محمد خورشید اکرم سوزؔ کو خدا تعالیٰ نے شاعری کا ذوق وشوق ودیعت فرمایا ہے۔وہ بنیادی طور پر بہار کی مردم خیز سر زمین سے تعلق رکھتے ہیں کہ جہاں بڑے باکمال ادبا،شعرا،مفکّرین اور ماہر دینیات نے جنم لیا ہے۔سوؔز کو چھوٹی ہی عمر میںشعر وشاعری کا چسکا پڑ چکا تھا۔گھر کے ادبی ماحول نے ان کے شعری ذوق کو پروان چڑھا نے میں مہمیز کا کام کیا ،مگر شاعری چونکہ بڑا نازک اور نفیس فن ہے اس لیے بغیر مرشد کامل کے کوئی اچھا شاعر نہیں بن سکتا۔چنانچہ محمد خورشید اکرم سوزؔ نے حضرت مشیر جھنجھانوی کو اپنا استاد بنایا اور باضابطہ طور پر ان سے اصلاح لیتے رہے۔انھوں نے مختلف شعری اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ خورشید اکرم سوؔز نہ تو کسی دینی مدرسے کے معلّم ہیں اور نہ ہی کسی اسکول،کالج یا یونیورسٹی میں ادب کے استاد ہیں بلکہ وہ پیشے کے اعتبار سے کوئلے کی کان میںبحیثیت نگران کام کرتے ہیں۔1983میں انھوں نے شعر کہنا شروع کیے۔زندگی کے نشیب وفراز اور کائنات کے اسرار ورموز جاننے پرکھنے کی جستجو کو شعری جامہ پہناتے پہناتے وہ ’’سوز دل‘‘ تک پہنچے ہیں۔
محمد خورشید اکرم سوزؔ کاصوری ومعنوی خوبیوں سے مزّین مجموعہء کلام’’سوز دل‘‘میری نظروں کے سامنے ہے۔ٹاٗئٹل صفحے کے بالائی مقام پرخورشید اکرم سوزؔ کی پاسپورٹ سائز تصویر ہے اور نیچے ان کی رفیقہء حیات محترمہ نزہت جہاں قیصر صاحبہ کی تصویر ہے جبکہ وسط میں دل کی تصویر بنائی گئی ہے۔انسان کے جسم میںچونکہ دل ہی وہ اہم حصّہ ہے جو نفرت وکدورت،بغض وعناد یا پھر محبت و ہمدردی،ایثار وخلوص،غم وغصّے اور نیک نیتی یا بد نیتی کا حامل ہو تا ہے ۔گویا دل بظاہر گوشت کا ایک لوتھڑا ہوتا ہے مگر اس کے اندر ایک دنیا آباد رہتی ہے۔دل جب روتا ہے توآنکھیں آنسو بہانے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔بصورت دیگر جب دل خوش ہوتا ہے تو آدمی گنگنانے لگتا ہے۔غرضیکہ خوشی وغمی کی صدا براہ راست دل سے آتی ہے۔اس اعتبار سے کہا جاسکتا ہے کہ خورشید اکرم سوؔز نے اپنے مجموعہء کلام کا نام ’’سوزدل‘‘نہایت موذوں اوروسیع المعانی رکھا ہے۔یہ بھی خوشی کی بات ہے کہ موصوف نے اپنا کلام اردو اور ہندی دونوں رسم الخط میں شائع کرواکے کروڑوں لوگوں تک اپنے دل کے احساسات وجذبات اور تجربات ومشاہدات زندگی کو پہنچانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ایک طرف اردو اور دوسری طرف ہندی میںشائع شدہ سوؔز کا کلام قاری کوذہنی حظ ،روحانی بالیدگی اور قلبی سکون فراہم کرتا ہے۔