کالیا چک /مغربی بنگال//راجستھان کے راجسمند ضلع میں لوجہاد کے نام پر مارے گئے افراز خان کی ماں ، بیوی اور بیٹیوں کے آنسو ¶ں6دنوں بعد بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے ۔ماں اور بیوہ کی زبان گویا گونگ ہو چکی ہے ۔کوئی بھی سوال کا جواب دینے کی پوزیشن میں یہ خاندان نہیں ہے ۔بیٹیوں کے سامنے یہ بڑا سوال ہے کہ ابا کے بعد ماں کا کیا ہوگا۔ان کی زندگی کیسے گزرے گی؟۔کلکتہ شہر سے 330کلومیٹر دور واقع کالیاچک بلاک کا سید پور گا¶ں غم میں ڈو باہوا ہے ۔گلی محلے میں ہرطرف افراز خان کی موت پر ہی چرچا ہورہا ہے ۔سید گا¶ں کی اکثریت مسلم آبادی ہے ۔غربت کی وجہ سے زیادہ تر نوجوان راجستھان کے مختلف اضلاع میں راج مستری ، تعمیراتی کام کرتے ہیں ۔افراز کے ساتھ دردناک واقعہ پیش آنے کے بعد زیادہ تر مزدور اپنے گا¶ں لوٹ چکے ہیں ۔مقتول افراز کے بھانجے جہانگیر جو افراز کے ساتھ راجسمند میں رہتے تھے نے بتایا کہ مامو ں اورآس پاس کے سیکڑوں افراد گزشتہ 20سالوں سے اس علاقے میں راج مستری کا کام کرتے ہیں ۔کبھی بھی اس طرح کا واقعہ نہیں پیش آیا ہے ۔مگر اس واقعہ نے ہمارے سامنے اندھیر ا پھیلادیا ہے اب ہم راجستھان جانے کی ہمت نہیں کرسکتے ہیں۔کالیا چک سے سید پور آنے جانی والے کرایہ اور بیشتر پرائیوٹ گاڑیوں پرمختلف پوسٹر لگاکر احتجاج کیاجارہا ہے ۔کئی گاڑیوں پر لکھا ہے کہ ''مذہب کے نام قتل کے سلسلے کو بند کیاجائے ''۔اور کئی گاڑیوں پر لکھا گیا ہے کہ اس قتل کیلئے آر ایس ایس ، بجرنگ دل اور وشوہندوپریشد ذمہ دار ہے اس لیے ان تمام تنظیموں پر پابندی عاید کیا جائے ۔افراز کی چھوٹی بیٹی حبیبہ جو 9ویں جماعت میں زیر تعلیم ہے نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ وہ کبھی بھی بابا کی اس ویڈیو کو دیکھنے کی ہمت نہیں کرسکتی ہے ۔بابا کی چیخ و بکار اس کے کانوں میں گونج رہی ہے ۔وہ کہتی ہے کہ گزشتہ پانچ دنوں سے سیاست دانوں اور سماجی کارکنوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے مگر کیا کوئی ہمیں انصاف دلا سکتا ہے ۔حبیبہ نے بتایا کہ دو مہینہ قبل بابا یہاں سے گئے تھے ۔وہ بہت ہی کم عمر سے محنت مزدوری کرکے ہماری پرورش کررہے تھے ۔خود کم تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ہم تین بہنوں کو اسکول کی تعلیم دلائی۔مجھے نہیں لگتا ہے میرے بابانے کوئی گنا ہ کیا ہے اور جس آدمی نے مارا ہے اس کے ساتھ کوئی غلط کام کیا ہوگا۔حبیبہ نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ اب تک راجستھان اور مرکزی حکومت کا کوئی نمائند ہ اس خاندان سے رابطہ نہیں کیا ہے ۔افراز کا گھرانہ بہت ہی غریب ہے تین بھائیوں کے اس خاندان کے پاس رہنے کیلئے صرف تین کمرے ہیں۔ماں بہت ہی ضعیف ہوچکی ہیں اور اس حادثہ نے تو ماں کی زبان ہی کنگ کردیا ہے ۔افراز اپنے خاندان کا اکیلا سہارا تھے ۔اب بیٹی کی تعلیم اور شادی کاایک بڑا مسئلہ درپیش ہے ۔افراز کے بڑے بھائی جو حادثہ کے وقت بنگلور میں تھے نے یو این آئی کو بتایا کہ ہر کوئی ہمیں مالی مدد دینے کی پیش کررہا ہے ۔یہ اچھی بات ہے کہ کیوں کہ افراز کے بعد اس پریوارکی پرورش کیسے ہوگی ؟ یہ ایک بڑا سوال ہے مگر اس سے بڑا سوال یہ ہے کہ ہمارے بھائی کو انصاف کیسے ملے گا۔کالیا چک بلاک کے آس پاس گا¶ں کے ہزاروں نوجوان راجستھان اور دیگر شہروں میں راج مستری اور مزدوری کا کام کرتے ہیں ۔کیا وہ محفوظ ہیں اور کیا ان کے ساتھ اس طرح کا واقعہ نہیں ہوگا ۔یہ ہمارے سامنے ایک بڑا سوال پیدا ہوگیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ وہ اب بھی اس ویڈیو کو دیکھنے کی جرا¿ت نہیں کرسکے ہیں ۔کلکتہ سے افراز الاسلام کے اہل خانہ سے ملاقات کرنے کیلئے آئے ہیومن رائٹس پروٹیکشن ایسوسی ایشن کے صدر شمیم احمد نے بتایا کہ افراز کو جس بربریت کے ساتھ قتل کیا گیا ہے وہ اپنے آپ میں دردناک ہے مگر ان کے اہل خانہ سے ملاقات کرنے کے بعد درد و تکلیف میں مزید اضافہ ہوگیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہیومن رائٹس پروٹیکشن ایسوسی ایشن صدر جمہوریہ، وزیر اعظم ، چیف جسٹس آف انڈیا کو خط لکھ کر مطالبہ کرے گا موب لنچنگ اور لوجہاد کے خلاف پارلیمنٹ میں قانون پاس کرکے فاسٹ ٹریک کورٹ قائم کیا جائے ۔