نئی دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں شعبہ چینی و جنوب شرقی ایشیائی مطالعات کے اسکالروں سے ایک خطاب میں بھارت میں چین کے سفیر لو زہا ہویی نے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک:CPEC) کے تئیں بھارتی خدشات کو دور کرنے کیلئے یہ پیش نہاد کی کہ چین متبادل راستے جموں و کشمیر ،نتھولا یا نیپال سے فراہم کر سکتا ہے ۔چینی سفیر کے بیان کا واضح مطلب ریاست جموں و کشمیر کے اُس حصے سے راستہ فراہم کرنے کا تھا جو بھارتی انتظامیہ کے تحت ہے۔ اُنہوں نے حتیٰ کہ سی پیک کا نام بدلنے کی پیش کش بھی کی۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ بھارت میں اپنی سفارت کے دوران دو طرفہ دوستی و تجارت کا معاہدہ رو بعمل لانے کے درپے ہیں۔ چینی سفیر نے چینی و بھارتی تحفظات و خدشات کا ذکر بھی کیا۔ اِس ضمن میں اُن کا کہنا تھا کہ بھارت میں دلائی لامہ کا قیام و کام چینی خدشات میں شامل ہے جبکہ پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک:CPEC)و مسعود اظہر کا معاملہ کے بارے میں بھارت کو خدشات ہیں۔چینی سفیر کے لب و لہجے سے یہی عیاں ہے کہ اُن کی بھارت میں سفارت اِن خدشات کو دور کرنے میں مصروف عمل رہے گی۔ قارئین یہ ذہن میں رکھیں کہ بھارت سی پیک (CPEC) کو اپنی علاقائی سالمیت کیلئے چلینج مانتا ہے۔ بھارت کا دعویٰ ہے کہ خط متارکہ کے آر پار کی جموں و کشمیر ریاست بلا شرکت غیرے بھارت کا حصہ ہے ۔بھارت کا یہ دعوہ اُس الحاق پہ مبنی ہے جو مہاراجہ ہری سنگھ نے 1947ء میں بھارت کے ساتھ کیا تھا۔ اِس الحاق کی شرائط کیا تھیں اور بعد میںاقوام متحدہ میں کیا قرار پایا اُسے بھارت نادیدہ لیتا ہے۔بہر صورت سی پیک (CPEC) سے ایک نئی صورت حال سامنے آئی ہے اور اُس کا ایک علاقائی اور عالمی پس منظر ہے جس کی جانچ آج کے مقالے میں شامل رہے گی۔
چین کا اقتصادی دائرہ پھیلتا جا رہا ہے اور اس پھیلتے ہوئے دائرہ کا حدف یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ملک اِس کے محور میں آتے جائیں ۔اِس حدف کو پانے کیلئے چین نے جہاں عالمی انجمنوں کی تشکیل میں خاصا رول ادا کیا ہے وہی بیلٹ روڑ منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے چین وسیع سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ سی پیک (CPEC)بیلٹ روڑ منصوبے کا اہم ترین جز ہے۔بیلٹ روڑ منصوبہ 65 ممالک کا اقتصادی ناطہ رو بعمل لانے میں ہے۔چین اِن 65 ممالک کو وسیع پیمانے پہ سڑکوں اور ریلوے کا جال بچھانے سے جوڑنا چاہتا ہے۔اِس کے علاوہ مواصلاتی رابطے بڑھانے اور توانائی کی فراہمی کو پائپ لائن بچھاکے آساں بنانا بھی چینی منصوبوں میں شامل ہے۔