زیر نظر شعری مجموعے کو خورشید نے اپنے والد محترم جناب حضرت مولانا عبدالصّمد صاحب ،اپنے استاد سخن جناب حضرت مشیر جھنجھانوی،اپنی شریک زندگی محترمہ نزہت جہاں قیصر، برادر عزیز محمد سہیل اور فرزند ارجمند محمد شکیب اکرم کے نام منسوب کیا ہے۔اس اعتبار سے دیکھا جائے تو زیر نظر مجموعہء کلام کا انتساب بھی خوب ہے کیونکہ باپ،استاد،بیوی،بھائی اوربیٹا ہر شخص کو نہایت عزیز ہوتے ہیں اور ان سے ہر کسی کو بہت سی امیدیں ہوتی ہیں ۔انتساب میں والدہ محترمہ کو بھی شامل کیاجانا چاہیے تھا کیونکہ ماں جیسی عظیم نعمت اور شفیق ہستی کا دنیا میں کوئی بدل نہیں ۔
’’سوزدل‘‘پہ جن صاحب بصیرت اور سخن فہم وسخن شناسوں نے اپنے ذریّں خیالات تحریر کیے ہیں ان میںمخمور سعدی،ڈاکٹر محبوب راہی،پروفیسر علیم اللہ حالی،پروفیسر منظور الامین،ڈاکٹر سیّد یحییٰ نشیط،سید شکیل دسنوی اور ڈاکٹر عفت زریّں،شامل ہیں۔اسکے علاوہ چندمشاہیر ومعاصرین کے تاثرات میں جن ادبا وشعرا نے’’سوز دل‘‘پہ اپنے تاثرات رقم کیے ہیںان میں پروفیسر شرف عالم،کرشن کمار طور،فاطمہ تاج،سید ظفر ہاشمی،رفیعہ منظور الامین،ارشد کمال،ڈاکٹر ثروت خان،خلیل تنویر(مدیر ہفت روزہ راشٹریہ سہارا)اور فخرالدّین عارفی جیسے اہل نقد ونظر شامل ہیں۔محمد خورشید اکرم سوؔز نے ’من آنم کہ من دانم‘عنوان کے تحت اپنے خاندانی اور شعری سفر کی روداد تحریر کی ہے۔
’’سوز دل‘‘ کا ابتدائی حصّہ منظومات سے تعلق رکھتا ہے۔ایک موحد اور عاشق رُسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جذبے سے سرشار محمدخورشید اکرم سوز ؔ نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا سے اپنی سخن طرازی کاآغاز کیا ہے۔چنانچہ تین نظمیں اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا سے تعلق رکھتی ہیں۔علاوہ ازیں’ گلہائے عقیدت‘ اور’ نبی محترم میرے‘ایسی نظمیں ہیں جن میں سرورکائنات،فخر موجودات،ختم رالّرسل جناب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف وتوصیف کی گئی ہے۔نظمیہ حصّے میںجن نظموں نے میرا دل موہ لیا ہے ان میں ’سالگرہ ہے کیسی میری‘مجھے پیار کرنے کی فرصت کہاں ہے‘رکت دان‘آج ہولی آئی ہے‘اور خدا کی یہ ریت کہاں‘ان نظموں میںسوز نے روایتی اسلوب میںجدید دور کے انسان کی سوچ،اس کی مادہ پرست اور سفاکانہ ذہنیت کی نقاب کشائی کی ہے۔شاعر کو جہاںوقت کے گزر جانے کا شدید احساس ہے تو وہیںانسان کی بے بسی اور بیتے لمحوں کی یادبھی اسے تڑپاتی ہے۔مثلاًسوزؔ کی نظم ’سالگرہ ہے کیسی میری‘سے ماخوز ان اشعار کے لفظ و معانی پر غور وفکر کیجیے۔بقول سوزؔ:
بچپن پیچھے چھوٹ گیا ہے
شائد مجھ سے ُروٹھ گیا ہے
روٹھے گی پھر یار جوانی
رہ جائے گی بن کے کہانی
چھائی ہے ہر سمت اُداسی
لب بھی تشنہ روح بھی پیاسی
