنسی آلات سے لیس تھا، انتظام کیا گیا۔اس کا تمام خرچ میر علی نے برداشت کیا۔ چونکہ مہم تھی حیات جاوداں پانے کی، اس لئے اس سلسلہ میں رازداری سے کام لینا بہت ضروری تھا۔ لہٰذا کوئی جہازی عملہ ساتھ نہیں لیا گیا اور وہ تینوں نہایت خاموشی سے ساحل چھوڑ کر سمندر کی وسعتوں میں چلے گئے۔
قدیم نسخہ کے مطابق مہم کا پہلا مرحلہ سمندر میں وہ جزیرہ تھا جو ہمیشہ لہروں میں ڈوبا رہتا تھا۔ تقریباً ڈیڑھ مہینے تک سمندری پانی کے بدلتے ہوئے رنگوں میں جزیرہ ان کی نظروں سے چھپا رہا۔ ان کے ارد گرد مایوسی کے جال بچھنے لگے۔ شاید اسی لئے نواب غیاث الدین بیگ نے ایک دن کہا ۔ ۔ ۔
’’ وہ نسخہ جھوٹا ہوگا ۔ چلو واپس لوٹیں‘‘
لیکن نسخے کی صداقت کو ثابت کرنے کے لئے قدرت نے ان کے جہاز کا رُخ اُدھر کردیا جہاں لہروں میں ڈوبا ہوا جزیرہ تھا۔ احمد تو چیخ ہی پڑا۔
’’جزیرہ مل گیا ۔ ۔ جزیرہ‘‘
وہ تینوں ایک دوسرے کو حیرت سے تکنے لگے۔
ان تینوں نے ایک ساتھ لہروں میں ڈوبے ہوئے جزیرے پر قدم رکھا۔ زمین پتھریلی تھی۔ یوں تو لہروں میں ڈوبے ہوئے جزیرہ پر چھن چھن کر دھوپ کی کرنیں آرہی تھیں۔ دھوپ کی حرارت سے پتھریلی زمین گرم تھی۔وہ تینوں ننگے پائوں گرم پتھروں کے راستے طے کرتے رہے۔ مکمل سکوت میں ڈوبے ہوئے اس جزیرے پر کسی پرندے کی چہچہاہٹ کی آواز تھی نہ کسی حیوان کا نام ونشاںا ور انسان کا تو سوال ہی کیا۔ ان کے پائوں میں چھالے پڑگئے، لیکن چلتے رہے۔ وہ سب مسکراتے ہوئے ایسے چل رہے تھے جیسے پھولوں کے راستے پر ان کا استقبال حوریں گلپوشی سے کررہی ہوں۔ منزل کی سختیاں انجام کی راحت کے سامنے کیا حیثیت رکھتی ہیں!
وہ چلتے رہے اور چلتے رہے۔
قدیم نسخے کے مطابق ’’ حیات جاوداں‘‘ پانے کی دوسری منزل غار کا دہانہ تھا، لیکن اب تک انہیں کوئی غار نظر نہیں آیا تھا۔ احمد نے ان کو ایک ٹیلے پر بیٹھ جانے کا اشارہ کیا۔ پھر اس نے کھانا تقسیم کیا۔ وہ کھاتے رہے اور مستقبل کے سنہرے جھولے میں جھولتے رہے۔
کھانے کے بعد سفر پھر شروع ہوا۔ سورج ڈوب گیا۔ اندھیرے نے جزیرے کو اپنے دامن میں چھپالیا۔ وہ ایک دوسرے کو دیکھ بھی نہیں سکتے تھے لیکن ’’حیات جاوداں‘‘ پانے کی کشش ہر مشکل پر قابو پاتی رہی۔ وہ انتہائی خاموشی سے ایک ٹیلے پر بیٹھ گئے۔ اپنے سفر کے دوسرے مرحلے کی ناکامی کا رونا روتے رہے۔ کسی نے ان کے کانوں میں کہا۔۔۔
’’جائو ، سامنے وہ سرخ پتھر ہے ، اُس کو ہٹادو‘‘
تینوں ایک ساتھ دوڑ پڑے اور اپنی تمام طاقت جمع کرکے سرخ پتھر کو ہٹانے لگے۔ ان کے بازو فولادی بن گئے۔ جانے ان میں قوت کہاں سے آئی تھی۔
احمد سب سے پہلے غار میں داخل ہوا۔ وہاں گھٹاٹوپ اندھیرا تھا۔ اس کی چھت سے پانی کے قطرے ایسے گرتے تھے جیسے آسمان سے ہلکی بونداباندی ہورہی ہو۔ تینوں ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر مہم کے دوسرے مرحلے پر چلتے رہے، آگے بڑھتے رہے۔سفر کے دوسرے حصے میں ایسا محسوس کررہے تھے جیسے ان کے بدن سے سارا خون نچوڑ لیا گیا ہو اور وہ صرف ہڈیوں کے ڈھانچے رہ گئے ہوں۔ ہیبت اور سقوط بھرے اس ماحول میں ’’حیات جاوداں‘‘ کا خیال اب بھی ایک دل فریب حسینہ کی طرح ان کے دل ودماغ پر چھایا ہوا تھا۔
نہ جانے کتنے دنوں تک وہ چلتے رہے۔ وقت کا حساب اور احساس کب کا ختم ہوچکا تھا۔ کبھی کبھی یہ خیال بھی شدت اختیار کرلیتا کہ کیوں نہ واپس لوٹ چلیں۔ لیکن اب یہ بھی آسان نہ تھا۔
