جموں کے گول گجرال علاقے میں جموں ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور پولیس کی طرف سے 30سالہ قدیم اور محکمہ اوقاف کے پاس رجسٹرڈ مدرسے کا مہندم کیاجانا ایک اشتعال انگیز کارروائی ہی کہی جاسکتی ہے جس سے مسلم طبقہ کے دینی جذبات کو زبردست ٹھیس پہنچی ہے ۔شرپسندانہ عزائم کے ساتھ ایک مخصوص طبقہ کے خلاف اس طرح کی کارروائیاں تو پہلے بھی انجام دی جاتی رہی ہیں لیکن ایسا کم ہی ہواہے کہ کسی مذہبی اہمیت کی عمارت کو نشانہ بناکر جذبات بھڑکانے کی کوشش کی گئی ہو۔انہدامی کاروائی سے قبل مدرسے کے اندر موجود چیز یں حتیٰ کہ مذہبی کتب بھی نکالنے کی اجازت نہیں دی گئی، جس کی وجہ سے اس کاروائی کے دوران مقدس کتب کی بے حرمتی ہوگئی، جس سے گمان غالب ہوتاہے کہ اس کارروائی کے ذریعہ کچھ اور مقاصد حاصل کئے جانےمطلوب تھے، تاہم اس مرحلے پر مسلم طبقہ نے صبر وضبط کا جومظاہرہ کیاوہ بے مثال اور قابل ستائش ہے ، وگرنہ ایسا بھی ہوسکتاتھا کہ جذبات کو ٹھیس پہنچانے والی اس کارروائی سے جموں میں ہی نہیں بلکہ پوری ریاست میں حالات پر منفی اثرات ثبت ہو سکتے تھے ۔اس واقعہ پر مقامی لوگوں نے زور دار احتجاج کیا اور مظاہرین کی پولیس سے جھڑپیں بھی ہوئیں جبکہ خطہ بھر کی مسلم آبادی میں حکام کے تئیں غم و غصہ پایاجارہاہے ۔ مقامی لوگوں کے مطابق یہ مدرسہ 1987میں قائم کیا گیا اوریہ باقاعدہ اوقاف اسلامیہ میں رجسٹرڈ ہے۔حالیہ کچھ عرصہ سے جموں میں ایک مخصوص طبقہ کو چن چن کر نشانہ بنایاجارہاہے اور تشویشناک بات یہ ہے کہ سرکاری ادارے بھی اس کام میں پیش پیش ہیں اور وہ تمام ایسی کارروائیاں انجام دے رہے ہیں جو جموں کے ایک مخصوص نظریاتی طبقہ کی منشا سے مطابقت رکھتی ہیں۔ لیکن افسوسناک بات ہے کہ ریاستی سرکار نے اس معاملے پر چپ سادھ رکھی ہے اور اس سلسلے میں کوئی اقدام نہیں کیاجارہا۔ تجاوزات ہٹانے پر کسی کو اعتراض نہیں ہوسکتا لیکن اس میں امتیازی رویہ اختیار کرکے کسی ایک طبقہ کو نشانہ بنانا کہاں کا انصاف ہے۔؟ یہاںسوال یہ پیداہوتاہے کہ آخر کس کے ایماپر یہ کارروائی انجام دی جا رہی ہے اور کس کے کہنے پر ریاست کے امن کو دائو پر لگاکر اتنا سخت قدم اٹھایاگیا۔جموںشہر کے متعدد علاقوں میں قائم تجارتی عمارات کو ہٹانے کےلئے احکامات موجود ہیں لیکن کبھی بھی ان کے خلاف کاروائی کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی، لہٰذا یہ بات خارج از امکان نہیں کہ قانون کی آڑ لیکر بد امنی کے لئے زمین ہموار کی جارہی ہے۔جموں کا امن ریاست کے امن کیلئے اہم ہے اور اگر اس شہر میں بدامنی کی فضا قائم کرنے والے اپنی کوششوں میں کامیاب ہوگئے تو اس کے ریاست بھر میں سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں اس لئے سرکار کوایسے واقعات پر آنکھیں موندھ لینے کے بجائےانصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کاروائی کرنی چاہئے۔غیر قانونی تجاوزات کیخلاف چلائی جارہی اس مہم کو ایک طبقہ کے خلاف استعمال کئے جانے سے کبھی نہ کبھی صبر کا پیمانہ لبریز ہوسکتاہے ۔اگرچہ حکومت نے ابتدائی طور پر کارروائی کرتے ہوئے متعلقہ ایس ایچ او کوپولیس لائنزکے ساتھ منسلک کردیا لیکن محض اتنی سی کارروائی سے کام نہیں بن سکتا بلکہ ملوثین سے سختی سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی یقینی بنایاجاناچاہئے کہ آئندہ اس طرح کی حرکات انجام نہ دی جائیں اورجموں کا پرامن ماحول قائم و دائم رہے اور فرقہ وارانہ کشیدگی کیلئے راہ ہموار نہ ہونے پائے ۔