پاکستان کے عوامی اور انقلابی شاعر حبیب جالبؔ ۱۳مارچ ۱۹۹۳ء کو اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے تھے۔وہ سال ۱۹۲۸ء میں اسی ماہِ مارچ کی ۲۴تاریخ کو میانی افغاناں ، ہوشیار پور میں پیدا ہوئے۔اْن کا اصل نام حبیب احمد تھا۔وہ محض شاعری میں مزاحمتی ادب کے نمائندہ نہیں بلکہ زندگی میں بھی اسی روش پر گامزن رہے۔ابتدا میں جگر مراد آبادی ؔسے متاثر تھے اور روایتی غزلیں کہتے تھے۔ حبیب جالبؔ کی سیاسی شاعری آج بھی عام آدمی کو ظلم کے خلاف بے باک آواز اٹھانے کا سبق دیتی ہے۔ حبیب جالب ؔکی پوری زندگی فقیری میں گذری۔ اپنی زندگی میں حکومتی مخالفتوں کے ساتھ ساتھ عوامی حمایت کا بھی ایک ہمالیہ ان کی پشت پر تھا۔ ہر شعبہ زندگی کے لوگ ان کے مداحوں میں شامل تھے۔ جن سے آپ کسی نہ کسی قسم کا فائدہ اٹھا سکتے تھے مگر انہوں نے ایک معمولی سا فائدہ نہ اپنی ذات کے لیے اٹھایا اور نہ اپنے اہل خانہ کو کچھ حاصل کرنے دیا۔ ان کے بچے معمولی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر کے جوان ہوئے۔
حبیب جالب کی زندگی اور شاعری ایک ہی فکر وفلسفے سے عبارت تھی۔وہ حکمرانوں کی منافقت کا پردہ اپنی شاعری میں کھلے عام چاک کرتے رہے اور اس میں استعاروں اور تشبیہات کاتکلّف تک زیادہ گوارا نہ کیا۔ حبیب جالبؔ ایک فطری شاعر تھے۔ اْن کے زمانہ طالب علمی کا یہ شعر اْن کی اسی خداداد صلاحیت کا اظہار ہے :
مدتیں ہوگئیں خطا کرتے
شرم آتی ہے اب دعا کرتے
ہفتم جماعت کے طالبِ علم کے اس شعر میں بعد کا پورا حبیب جالبؔ جھلکتا ہے۔ابتدا میں حبیب جالب’ مستؔ‘ تخلص کرتے تھے۔ اور حبیب احمد مست میانوی ؔکے نام سے جانے جاتے تھے۔پاکستان کے قیام کے بعد ہجرت کرکے کراچی آئے اور گورنمنٹ سیکنڈری اسکول جیکب لائن میں درجہ دہم میں داخل ہوئے۔بعد ازاں لاہور کا رخ کیا۔ اوراورینٹل کالج لاہور سے بھی پڑھتے رہے۔وہ’ ہاری تحریک‘ کا حصہ رہے اور اپنی پہلی گرفتاری کا سامنا اسی تحریک کے رکن کی حیثیت سے کیا۔پھر نیشنل عوامی پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔جس کانام اب’ اے۔ این۔ پی ‘ہے۔ اپنی زندگی کے اخیر تک پھراسی جماعت سے وابستہ رہے۔حبیب جالبؔ نے ۱۹۶۲ء میں اپنی مشہور نظم ’دستور‘ ایوب خان کے خلاف لکھی۔جالب ؔنے یہ نظم سب سے پہلے مری کے ایک مشاعرے میں اپنے مخصوص انداز سے پڑھی تھی۔ جس کے بعد عوام اْن کے عشق میں مبتلا ہوگئے اور وہ بیک وقت عوامی اور انقلابی شاعر کے طور پر پورے ملک میں پہچانے جانے لگے۔عوامی اجتماعات میں اْن سے اسی نظم کو سنائے جانے کی فرمائش کی جاتی۔جس کا ایک بند کچھ یوں ہے کہ: ؎
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو، صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا
جالبؔ کی اس نظم پر مقدمہ قائم ہوا اور اْنہیں حوالِ زنداں کر دیاگیا۔ اسی دور میں اْن کے ایک شعری مجموعے ’’سر مقتل‘‘ پر پابندی عائد ہوگئی۔مگر جالبؔ کی مزاحمت جاری رہی۔ اقتدار ایوب خان سے جنرل یحییٰ خان کو منتقل ہوا تو حبیب جالبؔ نے اْن کو بھی اسی لب ولہجے سے مخاطب کیا کہ ؎
تم سے پہلے وہ جواک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اْس کوبھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا
