امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو تاریخ شاید ہی کسی اچھے نام سے یاد کرے گی کیونکہ انہوںنے اقتدار سنبھالتے ہی اپنے مسلم دشمن ایجنڈے پر عمل درآمد زور وشور سے شروع کیا۔ سب سے پہلے سات مسلم ملکوں کے شہریوںکے لئے امریکہ آنے جانے پر قانونی بندش عائد کی اور اب اپنی تین روز قبل مسلم دشمنی کی ترنگ میں آکرفلسطین کے تعلق سے حق وانصاف کا گلا گھونٹ دیا ۔ یہ ۶ ؍ دسمبر کاد ن تھا جب انہوں نے الل ٹپ تل ابیب میں قائم امریکی سفارت خانے کو مسلمانوں کے قبلہ ٔ اول بیت المقدس کے قرب و جوار میں منتقل کرنے کے احکامات جاری کر دئے۔ اس شرارت انگیز فیصلہ کو پوری دنیا نے غم اور حسرت کے ساتھ سنا۔ بالخصوص بر صغیر میں اُس وقت بابری مسجد کی شہادت کے پچیس برس پورا ہونے کا سوگ منایا جارہاتھا جب یہ منحوس خبر سوگوار لوگوں کے گوش سماعت سے ٹکرائی اور ان کا غم وغصہ دوچند کر گئی۔ امریکی صدر نے تمام تکلفات یکسربر طرف کر کے یہ فیصلہ کیوں لیا جس سے مسلمانان ِ عالم مشتعل ہوگئے اور انصاف پسند اور امن نواز دنیا ورطہ ٔ حیرت میں پڑگئی ، اس بارے میںٹرمپ کی منچلی سیاسی شخصیت اور غیر جمہوری سوچ ہی خود ہی ایک حوالہ اور اشارہ ہے۔ واقعی ان سے ایسی ہی شدت پسندی کی توقع کی جاسکتی ہے ۔ انہوں نے خود صاف کر دیا کہ ان کے پیش رو دیگر امر یکی صدور بھی یہی کر نا چاہتے تھے مگر اُن میں ’’ہمت ‘‘ نہ تھی ۔ اگر سابقہ صدور ’’کم ہمت‘‘ تھے تو موجودہ امریکی صدر کو یہ زعم ِباطل ہے کہ وہ’’باہمت‘‘ ہیں۔ سچ یہ ہے کہ یہ ’’ہمت‘‘ ٹرمپ جی نے کسی بازا ر سے نہیں خریدی ہے بلکہ یہ اُن کی صلیبی گھٹی میں پڑی ہے ۔ اُن کی اس’’ہمت‘‘ میں زورِ بازو کا دبد بہ چھپا ہے نہ کہ تدبر وتفکر اور امن پسندی کی کوئی گہرائی۔ بہرصورت امریکہ کا یہ اقدام اپنے اندردوررس اثرات ومضمرات کی وسیع کا ئنات رکھتا ہے۔ اس کے منفی اثرات دنیا بھر میں ظالموںاور مظلوموں، زبر دستوں اور زیر دستوں کے مابین غیر مساوی معرکوں پربالواسطہ پڑیں گے ، جب کہ آزادی ٔ فلسطین کی عالمی حمایت یافتہ تحریک کے لئے براہ راست مسائل پیداہو نے کا خدشہ موجودہے۔ حماس کا نیا انتفاضہ شروع کرنے کا اعلان اس سلسلے کا بادہ پیماہے۔ یہ اقدام فلسطینی کاز کے ساتھ ساتھ امن عالم کے لئے بھی ایک بہت بڑ ادھچکا ہے ۔ مقبوضہ بیت المقدس پر ایک طویل عرصے سے اسرائیل کی میلی آنکھ مر کو ز ہے۔ صیہونی مملکت چاہتی ہے کہ یروشلم اس کا دارلحکومت بنے مگر فلسطینی بے تحاشہ جانی اور مالی قربانیاں دے کر صیہونیوں کی اس ناپاک خواہش میں سدراہ بنے ہوئے تھے ۔ افسوس کہ ٹرمپ نے بیک جنبش قلم ان قربانیوں پر پانی پھیر کر اب اسرائیل کے مکروہ عزائم کی بند راہ کھول دی ہے ۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ ماضی ٔ قریب میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ۱۵؍ میں سے ۱۴؍ ارکان نے بھی اسرائیل کی اس ناپاک ونامرادخواہش کو نکارا جب کہ پندرہویں رُکن امریکہ نے اجلاس سے غیر حاضر رہ کر تاثر دیا کہ وہ بھی نہیں چاہتا کہ مقبوضہ بیت المقدس یہودی ملک کی راجدھانی بنے لیکن صدر ٹرمپ نے اقوام متحدہ کو بائی پاس کر کے نامعقول اسرائیلی منشا ء پورا کر نے کا بیڑا اُٹھایا ہواہے ۔ غور طلب ہے کہ امریکی صدرنے اپنے فیصلے کے جواز میں یہ بھونڈی دلیل دی کہ اس سے یہودی ،عیسائی اور مسلمان متحد ہوجائیں گے، جب کہ حقیقت حال یہ ہے کہ اس سے تینوں مذاہب ماننے والوں میں مزید شکوک وشبہارت ، منافرتیں اوررقابتیںپیدا ہوںگی جس کا ناجائز فائدہ انتہا پسنداور شدت پسندلازماً اٹھائیں گے۔ اس میں رتی بھر شک نہیں کہ یہ اقدام ا مریکی انتظامیہ کی جانب سے اسرائیل کی پیالہ برداری ہے جو اس بات پر دلالت کر تا ہے کہ سپر پاور امر یکہ دنیائے اسلام سے صلح جوئی کے بجائے لڑائی مول لینے کے حیلے بہانے تر اشتاجا رہاہے ۔ دنیا کے ا س واحد پولیس مین نے ۱۹۸۶ء سے جتنی بھی جنگیں چھیڑیں وہ سب مسلم ممالک کے خلاف تھیں۔ فلسطین ، افغانستان، عراق، شام، سوڈان ، لیبیا ، مصر، الجزائر سمیت دنیا کے دیگر مسلم خطہ ہائے مخاصمت میں امریکہ کا گھناؤنا جنگی کردار ڈھکا چھپا نہیں۔ یہ مسلم ملکوں کو بلا روک ٹوک مسلسل تاراج کرتاجارہاہے، القاعدہ اور داعش وغیرہم بھی اسی کی ایجادیں ہیں ۔ اب اس نے اسرائیل کی حمایت میں اور فلسطینی مزاحمت کچلنے کی غرض سے القدس کو میدان جنگ بنانے کی ٹھان لی ہے ۔ قابل صد توسف بات یہ ہے کہ صدر ٹرمپ اس دل آز اداور جگر سوز کارروائی کو کھلے عام امر یکی مفاد جتلا رہاہے ، تو کیاعالم اسلام کو اضطراب و بے چینی میں دھکیلنا امر یکہ کامفاد ہے ؟ ایک اور پہلو سے بھی یہ حسا س معاملہ قابل مذمت ہے ۔ اس وقت جب ۸۶؍ ممالک کے سفارت خانے تل ابیب میں موجود ہیں جو اپنے سفارتی فرائض بخوبی انجام دے رہے ہیں ۔ پھرکیا وجہ ہے کہ واحد امر یکہ کو اپنی ایمبیسی بیت المقدس منتقل کرنے کی سوجھی ؟ اصل حقیقت ہے کہ اسرائیل امریکہ کا ہی بغل بچہ ہے ۔ ا س نے اپنی چھاتی کادودھ پلا کر اسے پالا پوسا اور ا س قابل بنایا کہ یہ گر یٹر اسرائیل کا خواب دیکھ کر اپنے گردونواح کے عرب ممالک کو ہمیشہ حالت جنگ میں رہنے پر مجبور کرنے کے لئے ڈستا جارہاہے تاکہ عرب دنیا اپنے دفاعی ساز وسامان کے لئے امریکہ کے اسلحہ ساز کارخانے کی رونقیں پٹرو ڈالرس سے بڑھاتی رہے اور خلیجی ممالک ایک دوسرے سے اسرائیل مخالف اتحاد کے بجائے آپسی رسہ کشی اور سر پھٹول میں لگے رہیں ۔ یہ کوئی محتاج تشریح حقیقت نہیں کہ واشنگٹن ہمیشہ منافقت کی چاد راوڑھے مشرق وسطیٰ میں زبانی کلامی صلح صفائی کا دم بھرتا رہا ہے مگر تاریخ گواہ ہے کہ ا س نے روزِاول سے جابر و قابض اسرائیل کی پیٹھ ٹھونک کر فسلطین مسئلے کو جان بوجھ کر پیچ در پیچ اُلجھایا ، نتیجہ یہ کہ اتنا خون خرابہ اور جنگیں ہونے کے باوجود اس مسئلے کا کوئی تصفیہ ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ جمہوریت اوراحترام آدمیت کا دعویٰ رکھنے والے امریکہ بہادر نے مشرق وسطیٰ میں اپنی اسرائیل حامی پالیسی اس قدر جمہوریت مخالف خطوط پر وضع کی ہوئی ہے کہ اس خطے میں عوامی جذبات کو موروثی بادشاہتوں اور آمریتوں سے کچلنے میں واشنگٹن ہی آگے آگے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے ووٹ سے منتخب حماس فلسطینی حکومت کو تسلیم ہی نہ کیا اوراس کا بری طرح سے ناطقہ بند کیاکہ بہت جلد فلسطین میں مشترکہ دشمن کے خلاف سیاسی اتحاد بنانے کے بجائے فتح اور حماس رقابت وعداوت اور تقسیم کی راہ چل پڑے اور یہ سلسلہ ان کی حالیہ سینہ صفائی تک جاری رہا۔ یہ امر یکہ کا ’’پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘‘ کا آزمودہ فارمولے کا کمال ہی تھا جس نے پہلے الجیریا کے مسلم سالویشن فرنٹ اور بعدازاں مصر میں اخوان المسلمون کی عوامی حکومت کا تختہ پلٹوا دیا ۔ امر یکہ نے ہی ماضی اوسلو معاہدے کا محرک وموجد بن کر فلسطینی قائد یا سر عرفات کو اسرائیل کے ساتھ مفاہمت کے لئے اپنے شیشے میں اُتارامگر پھر خالی ہاتھ رکھ چھوڑا ۔ بہرکیف بیت المقدس کی حرمت وتقدس کو نظر انداز کرتے ہوئے امریکی انتظامیہ کے فیصلے پر مسلمانوں کا برہم ہونا اپنی جگہ مگر معاملہ مذمتی بیانات، نعرہ بازیوں اور جذباتی تقریروں تک محدو نہ رکھا جائے بلکہ یہ عالمی سطح پر ایک موثر اور نتیجہ خیز حکمت عملی کا متقاضی ہے۔