اچانک غار میں بجلی چمکی۔ لمحے بھر کی یہ روشنی بھی جیسے سوال بن گئی۔ آخر تم لوگوں کو ’’حیات جاوداں‘‘ کیوں چاہیے۔ نواب غیاث الدین بیگ سوچتا رہا۔ اس کے پاس رئیسانہ ٹھاٹ بھاٹ تو نہیں لیکن وہ بھک منگا بھی نہیں۔ اب بھی مشتری بائی کے لطیف گانوں سے محظوظ ہوتا ہے اور اس کی شوخیوں میں راتیں بتائی جاتی ہیں۔ پھر ایسی عیش پسند زندگی سے فرار کیوں؟ اور ایسے غار میں ’’حیات جاوداں‘‘ کی تلاش میں مارا مارا پھرنا کیوں؟
’’زندگی کے حسین پہلوئوں کو اور بھی حسین بنایا جاسکتا ہے، جب کہ زندگی امر ہو‘‘ ۔ ۔۔ اس خیال نے اسے پھر مطمئن کردیا۔
میر علی کے پاس بے حساب دولت تھی اور زندگی کی کون سی ایسی چیز تھی جو وہ خریدنہیں سکتا تھا، لیکن ’’حیات جاوداں‘‘ کا کوئی مول نہیں۔ اگریہ پانے کا موقع اسے ملے تو کترانا کیوں؟
احمد جوان تھا۔ زندگی کے اُتار چڑھائو سے ناواقف ، لیکن مہم پسند نوجوان۔ اس نے سوچا اگر ’’حیات جاوداں‘‘ ملی تو اچھا ، نہیں ملی تو کیا ہوا، اس مہم سے تو لطف اندوز ہوں گے۔
بجلی کی چمک نے ان کے حوصلے بلند کردئیے۔ اچانک میر علی نے بلند آواز میں کہا ۔ ۔ ۔
’’مل گیا ، مل گیا، دروازہ مل گیا‘‘
تینوں خوشی کے مارے ایک دوسرے سے گلے ملنے لگے۔ رقص کرنے لگے۔ مسرت سے بھرے رقص اور بے ہنگم آوازوں نے غار کے سقوط کو درہم برہم کردیا۔ وہ ناچتے ناچتے بے سدھ ہوکر دروازے کے پاس گر گئے۔ سونے کا دروازہ خود بخود کھل گیا۔ خوشبو میں ڈوباہوا کا ایک جھونکا ان کے نتھنوں میں گھس کر ان کے جسموں کو سیراب کرنے لگا۔ تینوں میں قوت واپس آگئی۔ وہ کھڑے ہوگئے اور دروازے کے اندر داخل ہوگئے۔
سفر کا تیسرا حصہ بہت ہی دلچسپ اور حیرت انگیز ثابت ہوا۔ وہاں وہ سب کچھ موجود تھا جس کا ذکر قدیم نسخے میں کیا گیا تھا۔ سرسبز باغ بہت دور دور تک پھیلا ہوا تھا۔ ان تینوں کی نظریں باغ کی آخری حدود پانے میں ناکام ہوئیں۔ وہاں آبشار تھے،خوش رنگ پرندے تھے جن کی چہچہاہٹ ایک لطیف کیفیت پیدا کررہی تھی۔ سارا ماحول ایک رومانی تاثر سے پُر تھا۔ حوروں کی قطاریں ان تینوں کے ارد گرد کھڑی ہوگئیں۔ ان پر رنگ برنگے پھولوں کی بارش ہونے لگی۔ وہ اپنے آپ کو اس ماحول میں اجنبی پارہے تھے۔ انہیں محسوس ہوا کہ ان کے کانوں کے پاس نہایت ہی شیریں اور دھیمی آواز میں کوئی کہہ رہا ہے ۔ ۔ ۔
’’خوش آمدید ۔ ۔ خوش آمدید ۔ ۔ آبِ حیات تلاش کرنے والو ۔۔ خوش آمدید‘‘
تینوں حوروں کی قطاریں توڑتے ہوئے اُس جانب دوڑنے لگے جہاں زمرد کے تالاب میں ’’آب حیات‘‘ ہچکولے کھارہا تھا۔ تینوں آب حیات کے تالاب سے اپنی پیاس بجھاتے رہے۔ جب اس کام سے فارغ ہوئے تو اپنا سربلند کرکے چلنے لگے۔ اب ان کے پاس حیاتِ جاوداں تھی۔ ہمیشہ کے لئے وہ لافانی انسان بن گئے تھے۔
وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ موت اب ان کے لئے ایک خواب ہے، جس طرح کل ان کے لئے حیات جاوداں پانا ایک خواب تھا۔ وہ اب کامیاب وکامران اپنی دنیا میں واپس لوٹ رہے ہیں۔
ایک سفید پرندہ اُڑتا ہوا آیا اور کچھ اخبار ان تینوں کے سامنے پھینک گیا۔ تینوں نے اخباروں کو اُٹھالیا۔ اخباروں کے سرورق پر مغل سرائے کے نزدیک ایک بھیانک ٹرین حادثہ کی خبر چھپی تھی اور مرنے والوں کی فہرست میں ان تینوں کے نام بھی تھے۔ خبر پڑھ کر تینوں حیرت سے ایک دوسرے کو تکنے لگے ۔ ۔ !!
رابطہ؛9419012800