اسی دور میں مشرقی پاکستان کا آپریشن شروع ہوا جو بعد میں قیامِ بنگلہ دیش کا موجب بنا۔ جالبؔ تب بھی خاموش نہ رہے ؎
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھورہے ہو
گماں تم کو کہ رستا کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
بھٹو دور میں بھی حبیب جالبؔ مختلف عتاب کے شکار رہے۔ اس دور کی اْن کی مشہور نظم’’ ممتاز‘‘تھی۔ جس میں جالب نے کہا تھا کہ ؎
قصرِ شاہی سے یہ حکم صادر ہوا، لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو
اپنے ہونٹوں کی خوشبو لٹانے چلو،گیت گاتے چلو ورنہ تھانے چلو
حبیب جالبؔباغیرت اورنڈرادیب تھے۔قیوم نظامیؔان کے دستراس تھے،لکھتے ہیں:
ـ’’حبیب جالبؔ کے ساتھ میرا باہمی احترام اور محبت کا رشتہ زندگی بھر قائم رہا۔ جالب ؔنے مجھے بتایا کہ بھٹو شہید نے انہیں ۷۰کلفٹن کراچی ملاقات کے لئے بلایا۔ ملاقات کے دوران بھٹو شہید کے پاس چند سندھی وڈیرے بیٹھے تھے۔ بھٹو صاحب نے جالب سے نظم سنانے کی فرمائش کی۔ جالب ؔنے ترنم کے ساتھ اپنی نظم ’’پاکستان کا مطلب کیا‘‘ سنا دی ؎
کھیت وڈیروں سے لے لو…ملیں لٹیروں سے لے لو
ملک اندھیروں سے لے لو…رہے نہ کوئی عالی جاہ
پاکستان کا مطلب کیا… لا الہ الا اللہ۔۔۔۔۔۔
جب وڈیرے اْٹھ کر چلے گئے تو بھٹو صاحب نے کہا جالبؔ تم نے وڈیروں کے سامنے یہ نظم سنا دی۔تو جالبؔ نے جواب دیا بھٹو صاحب یہ میری نظم ہے آپ کی تقریر نہیں جو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں کچھ ہو اور کراچی کے نشتر زارک میں کچھ اور ہو۔ جالب ؔکے اس بے ساختہ جواب پر بھٹو صاحب مسکرا دیئے اور کہنے لگے تقریر میں علاقائی ترجیحات کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔‘‘(’حبیب جالب زندہ ہے،‘نوائے وقت لاہور)
حبیب جالبؔپاکستان کی مزاحمتی اردوشاعری میںایک معروف نام ہے۔ان کی شاعری نے رومان سے انقلاب کی سمت مراجعت کی۔وہ ایک انقلابی اور سامراج دشمن شاعر تھے۔انھوںنے اپنی زندگی میںہرآمرکی مخالفت کی۔عسرت کی زندگی بسرکی لیکن کسی آمرکے سامنے دست درازبلندنہ کیا۔حبیب جالب ؔبلاشبہ ہمارے ادبی سرمائے میں درخشاں ستارے کی مانند پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ افروز ہیں اور رہیں گے۔وہ ایک قلندر صفت انسان تھے، انھوں نے شاید ہی کبھی اپنے لیے کسی شے کی فرمائش اور خواہش کی ،باوجود اس کے کہ اس ’’عوامی شاعر‘‘ کے گھر میں فاقوں کا راج بھی رہا۔ وہ حقیقتاً خودداری کی انتہا پر فائز تھے۔ تاریخ کے اوراق پلٹیے تو آپ کو ادب میں ہونے والی انارکی کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا یہاں تک دیکھا گیا ہے کہ بعض الل ٹپ طرز کے شعرا کو ایوان بالا تک رسائی ہونے کے سبب ہر چیز سے نواز دیا گیا لیکن جالبؔنے زندگی میں اور بعد از مرگ ان کی بیوہ نے کبھی کسی سے ایک پیسے کی فرمائش نہیں کی۔ حبیب جالبؔ کی بیگم ایک دن اْن سے ملاقات کیلئے جیل گئیں اور جالب سے کہنے لگیں۔ آپ تو جیل میں آگئے ہو یہ بھی سوچا ہے کہ بچوں کی فیس کا کیا بنے گا اور گھر میں آٹا بھی ختم ہونے والا ہے۔ حبیب جالبؔ نے اس ملاقات کے بارے میں ایک نظم لکھی۔ جس کا عنوان ’’ملاقات‘‘ رکھا۔ اس نظم کا ایک شعر یہ ہے ؎
