ابھی سرکاری حلقے ماجد خان کی عسکر یت کو خیر باد کہہ کر اُس کی گھر واپسی کا جشن منانے میں مصروف ہی تھے کہ تہاڑ جیل میں کشمیری قیدیوںکی پولیس کے ہاتھوں وحشیانہ مار پیٹ نے ہر طرف ہلچل مچا دی اور سرکار کے لوگوں کو اپنانے اور انہیں گلے لگانے کے دعو ے خود بڑے سوال بن گئے ۔ جہاں سرکار کو اس بات کا پورا حق حاصل ہے کہ وہ اپنی عوام دوست پالیسیوں کیلئے کریڈٹ لینے کا دعویٰ کرے وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ سرکار اور اس کے ادارے معاملات کی حساس نوعیت اور ان کے منفی اور مثبت پہلوئوں کو سنجیدگی سے سمجھنے کی کوشش کرے۔ ماجد خان دراصل نہ ایسا پہلا اور نہ آخر ی نوجوان ہوگا جس نے عسکریت پسندی کو خیر باد کہہ کر اپنا گھر بسانے کا قدم اٹھایا ہو لیکن بدقسمتی سے سرکار کی طرف سے چند دنوں کی واہ واہ کے اظہار کے بعد ان لوگوں کی زندگیاں جہنم سے بھی بد ترین بن جاتی ہیں ۔ سرینڈر کرنے والوں یا جیل سے رہائی پانے والے عسکریت پسند وں کو نہ صرف سرکار بلکہ سماج کی طرف سے بھی اکثر اوقات مشکوک نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے ۔ لیکن افسوس اور تعجب کی بات ہے کہ سرکار اور سماج دونوں فریق عسکریت پسندوں کیلئے ہر حال میں موت کو ہی منزل مانتے ہیں ۔ جہاں سیکورٹی ایجنسیاں عسکریت پسندوں کی موت پر انہیں دہشت گرد کہہ کر اس کا جشن مناتی ہیں وہاں عوام کی غالب اکثریت ان کی موت کا سوگ منا کر انہیں اپنے قومی ہیرو مانتی ہے۔ اگر عسکریت پسند کسی وجہ سے بندوق کا راستہ ترک کریں یا پھر کسی عسکری کاروائی کے دوران گرفتار ہو جائیں تو بد قسمتی سے انہیں اپنی زندگی کی آخری سانس تک سرینڈرڈ عسکریت پسند کے نام سے ہی پہنچانا جاتا ہے ۔ سیکورٹی ایجنسیوں کی نظروں میں ان لوگوں کی حیثیت اور وفاداری ہر وقت مشکوک رہتی ہے ۔ جہاں سیاسی قیادت انفرادی یا اجتماعی سطح پر کئی بار سرینڈر کرنے کے باوجود مکرم و محترم اور باعث و تکریم مانی جاتی ہے وہاں عسکریت پسند کی کٹھن، صبر آزما اور مشکل ترین زندگی کو اس کے اپنے بھی بھول جاتے ہیں اور اکثر لوگ اس سے سرینڈر ملی ٹینٹ کے نام سے پکار کر اس کی عزت نفس کو شدید چوٹ پہنچاتے ہیں ۔ حد تو یہ ہے کہ ان کے بچوں کو معمولی مسائل کو لیکر تھانوں کی ویری فکیشن کے نام پر دن میں دس بار یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ سماج اور سرکار کی نظروں میں مجرموں سے کم نہیں ۔ جس طرح ماجد خان کی گھر واپسی کو لیکر محبوبہ مفتی نے اس سے بہت بڑی کامیابی کے طور پیش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی بالکل اسی طرح عمر صاحب نے کپوارہ کے لیاقت کی نیپال کے راستے آزاد کشمیر سے گھر واپسی کے وقت اس سے سنگ میل قرار دیا تھا لیکن اس کے باوجود لیاقت کو کس طرح ہندوستانی علاقہ میں داخل ہوتے ہیں فدائین قرار دیکر اس سے گرفتار کرکے سنسنی پھیلائی گئی اور پھر رہائی کے بعد اس کا کیا حال ہوا وہ ہر کسی کو معلوم ہے ۔ یہ بات ہر کسی کو سمجھنی ہوگی کہ عسکریت پسندوں کی ہلاکت یا ان کی گرفتاریاں ہی مسئلہ کشمیر نہیں ہے اور نہ ہی یہ لوگ کوئی پیشہ ورانہ مجرم ہیں کہ ان پر ہر بار چوروں کی طرح نظر رکھی جائے ۔ ایسے میں جب ارون جیٹلی جیسے لوگ اس بات کا دعویٰ کریں کہ سنگ بازی اور عسکریت پسندی دونوں کو کچل دیا گیا ہے تو ان کے طرز بیاں سے بھی یہ سمجھ آتی ہے کہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کیلئے مرکزی سرکار کے پاس کسی سنجیدہ پالیسی کا کس قدر فقدان ہے۔ دراصل عسکریت پسندوں کو مارنے اور عسکریت پسندی پر قابو پانے میں بہت بڑا فرق ہے ۔ اگر عسکریت پسندوں کو مارنا ہی معاملہ کا حل ہوتا تو پھر سرکار کے ان دعوئوں کا کیا ہو ا جب کئی برس قبل کہا گیا کہ وادی کے بیشتر علاقوں خاص طور سے جنوبی کشمیر سے عسکریت پسندی کا مکمل خاتمہ کیا گیا ہے ۔ غرض جب تک نہ عسکریت پسندی کے پیچھے موجود وجوہات کا ازالہ کیا جائے گا تب تک عسکریت پسندوں کی ہلاکتوں کے الٹے نتائج سامنے آنا طے بات ہے ۔ لہذا ماجد خان کی گھر واپسی کونہ صرف صحیح تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے بلکہ ایسے واقعات کی آڑ میں اصل مسئلہ سے توجہ ہٹانا بے حد نادانی کے مترادف ہوگا۔ وزیر اعلیٰ کو چاہئے کہ تدبر، دور اندیشی اور خلوص کا مظاہرہ کرکے ہرواقعہ کو اس کے منفی اور مثبت اثرات کے تناظر میں دیکھ کر وسیع سمت میں پیش رفت کرنے کی کوشش کرے۔ اُن کی سرکار کی طرف سے مبینہ سنگ بازوں کے خلاف مقدمے واپس لینے کا فیصلہ اگر چہ خوش آئند قدم ہے لیکن تب تک اس سے زمینی سطح پر کوئی بھی بڑی تبدیلی رونما نہیں ہو سکتی جب تک نہ ایسے لوگوں کے خلاف مقدمے واپس لئے جائیں جو عرصہ دراز سے یا تو جیلوں میں مقید ہیں یا پھر تھانوں اور عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں ۔ اس بات کا غالب امکان ہے کہ متعلقہ سرکار ی حکمنامہ پولیس فورس کے اندر موجود کالی بھیڑوں کیلئے معصوم لوگوں کو لوٹنے اور انہیں بلیک میل کرنے کا موثر ہتھیار بن جائے ۔ شائد محبوبہ جی اس بات سے بے خبر ہیں کہ ۲۰۱۶ء کی عوامی مزاحمت کے دوران لگ بھگ ہو چھوٹے بڑے واقعہ کے متعلق متعلقہ تھانوں میں لاتعداد ایف آئی آر موجود ہیں جن میں ـ’’تحقیقات جاری ہے‘‘ کے نام پر پولیس کے چھوٹے اہلکار بھی اپنی مرضی سے جس کا چاہے متعلقہ کیس میں اندراج کر سکتے ہیں اور پھر سرکار ی حکمنامہ کی آڑ میں ایف آئی آر واپس لینے کے نام پر موٹی موٹی رقومات کا تقاضہ کر سکتے ہیں ۔