اُسے کہنا دسمبر آگیا ہے
اسے کہنا دسمبر آیا ہے
خزاں نے بہار کی خوبصورتی کو
چنارکے زرد پتوں میں دفن کردیا ہے
ان پتوں کی جوانی اب بڑھاپے کی سسکیوں
میں رورہی ہے
اب یہ رونا بھی رفتہ رفتہ دم توڑ دے گا
اور اپنے معشوق کی بے بس ٹہنیوں سے
جدائی کاکرب سہتے سہتے
یہ سوکھے پتے خاک نشین ہوجائیں گئے
پھر کون انہیں یاد رکھے گا
اسے کہنا کہ وہ گلشن
جس کے پھولوں کی خوبصورتی دیکھنے والوں کی آنکھوں کو بھی
خوبصورت بنا دیتی تھی
اور جس کی مہک
سانس میں بھی خوشبو گھول دیتی تھی
اسے اب
اونگھتے بلبل حسرت سے تک رہے ہیں
وہ بلبل جنہوں نے گلشن میں بہار کے نغمےگائے تھے
جن کی سریلی آواز پر تتلیاں پھولوں کے گرد رقص کرتے کرتے
قوس قزح کو بھی شرمندہ کردیتی تھیں
لیکن اب موسم بدلتے ہی نہ جانے وہ تتلیاں
پھولوں کا مذاق اڑا کر کس دیس کو جا بسیں
داستان ہجر سنا کر ذرا غور سے دیکھنا
کہ ان جھیل سی آنکھوں کا رنگ پیلا پڑ جاتا ہے یا کہ
نیلا ہی رہتا ہے
اور صبر سے سننا کہ
ان گلابی ہونٹوں سے بھنورے کے شوق میں
آہ نکلتی ہے یا کہ واہ۔۔۔؟
ڈاکٹرریاض توحیدی
وڈی پورہ ہندوارہ کشمیر,موبائل نمبر؛7006544358
اے دلِ مضطر!
شفق ظلماتِ شب کی وحشتوں پر اَشکبار آئی
سحر وحشت فرو کرکے پیامِ صبح نو لائی
فضا پر ظلم کی وحشت کی جب بھی یہ گٹھا چھائی
وجودِ عدل و حق نے پھر شُعاعِ نُور برسائی
نہ جس میں گردشِ دوراں کی ہو تابِ شکیبائی
حقیقت سے گُریزاں ہے وہ اک خوش فہم سودائی
دلِ حسرت زدہ کس بات کا تُو ہے تمنائی
اداء دُنیائے دُوں کی کونسی سی تجھ کو پسند آئی
جہانِ رنگ و بُو میں ہے کہاں تیری پذیرائی
یہاں کرتا ہے تیری دھڑکنوں کی کون شنوائی
تُو رکھنا چاہتا پھر بھی ہے دُنیا سے شناسائی
کہ جب دنیائے دُوں ہے فطرتاً ہی ایک ہرجائی
یہاں کس میں وفا ہے تُو ہوا جس کا تمنائی
ہے سب یہ خود فریبی کیوں تُو بنتا یوں ہے سودائی
کبھی مصروفیت اپنی سے دُنیا رُک نہیں پائی
ہے چلتی رہتی دنیا گر کسی کو موت بھی آئی
بشیر احمد بشیرؔ(ابن نشاطؔ)کشتواڑی
موبائل نمبر؛9018484770