بیت گئے جو پل جیون کے
واپس کیسے اب آئیں گئے
میں بیٹھا یہ سوچ رہا ہوں
آخر کیوں میں جشن مناوئں
مندرجہ بالا اشعار میں شاعر نے واضح الفاظ میں انسان کی زندگی میںوقت کی اہمیت وافادیت کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ پورے حیات انسانی کے ارتقائی سفر پرغور وفکر کی دعوت دی ہے۔مزید برآں اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ انسان وقت کے آگے کلیتاً بے بس ومجبور ہے۔شاعر اپنی سالگرہ منانے کے لیے تیار نہیں کیونکہ اسے اس بات کا بخوبی علم ہے کہ سالگرہ مناکر وہ اپنی پیدائش کے ماہ وسال کاحساب کرکے رنج وغم میں مبتلا ہوگا۔چونکہ بچپن اس سے روٹھ گیا ہے اور آہستہ آہستہ جوانی بھی اس سے رخصت ہوجائے گی۔پھر وہ بوڑھا ہوکر ایک دن فنا ہوجائے گا۔یہاں اس بات کا ذکر کرنا بے محل نہ ہوگا کہ موجودہ دور میںہمارے معاشرے میںجنم دن(Birth Day)منانے کی رسم تقریباً عام ہوچکی ہے۔انگریزوں کی عطا کردہ یہ بھونڈی رسم ہم سب بڑے چائو سے مناتے ہیں۔گویا ہم اپنی زندگی کے گزرجانے یا ایک ایک سال کم ہونے کا جشن مناتے ہیں۔محمد خورشید اکرم سوزؔ نے بڑے خوبصورت شعری پیرائے میںاس بھونڈی رسم کو مسترد کیا ہے۔
محمد خورشید اکرم سوزؔ کی تخلیقی شخصیت کاایک صحت مند اور خوشگوار پہلو یہ ہے کہ وہ تخلیقی عمل میں اخلاقی اقدار کے تحت ایک صالح نظام زندگی(جس میں امیر وغریب کا امتیاز نہ رہے)کی بحالی کے متمنی نظر آتے ہیں۔عوامی روابط کو برقرار رکھنے کی مقصدیت کے پیش نظر اپنے سکھ چین کو بھول جاتے ہیں۔وہ ایک ترقی پسند نظریے کے تحت اپنے گرد وپیش میں روتے ترستے غریب عوام کی حالت کو دیکھ کر رنجیدہ ہوجاتے ہیںاور اپنے رومان پرور ماحول کو بھول جاتے ہیں۔اپنی نظم ’مجھے پیار کرنے کی فرست کہاں ہے‘میں جہاں وہ ایک طرف اپنے محبوب کے پری پیکر وجود کا نقشہ کھینچتے ہیںتو دوسری طرف جب ان کی نظر مفلوک الحال عوام پر پڑتی ہے تو وہ اپنے محبوب کے دلکش وجود کو بھول جاتے ہیں اور تب اُن پہ ایک طرح کی اضطرابی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔مذکورہ نظم کے چند اشعار محمد خورشید اکرم سوزؔ کے اسی راست جذبے کااظہار ہیں:
ہے تیرے لبوں پر یہ لالی شفق کی
گھٹاوں کی صورت ہے ذ لف سیہ بھی
تری آنکھیں ہیں یا کوئی جھیل گہری
ترا حسن دلکش ادا ہے نرالی
دُھلا چاندنی میں یہ ترا بدن ہے
لچک تیرے تن میں کسی شاخ کی سی
بڑے پُر کشش ہیں خد وخال تیرے
تُو پھولوں سے جیسے لدی کوئی ڈالی
۔۔۔۔۔
زمانہ ترقی بہت کر چکا ہے
مگر ہم غریبوں کو کیا کچھ ملا ہے
کہیں بچّے روئے ہیں روٹی کی خاطر
کہیں بے کسی کا بھی سو دا ہوا ہے
کھلونوں کے بدلے میںآنسو ملے ہیں