65 ممالک کی اقتصادی پیوند کاری چین کے ایکسپورٹ کیلئے ایک وسیع بازار فراہم کرے گا اور توانائی کی پائپ لائن سے چینی صنعت کو مزید فروغ کیلئے توانائی کی سپلائی یقینی بن جائے گی۔ بیلٹ روڑ منصوبے کو محکم بنانے کیلئے چین علاقائی روابط بڑھانے کے علاوہ عالمی انجمنوں کی تشکیل میںمصروف نظر آ رہا ہے۔بیلٹ روڑ منصوبے میں جہاں چین سرمایہ کاری میں پیش پیش ہے وہی روس چین کے ہمراہ اُسے اسٹر ٹیجک اساس فراہم کرنے کیلئے دوش بدوش نظر آ رہا ہے۔ روس گر چہ اقتصادی طور پہ چین کے ہم پایہ نہیں البتہ روس ایک بہت بڑی فوجی طاقت ہے اور دور حاضر میں روسی اور چینی احداف میں ہم آہنگی نظر آتی ہے۔
چین کی عالمی و علاقائی حکمت عملی میں شنگھائی کا پو ریشن آرگنائزیشن کا وجود ایک اہم قدم ہے ۔ اِس تنظیم کی تشکیل تقریباََ دو دَہائیوں پہلے ہوئی۔ 26 اپریل 1996 ء میں شنگھائی پانچ کا اعلان منظر عام پہ آیا۔اِن پانچ ممالک میں روس،چین،قرگزستان،قازکستان و تاجکستان شامل تھے۔یہ اعلانیہ 15جون 2001 ء میں ایک تنظیم کی شکل کی اُبھر آیاجس میں اِن پانچ ممالک کے علاوہ ازبکستان بھی شامل ہوااور اِس تنظیم کو شنگھائی کا پو ریشن آرگنائزیشن نامیدہ گیا۔اِس تنظیم کا نصب الین یورشین ممالک کی سیاسی،اقتصادی اور سیکورٹی یکجہتی قرار دیا گیا۔یورشین ممالک بہ معنی یورپین و ایشائی ممالک کا اتحاد ہے جس میں یورپی ملک روس کے ساتھ ایشیائی مرکزی کے ممالک شامل ہیں۔2005 ء میں استانا میں بھارت ،پاکستان اور ایران کو میں بحثیت ابزرور شنگھائی کانفرنس آرگنائزیشن میں جگہ فراہم کی گئی جبکہ 2010 ء میں تاشقند میں سر براہاں کی کانفرنس میں اور ممالک کو بحثیت مستقل ممبر شامل کرنے پہ اتفاق ہوا۔انجام کار جون 2017ء میں بھارت و پاکستان شنگھائی کا پو ریشن آرگنائزیشن کے مستقل ممبر بنے اور ایسے میں مستقل ممبروں کی تعداد آٹھ ہو گئی ہے۔یہ آٹھ مستقل ممبر دنیا کی نصف آبادی تشکیل دیتے ہیں ثانیاََ دنیا کی مجموعی اقتصادی تولید کا یک چہارم حصہ اِن ممالک پہ مشتمل ہے ثالثاََ یورشین قطعہ اراضی کا 80فیصد حصے پہ یہ آٹھ ممالک آباد ہیں۔دیکھا جائے تو کسی بھی عالمی تنظیم میں آبادی یا رقبے کے حساب سے اتنی وسعت نہیں جتنی کہ شنگھائی کا پو ریشن آرگنائزیشن میں ہے۔
شنگھائی کا پو ریشن آرگنائزیشن کے بڑھتے ہوئے امتیازات کو لے کے مزید ممالک اُس کے ساتھ جڑتے جا رہی ہیں۔ افغانستان،بلا روس،ایران اور منگولیا کو اِس عالمی تنظیم میں ابزرور کی حثیت حاصل ہو چکی ہے اور اِس کے علاوہ چھ ممالک ڈائیلاگ پارٹنر کی حثیت رکھتے ہیں ۔اِن میں آذربائیجان، ارمینیا،کمبوڈیا،نیپال،ترکی اور سری لنکا شامل ہیں۔