اگر واقعی سرکار کچھ کرنا چاہتی ہے اور بامعنٰی مذاکرات کو لیکر سنجیدہ ہے تو اس سے چاہئے کہ وہ عام معافی کا اعلان کرے اور قاسم فکتو، مسرت عالم اور غلام قادر بٹ سمیت تمام قیدیوں کو بلا شرط رہا کرے ۔ تہاڑ جیل میں کشمیری قیدیوں کی مار پیٹ کے واقعہ کے بعد وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے پاس وادی کے باہر تمام ریاستی قیدیوں کو اپنے اپنے اضلاع کے جیل خانوں میں منتقل کرنے کا سنہری موقعہ ہاتھ آیا تھا ۔ ایسا کرنا ان کا جہاں فرض عین بھی تھا وہاں اس سے ان کی اپنی اعتباریت بھی بڑھ جاتی لیکن لگتا ہے کہ ایک بات پھر صرف زبانی جمع خرچ کرکے اور مذمتی بیانات جاری کرنے پر ہی اکتفا کیا گیا ۔ جب محبوبہ جی قیدیوں پر جیل کے اندر حملہ ہونے کے واقعہ کو لیکر کوئی عملی قدم اٹھانے کے بجائے مزاحمتی قیادت یا مین اسٹریم اپوزیشن کی طرح مذمتی بیانات سے ہی کام لے لیں تو اس سے بڑی جماعت کی بات اور کیا ہو سکتی ہے ۔ بیرون ریاست قیدیوں کو وادی منتقل کرنے کیلئے نہ انہیں دلی سے اجازت لینے کی ضرورت ہے اور نہ ہی کوئی قانون پاس کرنے کی کیونکہ قواعد و ضوابط کے مطابق قیدیوں کو اپنے ہی اظلاع میں نظر بند رکھنے کی پوری گنجائش موجود ہے ۔ اگر یہ چند اقدامات اٹھا دئے جائیں تو عین ممکن ہے کہ جن مذاکرات کے نام پر نہ صرف درپردہ عجیب و غریب کھیل کھیلے جا رہے ہیں بلکہ ہر ایک بذات خود انتشار کا شکار دکھائی دیتا ہے انہیں آگے لیجانے کا کوئی آبرومندانہ راستہ نکل سکتا ہے۔ مزاحمتی قیادت کو بھی اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کہ وہ مین اسٹریم سیاستدانوں کے درپردہ یا براہ راست تعاون کے بغیر کب تک صرف اخباری بیانات سے اپنا کام چلائے گی ۔ ماجد خان ہوں یا لیاقت یا پھر تہاڑ کے اندر وحشیانہ پن کا شکار احتشام اور اس کے ساتھی یہ سبھی کا فرض ہے کہ ان کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کو اپنی اپنی دکانوں کیلئے خام مال کے طور اب آگے استعمال کرنے سے اجتناب کریں اور اب تک عسکری تحریک کے دوران جتنی بھی قربانیاں دی گئی ہیں ان کو کشمیر مسئلہ کے حل کیلئے مستحکم کرنے کی کوشش کریں ۔ مزاحمتی اور مین اسٹریم دنوں نظریات رکھنے والے سیاستدانوں کو چاہئے کہ خون خرابہ رکوانے کیلئے ہوشمندی سے کام لیں اور اگر صرف مارا ماری ہی مسئلہ کا حل ہے تو پھر سیاستدانوں کی ضرورت ہی کیا ہے ۔ عسکری تحریک کو کشمیر مسئلہ کو اجاگر کرنے کیلئے جس قدر کردار نبھانا تھا اس نے اسے سے کہیں زیادہ نبھایا اور اب یہ مزاحمتی قیادت کام ہے کہ وہ ان قربانیوں کے ثمرات کے حصول کیلئے روڑ میپ پیش کرے ۔