جنوری کا سرد ترین دن تھا اور صبح کے دس بج چکے تھے۔ دِلی کے بین الاقوامی ہوائی اڑے پر کافی دھند تھی۔ جسکی وجہ سے میری فلائٹ دو گھنٹے لیٹ تھی۔ میں ویٹنگ روم میں بیٹھا کتاب پڑھنے میں محو تھاکہ اچانک میں نے ایک نسوانی آواز سنی۔ "Excuse Me"یہ ایک انگیز خاتون تھی جسے دیکھ کر مجھے یوں لگا کہ شائد اُس کے گھنے بالوں میں چاند کا بسیرا ہے! اُس کے نرم ریشم جیسے سنہری بال اُس کے مغرور کندھوں پر بکھرے ہوئے تھے۔
انگیز خاتون ایک ڈیڑھ سال کی بچی کو گود میں لئے تھے۔ خدوخال سے وہ اُس کی اپنی بیٹی نہیں لگتی تھی۔ اس بچی کو دیکھ کر میں کچھ دیر گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ میں نے انگیز خاتون کو بیٹھنے کے لئے کہا۔ Thank Youکہہ کر وہ میرے داہنی جانب صوفے پر بیٹھ گئی۔
"Yes! How can i Help you"ہاں! میں تمہاری کیا مدد کرسکتا ہوں؟ میں نے انگریز خاتون سے پوچھا۔
انگریز خاتون نے فوراً اپنا پرس کھولا۔ پرس کھولنے کے دوران اُس نے مجھ سے پوچھا۔
’’کیا تم بھی ممبئی جارہے ہو؟‘‘
’’ نہیں…میں سرینگر جارہا ہوں‘‘
’’سرینگر!؟‘‘ وہ کچھ تعجب سے بولی ۔
’’کشمیر‘‘ میں نے فوراً جواب دیا۔
’’کشمیر!؟‘‘ میم نے بڑے ہی اِنہماک سے پوچھا۔
’’یس …یس ہاں!‘‘ میں نے فخر سے جواب دیا۔
"oh! Kashmir The Paradise"کشمیر کا نام سُن کر میم میں کچھ اضطرابی کیفیت سی پیدا ہوگئی۔
’’تم لکی ہو…‘‘ میم مسکرا کر بولی۔
’’تم نے کشمیر کو دیکھا ہے؟‘‘ میں نے میم سے پوچھا۔
’’دیکھا نہیں ہے…پر کشمیر کے بارے میں بہت کچھ پڑھ چکی ہوں…کچھ حسین یادیں… کچھ انوکھی باتیں… کچھ حسرتیں… اور خونین داستان!! ایک حسین وادی جہاں کا چپہ چپہ مہمان نواز ہے، جہاں پتھر کے ٹکڑے راہ چلتوں کی پیاس بجھاتے ہیں! جہاں سنگلاخ دیواروں پر پھول اُگتے ہیں! جہاں ہر سو محبت کے رس بھرے نغمے سنائی دیتے ہیں!‘‘
پھر میم ایک لمبی آہ بھر کر بولی
’’آہ! ایک بار جو اُس ارضِ جنت میں وارد ہوا …گھائو دے کر واپس چلا گیا!‘‘
’’وہ گھائو ابھی بھی ہرے ہیں!‘‘ میں نے دفعتاً میم سے بولا۔
’’خیر تم کہاں سے آئی ہو؟‘‘ میں نے میم سے پوچھا۔
میرا سوال سن کر میم نے فوراً اپنے پرس سے البم نکالا۔ البم کھول کر وہ ایک ایک کرکے مجھے فوٹو دکھانے لگی۔ البم پر لگی بیشتر تصویروں پر وہ ایک گوے رنگ کے درازقد جوان کے ساتھ تھی! جو بالکل میم کی طرح فرہنگی تھا۔
’’یہ…یہ خوبصورت جوان…!‘‘ پھر وہ خاموش ہوگئی۔
’’ہاں…ہاں میں سمجھ سکتا ہوں… یہ تمہارا…‘‘
’’ٹھیک سمجھا‘‘ میم نے جلدی سے جواب دیا۔ یہ میرا دوست "Boy Friend"جان ہے‘‘۔
اس کے بعد میم نے چند لمحوں کے لئے اپنی جھیل جیسی آنکھیں بند کیں اور اس کی گھنی پلکوں سے آنسوں رواں ہوئے… میں چونک پڑا…!
’’یہ …یہ کہاں ہے!؟‘‘ میں نے فوٹو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے میم سے پوچھا۔
"He is in heaven"(یہ جنت میں ہے۔) میم نے اطمینان سے جواب دیا۔ ایک دم میں نے محسوس کیا کہ اس کی گول گول آنکھیں بھیگی جارہی ہیں۔ اس کے بعد میم نے اپنی گود میں لئے اُس بچی کو دو چار بار چوما… اس بچی کو بچاتے ہوئے میرا دوست جان امر ہوا …‘‘
’’کیا …!؟‘‘ میں نے تعجب سے پوچھا
’’وہ بہادر ہے۔ He is braveــ‘‘ میم نے فخر سے جواب دیا۔
میم کے گلابی ہونٹوں پر اب مسکراہٹ رقصاں تھی۔
وہ فرہنگی خاتون میرے ساتھ کچھ اس طرح گھل مل گئی گویا کہ ہمارا جنم جنم کا رشتہ تھا…
میم نے پھر وہ انوکھا اور کربناک واقعہ اس طرح سُنایا۔
’’میں اور میرا دوست جان یہاں گھومنے کے لئے آئے تھے۔ ایک دن ہم گھومتے گھومتے ایک گائوں میں پہنچ گئے۔ گائوں کے بیچوں بیچ ایک ریلوے ٹرک جارہا ہے۔ ہندوستانی گائوں کی زندگی قریب سے دیکھنے کے لئے ہم اُسی گائوں میں رات بھر ٹھہرے… صبح سویرے جب ہم دونوں مارننگ واک کے لئے جارہے تھے… ہم یہ دیکھ کر چونک گئے اور ہمارے پائوں تلے زمین کھسک گئی جب ہم نے دیکھا ایک درندہ صفت باپ اپنی اس ننھی سے پھول جیسی بچی کو ریلوے ٹریک پر چھوڑ کر چلا گیا…!! میرے دوست جان سے رہا نہ گیا۔ وہ بچی کو بچانے کے لئے فوراً ریلوے پٹری پر چڑھ دوڑا… اُس نے اس بچی کو تو بچا لیا لیکن خود ٹرین کی زد میں آکر اَمر ہوا…! میری گود میں یہ وہی بچی ہے۔ جس کو میں اب اپنے ساتھ اپنے دیس لے جارہی ہوں!‘‘
میم کی زبان سے یہ حیرتناک قصہ سنکر میں کینواس پر اُس عظیم انسان کا عکس بنانے لگا، جس نے انسانیت کو بچانے کے لئے جانِ عزیز کا نذرانہ پیش کیا…!!!
اتنے میں ویٹنگ روم کے ایک کونے سے اعلان ہوا…
’’کرپیا توجہ فرمائیں… کشمیر جانے والے یاتریوں سے نویدن ہے کہ جٹ ائرویز کا ومان تین بجے سرینگر کے لئے اُڑان بھرے گا‘‘۔
رابطہ: آزاد کالونی پیٹھ کا انہامہ
موبائل نمبر؛9906534724