اقتصادی ہم آہنگی کے امکانات کو بڑھاوا دینے کے علاوہ علاوہ اِس تنظیم میں سراغ رسانی میں روابط قائم کرنا بھی شامل ہے تاکہ دہشت گردی پہ قابو پایا جا سکے۔افواج میں باہمی مشقوں کے وسیلے سے فوجی امکانات کو تقویت فراہم کرنا بھی شنگھائی کا پو ریشن آرگنائزیشن کے منصوبوں میں شامل ہے۔حالیہ سالوں میں کئی مبصرین نے اِس تنظیم کو نیٹو سے تشبیہ دینی شروع کی ہے گر چہ حقیقت یہ ہے کہ یہ تنظیم نیٹو کی سطح پہ نہیں پہنچی ہے کیونکہ اِس تنظیم میں شامل ممالک میں وہ ہم آہنگی نہیں پائی جاتی جو کہ نیٹو کا خاصہ ہے مثلاََ ہند و پاک اِس تنظیم کے ممبر تو ہیں لیکن بر صغیر کے اِن دو ممالک کے آپسی اختلافات اتنے وسیع ہیں کہ اُن پہ قابو پانا مشکل نظر آتا ہے ثانیاََ ہند و چین میں بھی سرحدی تنازعے کے علاوہ کئی ایک اختلاف ہیں۔
شنگھائی کا پو ریشن آرگنائزیشن میں دیکھا جائے تو روس کا کردار کافی اہم ہے ۔روس کے چین کے ساتھ نزدیکی روابط اور بھارت کے ساتھ بھی قدیمی روابط ہیں جبکہ حالیہ برسوں میں پاکستان کے ساتھ بھی روسی روابط بڑھ رہے ہیں۔روسی دفاعی و سیاسی ماہرین جہاں چین و بھارت کے مابین اختلافات کو اِ س حد تک محدود رکھنے میں کامیابی ہونے کا دعوہ کر رہے ہیں جہاں یہ اختلافات کسی باہمی تنظیم پہ اثر انداز نہ ہے وہی اُنہیں ہند و پاک کے اختلافات کی خلیج کو پاٹنے میں دشواریوں کا سامنا ہے۔۔شنگھائی کا پو ریشن آرگنائزیشن کے علاوہ بھارت و چین برکس ((BRICS)نامی تنظیم میں شامل ہیں جہاں اِن دو کے علاوہ روس،برازیل و افریقائی جنوبی بھی ممبراں ہیں۔ روسی اسٹر ٹیجک ایکسپرٹ پاکستان کو محل وقوع کے حساب سے زیپر ((Zipper)مانتے ہیں یعنی ایک ایسی زنجیر جو گوناگوں ملکوں کو ایک ساتھ باندھتی ہے۔پاکستان جنوبی و مغربی ایشیا اور ایشیائی مرکزی کے بیچوں بیچ واقع ہوا ہے ۔زمینی زنجیر کے علاوہ پاکستانی ساحل بھی وسیع ہے ۔جہاں تک سمندری ساحل کا سوال ہے تو ایشیائی مرکزی کے ممالک زمینی قفل بندی میں مبتلا ہونے کے سبب سمندری ساحل سے محروم ہیں ۔افغانستان کے علاوہ ایشیائی مرکزی کے ممالک کیلئے پاکستانی سمندری ساحل تجارت کا ایک موثر سلسلہ بن سکتی ہے۔روسی سمندری ساحل ایشیائی مرکزی کے ممالک کیلئے ایک اور سمندری رابطہ تو فراہم کر سکتے ہیں البتہ ایک تو یہ ساحل کافی دور ہے ثانیاََ روسی سمندری ساحل یخ بستہ ہوتے ہیں۔گرم پانی کے ساحلوں کی ہوس نے روس کو افغانستان پہ حملے کی ترغیب دی ۔خیر یہ زماں گذشتہ کی بات تھی البتہ گرم پانیوںکے سمندری ساحل سے قریب تر ہونے کی سعی روسی منصوبوں میں اب بھی شامل ہے ۔