یہاں نونہالوں کا بچپن بکا ہے
کہیں بنت حوّ اکی عصمت لٹُی ہے
کہیں بے قصوروں نے پائی سزا ہے
محولہ نظم کاپہلا بند ہمارے جمالیاتی احساس کو بیدار کرتا ہے۔شاعر نے اپنے محبوب کے حسن وجمال اور خد وخال کو جن خوبصورت تشبیہات کے ساتھ پیش کیا ہے وہ نسوانی حُسن کا ایک اعلیٰ معیار متصور کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس پری پیکر محبوب کے پہلو میں بیٹھنا اور اس سے ذہنی و جسمانی حظ حاصل کرنے کی شاعرکو فرصت نہیں کیونکہ اس کے دل میںغریب اور نادار عوام کا دکھ درد موجود ہے۔شاعر کے سامنے ایک ایسا معاشرہ ہے جہاںغریب اورکمزور لوگوں کا استحصال ہوتا ہے۔محمد خورشید اکرم سوزؔ اپنی شاعری کے ذریعے عوام کو پیغام امن،خود آگہی،خود شناسی،ذہنی بیداری،محبت،خلوص اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی فضا قائم کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔اس ضمن میں ان کی نظم ’رکت دان‘اور ’آج ہولی آئی ہے‘ کافی اہم ہیں جن میںان کے سیکولر جذبات کی ایک واضح جھلک یوں سامنے آتی ہے:
آپ کے خون سے جاں کسی کی بچے
اس سے بہتر بھلا اور کیا بات ہے
اس کے بدلے دُعا جو ملے آپ کو
اس سے بڑھ کر بھلا کون سوغات ہے
اس لیے آپ کرتے رہیں رکت دان
دوستو! آپ ہنس کر کریں رکت دان
۔۔۔۔
نفرتیں مٹانے کو آج ہولی آئی ہے
دل سے دل ملانے کوآج ہولی آئی ہے
ایکتا کا سندیش اب
سوزؔ ہم سناتے ہیں
عید تم مناو اور
ہولی ہم مناتے ہیں
عید کی بہن بن کر آج ہولی آئی ہے
خوشبوئے چمن بن کر آج ہولی آئی ہے
۔۔۔۔۔
’’سوز دل‘‘میںمحمد خورشید اکرم سوزؔ کی کُل64غزلیں شامل ہیں اور آخر پہ دو قطعات بھی درج ہیں۔جنھیں پڑھتے ہوئے قاری پر وجد کی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔تمام غزلیں نغمگی،معنی آفرینی،پاکیزہ جذبات و احساسات کی حامل ہونے کے علاوہ معاصر زندگی کے ذہنی،سیاسی و سماجی انتشار واختلال کی غمازی کرتی ہیں۔سوزؔ ایک بیدار مغز اور انتہائی حساس شاعر ہیں۔انسانی قدروں کی شکست وریخت اور سیاسی بازی گروں کی منافقانہ چالوں پر وہ ماتم کناں نظر آتے ہیں۔خورشید اکرم سوزؔ کی شاعری میں حسن وعشق کی کار فرمائی بھی ہر جگہ محسوس ہوتی ہے۔ان کی بہت سی غزلیں حسن وعشق کے روایتی تصّور سے ہم آہنگ ہیں۔کئی اشعار میں وہ اپنے محبوب کے لیے محل محبّت تعمیر کرنا چاہتے ہیں اور کہیں وہ اس کی بے وفائی اور بے مروتی کا گلہ بھی کرتے ہیں۔سوزؔ نے کہیں بھی حسن وعشق کے بیان میںغیر مہذب رویّہ اختیار نہیں کیا ہے۔وہ زبان وبیان کے شائستہ اسلوب میں اپنے عشقیہ جذبات واحساسات کااظہار کرتے ہیں۔