مولانا عبدالعزیز راجوروی بیسویں صدی کی ابتدائی دہائی میں راجدھانی راجوری میں پیدا ہوئے۔ کئی سال تک علم دین حاصل کرنے کے بعد اُنہوں نے 1931ء میں مسلم کانفرنس کی رکنیت اختیار کر لی۔ کچھ ہی دنوں میں وہ چودھری عباس کے بہت قریب آئے۔1939 ء میں مسلم کانفرنس کو جب ینشنل ازم کے رنگ میں رنگا گیا تو مولانا نے اس کی زبردست مخالفت کی۔ انہوں نے شیخ محمد عبداللہ کو بتایا کہ اس فیصلے سے مسلمانوں کا بہت نقصان ہوگا۔ شیخ محمد عبداللہ نے ان کو سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن ناکام رہے۔
کشمیر سے مایوس ہوکر وہ 1940 ء میں دلی گئے اور فتح پوری مدرسے میں مزید تعلیم کے لئے داخلہ لیا۔ یہاں وہ مسلم لیگ کی قیادت سے ملے اور بہت متاثر ہوئے۔ لیگ کا ممبر بنتے ہی انہوں نے ہندوستان کے طول و عرض میں لیگ اور قیام پاکستان کے حق میں مسلمانوں کی رائے عامہ منظم کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ اسی دوران کشمیر میں مسلم کانفرنس کی تشکیل نو عمل میں آئی۔ مولانا نے ا س کے سالانہ اجلاس میں شرکت کی۔ 1946 ء میں شیخ محمد عبداللہ نے کشمیر چھوڑدو کا نعرہ لگایا ۔ اس نعرے نے کشمیر میں ہلچل پیدا کی۔ مسلم کانفرنس تنظیم کو مزید فعال بنانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ چودھری عباس کے کہنے پر وہ تراڈ کھل پونچھ گئے اور اپنے دوست راج محمد شفیع کے ہاں قیام کیا۔ انہوں نے وہاں جوانوں کو جہاد کی ترغیب دینا شر وع کیااور کچھ ہی دنوں میں 60 رضاکاروں کو تیار کیا۔ کسی طرح سے اس کی اطلاع وزیر اعظم رام چندر کاک کو ملی ،مولانا کو گرفتار کیا گیا ۔ ان پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے گئے۔ ان کو جموں جیل میں نظر بند کیا گیا۔
17 ستمبر1948ء کو کشمیر کمیشن کے ممبران نے جیل کا دورہ کیا۔ مولانا اس وقت جیل کے ہسپتال میں زیر علاج تھے اور بڑی بے صبری سے کمیشن کا انتطار کر رہے تھے لیکن جب کمیشن کے ممبران ہسپتال کو دیکھے بغیر جانے لگے تو مولانا نے پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعرے بلند کئے۔ کمیشن وہاں جانا چاہتا تھا لیکن نائب وزیر اعظم بخشی غلام محمد نے ان سے کہا کہ کوئی پاگل ہے لیکن کمیشن مولانا تک پہنچ ہی گیا۔
بخشی کو نظر انداز کرتے ہوئے مولانا نے کہا کہ جیل میں 300 سیاسی قیدی ہیں جن کو علاج ومعالجے کی ضرورت ہے۔ یہاں 2عورتیں بھی قید ہیں اور ان کی حالت بہت خراب ہے۔ باقی جیلوں سے بھی ایسی ہی اطلاعات ملی ہے۔ یہ باتیں مولانا نے کمیشن سے کہیں۔ پھر بخشی پر حقارت آمیز نظر ڈال کر مولانا نے کہا ’’ ان نیشنل کانفرنسی کارکنوں نے ہم پر بہت ظلم کیا ہے، یہ ہماری آواز دبانا چاہتے ہیں، ریاست جموں کشمیر کے عوام پاکستان چاہتے ہیں اور اس میں کوئی قباحت نہیں ہے لیکن یہ لوگ بندوق کی نوک پر ہم پر حکومت کرنا چاہتے ہیں۔البتہ ریاست کے مسلمان اس کو کبھی برداشت نہیں کرسکتے۔ ہماری جدوجہد جاری رہے گی‘‘۔مولانا نےاپنی جیب سے ایک کاغذ نکالا اور اس کو کمیشن کے ممبران کو دینا چاہتے تھے کہ بخشی نے اپنا ہاتھ بڑھایالیکن اس سے پہلے ہی کمیشن کی کو سٹینو نے اس کو مولانا سے لے لیا اور بخشی دیکھتا رہ گیا۔ کمیشن کے ممبران اسے دیکھ کر حیران رہ گئے۔ یہ سیاسی قیدیوں کی طرف سے ایک میمورنڈم تھا جس میں ان کی حالتِ زار بیان کی گئی تھی۔
نوٹ : کالم نگار ’’گریٹر کشمیر‘‘ کے سینئر ایڈ یٹر ہیں
فون نمبر9419009648