شنگھائی کا پو ریشن آرگنائزیشن اور برکس میں جہاں روس کا کردار کافی اہم ہے چونکہ روس ایک مانی ہوئی فوجی طاقت ہے لہذا عالمی طاقتی توازن میں انتہائی اہم مقام کا حامل البتہ چین کی اہمیت اُسکی اقتصادی قوت میں ہے ۔اپنی اقتصادی قوت کے بل بوتے پہ چین ہر اُس عالمی تنظیم کا جس کاوہ ممبر ہے خاص وزن کا حامل ہے۔جہاں یہ صیح ہے وہی یہ بھی صیح ہے کی بھارت ایک بڑھتی ہوئی اقتصادی قوت ہے اور بھارت کا وسیع بازار چین سمیت ہر ملک کا لئے اہم ہے لہٰذا عالمی تنظیموں میں بھارت کی شمولیت لازمی مانی جاتی ہے۔بھارت کی مانند پاکستان بھی ایک ایٹمی طاقت ہے اور جیسا کی پہلے ہی نوٹ ہوا ہے محل وقوع کے لحاظ سے انتہائی اہم لہذا عالمی تنظیموں میں پاکستان کی شمولیت بھی خاصی اہمیت کی حامل ہے ۔شنگھائی کا پو ریشن آرگنائزیشن جہاں بھارت شامل ہے وہی پاکستان کی شمولیت بھی اِس آرگنائزیشن کے وزن و وسعت کو بڑھانے کیلئے مناسب سمجھی گئی لیکن اِس تنظیم میں بھی اشاروں وکنایوں سے ہند و پاک چقلش منظر عام پہ آتی ہے چناچہ تنظیم کے جن احداف کی بر آوری کیلئے اجلاسوں کا اہتمام ہوتا ہے وہ کھٹائی میں پڑ جاتے ہیں۔
جون 2017ء میں جب بھارت و پاکستان شنگھائی کا پو ریشن آرگنائزیشن کے مستقل ممبر بنے تب بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی نے کھلے اجلاس میںپاکستان کا نام لئے بغیر دہشت گردی کی بات چھیڑی۔حالیہ اجتماع میں نریندار مودی خود نہیں آئے باوجود اینکہ یہ ممبر ملکوں کے سر براہاں حکومت کا اجلاس تھا حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ وہ بین الاقوامی اجتماعات بھر پور حصہ لیتے ہیں اِس حد تک کہ جہاں مبصرین کا یہ ماننا ہے کہ اُنہوں نے وزیر خارجہ ششما سوراج کو عملاََ خارجی امور کی انجام دہی میں مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ کچھ مبصرین کا تو یہ ماننا ہے کہ نریندرا مودی خود ہی اپنے وزیر خارجہ ہیں ۔حکومتی سر براہ نریندرا مودی کے بجائے ششما سوراج کی سُو چی کا نفرنس میں شرکت اِس بات کی نشاندہی ہے کہ بھارت شنگھائی کا پو ریشن آرگنائزیشن میں اعلی ترین سطح کی نمائندگی کا خواہاں نہیں ہے۔ خیر جس سطح پر بھی بھارت کی نمائندگی ہوئی ایک بار پھر ششما سوراج نے دہشت گردی کی بات چھیڑی گر چہ اُنہوں نے پاکستان کا نام نہیں لیابلکہ پاکستان کو مستقبل ممبر بننے کی مبارک دی۔ جون 2017ء کے اجلاس میں پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے بھارت کو مستقبل ممبر بننے کی مبارک باد دی تھی جبکہ وزیر اعظم نریندرا مودی نے سنی ان سنی کی تھی۔ ششما سوراج نے پاکستان کو مبارک باد دے کے سفارتی تلافی کی البتہ ایک ہی آرگنائزیشن کے ممبر ہونے کے باوجود اختلافات کی خلیج وسیع ہے۔بھارت جب بھی عالمی تنظیموں میںدہشت گردی کا راگ الاپتا ہے تو اُس کا حدف پاکستان اور کچھ حد تک چین کی سفارتی سرزنش ہوتی ہے ۔بھارت کا الزام یہ ہے کہ پاکستان کشمیر میں دہشت گردی میں ملوث ہے جبکہ چین اقوام متحدہ کی کونسلوں میں مسعود اظہر کو عالمی دہشت گرد قرار دلوانے کے آڑے آ رہا ہے۔باہمی اختلافات کے باوجودبھارتی بازار چین کیلئے اہم ہے ۔جہاں تک روس کا تعلق ہے اُ س کے فوجی ساز و ساماں کا بھارت سب سے بڑا خریدار ہے۔