جو نہ ہوسکی بات وہ چہروں سے عیاں تھی
حالات کا ماتم تھا ملاقات کہاں تھی
بھٹو کے بعد جنرل ضیاء الحق کا دور آیا تو حبیب جالب ؔنے نئے آمر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ؎
ظلمت کو ضیاء ،صرصر کو صبا،بندے کو خدا کیا لکھنااس ظلم وستم کو لطف وکرم، اس دکھ کو دوا کیا لکھنا
بے نظیر بھٹوکے دور میں حبیب جالبؔ کی یہ نظم بہت مشہور ہوئی ؎
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
بے نظیر کے بعد نوازشریف کا دور شروع ہوا اور اْنہوں نے عوام کے لئے اپنے بلند بانگ دعوے شروع کئے تو عوامی شاعر بیماریوں کی پوٹ بن گئے تھے مگر اْن سے رہا نہ گیا۔ میاں نواز شریف نے اپنے پہلے دورِ حکومت میں عوام کے لئے اپنی جان قربان کرنے کا مشہور بیان دیا تھا جس پر جالب ؔنے کہا کہ ؎
نہ جاں دے دو، نہ دل دے دو
بس اپنی ایک مِل دے دو
زیاں جو کرچکے ہو قوم کا
تم اس کا بل دے دو
کسی بھی حکومت کے سامنے نہ دبنے والا یہ شاعر بآلاخر بیماریوں سے بے بس ہو گیا جس کا اظہارحبیب جالب ؔنے ان الفاظ سے کیا:
بہت تذلیل تو کر لی ہماری زندگانی کی
اجازت موت کی اب ، ہم کو بن کے رحم دل دے دو
جالب نے اپنی موت کا نتیجہ بھی خود ہی لکھ دیا تھا ؎
اب رہیں چین سے بے درد زمانے والے
سو گئے خواب سے لوگوں کو جگانے والے
بدکردارسیاستدانوںکے افعال سے پیداہونے والاسیاسی جبرمعاصردنیاکاایک بڑاالمیہ ہے۔تیسری دنیاکے ملکوںکی سیاسی صورت حال کے تناظرمیںکہی گئی جالبؔ کی نظم’یہ وزیرانِ کرام‘ہماری وادی کی بھی سیاسی تماشے کی عکاسی کرتی ہے ؎
قوم کی خاطراسمبلی میںیہ مرجاتے بھی ہیں
قوت بازوسے اپنی بات منواتے بھی ہیں
گالیاںدیتے بھی ہیںاورگالیاںکھاتے بھی ہیں
یہ وطن کی آبروہیں،کیجئے ان کوسلام
یہ وزیرانِ کرام
یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کا جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے۔ ۱۳مارچ ۱۹۹۳ء کوؔ۶۵برس کی زندگی گزارکرعوام کایہ شاعراس جہان رنگ بو سے رخصت ہو گیالیکن اْن کی شاعری ہمیشہ زندہ رہے گی۔قتیل شفائی ؔنے اْن کی وفات پرکہا تھا: ’’اپنے سارے درد بھلا کر اوروں کے دْکھ سہتا تھا ہم جب غزلیں کہتے تھے وہ اکثر جیل میں رہتا تھا ۔‘‘
آپ کو نگار ایوارڈ ، انجمن تحفظ حقوق نسواں ایوارڈ ، گریجویٹ ایوارڈ، حسرت موہانی ایوارڈ ، جمہوریت ایوارڈ ، سوھن سنگھ جوش ایوارڈ، قومی فلم ایوارڈ ، نگار ایوارڈ اور ، نشان امتیاز بعد از مرگ حکومت پاکستان نے عطا کیا۔ حبیب جالب کامجموعہ ’’سر مقتل‘‘ ان کی سیاسی شاعری ہے۔ ایوب خان کے دور میں یہ مجموعہ چھپا اور چھپتے ہی ضبط کر لیا گیا۔اس سے جالبؔ اور مشہور ہوئے۔بہرحال حبیب جالبؔ کے جو مجموعے منظر عام پر آئے، ان میں برگ آوارہ، سرمقتل، عہد ستم، ذکر بہتے خون کا، گوشے میں قفس کے ، عہد سزا، حرف حق،صراط مستقیم۔گنبدِ بیدار، احادِ ستم اس شہر خرابی میں ،جالب نامہ، حرف سردار، کلیات حبیب جالبؔ اور فلمی گیتوں کا مجموعہ’ رقصِ زنجیر‘ شامل ہے ؎
صیادنے یونہی تو قفس میںنہیں ڈالا
مشہورگلستاںمیںبہت میری فغاںتھی
رابطہ :ریسرچ اسکالر،شعبہ اردوکشمیریونیورسٹی،سرینگر