اس لیے یہاں یہ کہنا غیر موذوں نہیں ہوگا کہ سوزؔ نے اخلاقی حدود میں رہتے ہوئے روایت اور جدت سے اپنے کلام کوہم آہنگ کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سوزؔ نے شاعری کے موضوعات میں تنّوع ، نیا پن لانے اورپامال مضامین کو نئے اسلوب میں باندھنے کی بھر پور سعئی کی ہے کہ جن میں وہ کسی حد تک کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔سوزؔکی غزلوں سے ماخوذ مندرجہ ذیل اشعار مثال کے طور پر پیش کیے جاسکتے ہیں:
ہچکی سی پھر آئی مجھ کو
شائد تونے یاد کیا ہے
۔۔۔
یہ زمیں کیا آسماں تک عشق کا چرچا ہوا
ہر جگہ ہمراہ میرے میر ی رسوائی گئی
ان تمام اشعار میں تغزل کا رنگ موجود ہے۔سوزؔ کا تصور حسن وعشق پاکیزہ اور پر کشش ہے۔والہانہ عشق کے جنون میں محبوب کی جلوہ آرائیاں اور اس کاانداز دلربائی شاعر کو اس طرح کے شعر کہنے پر آمادہ کرتا ہے۔وارفتئگی شوق کا یہ عالم ہے کہ محبوب کی نظر ملتے ہی شاعر بے ہوش ہوجاتا ہے۔گویا حسن کے آگے عشق ہرن ہوگیا ہے۔سوزؔ کا یہی انداز بیاں قاری کو ان کا گرویدہ بنالیتا ہے۔
خورشید اکرم سوزؔ کی غزلوں کے بہت سے اشعار نئی فکر،نئے تجربے اور جدید معاشرے کی پتھریلی ذہنیت کو پیش کرتے ہیں۔انھوں نے زندگی اور معاشرے کے متعلق اپنے جن افکار وخیالات کوشعری جامہ پہنایا ہے،وہ قاری کو نئی بصیرت اور نیا شعور عطا کرتے ہیں۔مثال کے طور پرسوزؔ کا یہ شعر ملاحظہ کیجیے:
دشمن کی سازشو کا ہمیں خوف کچھ نہیں
ڈرتے ہیں دوستوں کی مگر دوستی سے ہم
محمد خورشید اکرم سوزؔکا مجموعئہ کلام ’’سوزدل‘‘(جو اردو اور ہندی میں شائع ہوا ہے)کی کُل تعداد صفحات268ہے ۔پورے مجموعہء کلام کا مطالعہ کرنے کے بعد اس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ سوزؔ ایک د رد مند دل،وسیع النّظر اور سیکولر جذبات واحساسات کے شاعر ہیں۔علم عروض سے کماحقہ، واقف ہیں۔اس لیے شعر کہنے کا ہنر جانتے ہیں۔’’سوزدل‘‘کامطالعہ کرنے کے دوران مجھے اس بات کی بھی خوشی ہوئی کہ سوزؔ نے اپنے پورے خاندان والوں،بیوی بچّوں،دوست واحباب اور اپنے استاد محترم جناب مشیر جھنجھانوی کی تصویریںمذکورہ شعری مجموعے میںشامل فرماکر رشتوں کا نہ صرف احترام کیا ہے بلکہ ان کی اہمیت کا احساس بھی کروایا ہے ۔عصر حاضر میں جب کہ رشتوں کی پامالی اور بے قدری ہمارے سامنے ہے مجھے امید ہے اس مادیت پرستی کے دور میں خورشید اکرم سوزؔ کا ’’سوزدل‘‘پھر سے دلوں کو جوڑنے اور رشتوں کو سمجھنے کا ایک موثر وسیلہ ثابت ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رابطہ اسسٹنٹ پروفیسر، شعبٔہ اردو ،بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری(جموں وکشمیر)
9419336120