روس و چین حالیہ برسوں میں ایک اور پاور بلاک کی تشکیل میں مصروف ہیں جبکہ افغانستان میں روس کی پسپائی کے بعد امریکہ کئی دَہائیوں تک تنہا سپر پاور بنا رہا اور عالمی طاقت کے توازن میں روس سمیت کوئی بھی ملک اُس کے ہم پلہ نظر نہیں آتا تھا لیکن اِس میں اب واضح تبدیلی نظر آ رہی ہے۔شام سے لے کے افغانستان تک روس و چین امریکی احداف کے آڑے آ رہے ہیں۔جہاں تک بھارت کا تعلق ہے وہ امریکی نظریات کے قریب تر آ رہا ہے اور دونوں کا اسٹر ٹیجک اشتراک بھی روز افزوں بڑھتا جا رہا ہے۔ پاکستان بر عکس امریکہ سے دور اور چین و روس سے قریب ہو رہا ہے۔سُو چی میں شنگھائی کا پو ریشن آرگنائزیشن کے اجلاس سے کچھ ہی دیر پہلے امریکہ،جاپان ،اسٹریلیا اور بھارت کا ایک باہمی اجلاس منعقد ہوا۔یہ سب ہی ممالک بحر منجمند میں چینی احداف کے خلاف ہیں۔اپنے ساحل کے قریب سمندر کو جسے ساوتھ چینا سی کہتے ہیں چین بلا شرکت غیرے اپنے اسٹر ٹیجک دائرے میں مانتا ہے جبکہ بحر منجمند کے ساحلی ممالک جاپان ،اسٹریلیا چینی نظریے اور احداف کے خلاف ہیں۔ بھارت و امریکہ بھی چینی احداف کے خلاف ہیں۔ امریکہ بحری بیڑے نے اِس سمندر میں اپنا ڈھیرہ ڈال دیا ہے اور وہ بڑھتی ہوئی چینی قوت کے آڑے آ رہا ہے۔بدلتے ہوئے عالمی طاقت کے توازن میں بھارت نہ ہی چین سے ہم آہنگ نظر آ رہاہے نہ ہی روس کے پھر بھی نہ ہی روس نہ ہی چین بھارت کو کھونا چاہتے ہیں۔
جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں چینی سفیر سے امریکہ،جاپان ،اسٹریلیا اور بھارت کے حالیہ اجتماع کے بارے میں جب سوال کیا گیا تو اُنہوں نے سنی اَن سنی کی، البتہ جب یونیورسٹی کے ایک اسکالرنے یہ کہا کہ چونکہ اِس اجلاس کے بعد کوئی اعلانیہ سامنے نہیں آیا لہٰذا اُسے اہمیت نہیں دینی چاہیے تو چینی سفیر نے اُ س سے اتفاق کیا۔ بھارتی خدشات کو رفع کرنے کی سعی میں چینی سفیر نے ٹرمپ انتظامیہ کے اُس باہمی تجارتی سمجھوتے کا حوالہ دیا جو ڈونالڈٹرمپ کے حالیہ دورہ چین کے دوراں چین و امریکہ میں طے پایا۔ 250 بلین ڈالر کے اِس سمجھوتے کو چینی سفیر نے اپنے اِس دعوے کے ثبوت میں پیش کیا کہ چین ایک قابل بھروسہ پارٹنر ہے۔یقین دہانیوں کے اِس لمبے سلسلے کے بعد بھی بھارت کوچین پہ اعتماد آ سکتا ہے یا نہیں اور ریاست جموں و کشمیر پہ اُس کے اثرات کیا ہو سکتے ہیں؟