کہتے ہیں ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ یہ محاورہ جہاں عالمی سطح پر زندگی کے ہر شعبہ میں درست ثابت ہوتا ہے وہاں کشمیر میں ا س کہاوت کا کیا کہنا ۔ انسانی حقوق کے عالمی دن کے حوالے سے جہاں دنیا بھر میں تقریبات کا انعقاد کیا گیا اور حسب روایت احترام آدمیت کی قسمیں کھائی گئیں وہاں کشمیر میں بھی یہ دن مخصوص انداز سے منایا گیا ۔ وہی لوگ جو انسانی حقوق کی زیادتیوں کے مرتکب بھی ہوتے ہیںاور تخلیق کار بھی ہیںبالکل ایسے ہی شور مچاتے ہیں کہ جیسے یذید کو امام حسین ؑ کے قتل ہونے سے زبردست رنج و الم لاحق ہو اہو۔ یہ کسقدر حیرت کی بات ہے کہ انسانی حقوق جن لوگوں کے گذشتہ تین برسوں سے پائوں تلے روندھے جا رہے ہیں ان کو حسب روایت اس سال بھی شر پسند اور پاکستانی شہہ پر امن و امان کو درہم برہم کرنے والے کہہ کر اس دن اپنے گھروں میں قانون کی پاسداری کے نام پر نظر بند رکھا گیا۔ پورے کشمیر کو جہاں پہلے ہی بہت بڑے جیل خانہ میں تبدیل کیا گیا ہے وہاں اس روز ہر سچ بولنے والے کا منہ بند کرنے کیلئے خار دار تاروں سے لیکر کشمیریوں کی قیادت کو خانہ نظر بند رکھنے کے تمام غیر انسانی حربے استعمال کئے گئے ۔ کوئی سخت گیر سرکار بھی اس دن کم از کم لوگوں کو علامتی طور سے اپنی بات رکھنے سے روکنے کی ہرگز حماقت نہیں کرتی لیکن جسطرح کبھی خود کو کشمیریوں کی سب سے بڑی غمخوار کہلوانے والی محبوبہ مفتی اب ہر زاویہ سے بدلی بدلی سی لگتی ہیں اس کا اثر چڑھتے سورج کی شعائوں سے لیکر رات کی تاریکی کے ہر پہلو میں نمایاں نظر آ رہا ہے ۔ سنگ پریوار کے رنگوں میں ڈبکیاں لینے والی محبوبہ جی کو اس بات پر اب ہرگز کوئی اعتراض نہیں کہ اگر پولیس کے اہلکار اور ہندوستانی فوج اہل کشمیر کو عید کے دن سے لیکر انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقعہ پر امن و امان کی بحالی کو یقینی بنانے کے نام پر انہیں اپنے گھروں سے باہر نہ آنے دیں اور ان کی جی بھر کے تذلیل کریں۔ کسی بھی کشمیری کو ہرگز یہ خوش فہمی ہی نہیں کہ انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر ان کی چیخ و پکار کا کوئی خریدار ہوگا لیکن پھر بھی ہر کسی کی خواہش ہوتی ہے کہ اپنی بات سامنے رکھنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ پائے۔ بہر حال جہاں سرکار نے طاقت کے بل پر کشمیریو ں کی بات کرنے والوں کو انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر ایک انچ بھی حرکت کرنے نہیں دی وہاں خود سرکاری حکام نے SKICCمیں 10دسمبر کو ایک سمینار کا انعقاد کرکے اہل کشمیر کو ان کے انسانی حقوق یاد دالا نے کی بھر پور کوشش کی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وہی لوگ جن کے خلاف اہل کشمیر ہر بار انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کا الزام لگاتے ہیں بلکہ ان کے خلاف الزامات ثابت بھی ہیں اہل کشمیر کو انسانی حقوق کے تحفظ کا درس سنا رہے تھے لیکن شرمناک بات یہ ہے کہ خود وہ لوگ جو اپنے اوپر ہورہی آئے روز کی زیادتیوں کے بارے میں عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی تمنا رکھتے تھے انہیں اپنے گھروں سے باہر بھی نکلنے نہیں دیا گیا۔ مجوزہ سمینار میں ریاست کے چیف سیکریٹری ، وزیرقانون ، انسانی حقوق کے سربراہ اور دیگر اعلیٰ حکام نہ صرف موجود تھے بلکہ ان میں سے ہر ایک یہ تاثر دینے کی کاوشوں میں مصروف تھا کہ جیسے اس سے زیادہ کسی اور کو پوری دنیا میں انسانی حقوق کے تحفظ کی کوئی فکر نہیں۔ ان سارے شرکا ء کا احترام سر آنکھوں پر لیکن پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر سمینار کی صدارت کرنے والے وزیر قانون کے اپنے آبائی گائوں سے تھوڑی مسافت پر سیکورٹی فورسز کی حراست میں لاپتہ نوجوان منظور احمد خان ابھی باز یاب نہیں ہو سکا ہے تو پھر متعلقہ وزیر کا انسانی حقوق کو لیکر وعظ و نصیحت کرنا کہاں کا انصاف ہے اور انہیں اس سمینار میں بیٹھ کر پوری دنیا کو گمراہ کرنے کا حق کس نے دیا ہے۔اگر وزیر قانون سو دن گذرنے کے باوجود منظور احمد کی لاش ہی انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر اس کے اہل خانہ کو دینے میں کامیاب ہوئے ہوتے تو اس سے ان کا کارنامہ ہی مانا جاتا اور ان کا خلوص بھی ثابت ہو جاتا۔ لیکن یہ بد قسمتی سے ان کی ہر ادا اور ان کا ہر قدم اس سنگین جرم میں ملوث لوگوں کی پردہ پوشی کے سوا اور کسی فائدے کا ثابت نہیں ہوا ہے ۔ اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ انسانی حقوق کمیشن کے چیرمین 10دسمبر کے اس سمینار میں ریاست کے چیف سیکریٹری اور وزیر قانون کے ساتھ جلوہ افروز ہو کر جس طرح کشمیریوں کے حقوق کی پامالیاں کرنے والوں کی سنگین خلاف ورزیوں کو جواز بخش رہے تھے وہ قابل افسوس بات ہے ۔ چیرمین موصوف کی نیت اور صلاحیتوں پر اگر چہ شک کرنا مناسب نہیں لیکن جب ان کے ہاتھوں میں کچھ بھی نہیںہے اور ان کی بیشتر سفارشات کو چیف سیکریٹری اور ان کے ماتحت بیوروکریسی جب وزیر قانون اور ان کی سرکار کی ایماء پر ردی کی ٹوکری میں ٹھونسنے کے قابل بھی نہیں مانتے ہیں تو پھر ان کی سرکاری تقریب میں وعظ و نصیحت کا کیا فائدہ ۔ اگر یوں کہا جائے کہ انسانی حقوق کے کمیشن کے قیام کا مقصددیگر سرکاری کمیشنوں کی طر ح سرکار کے منظور نظر افراد کی بازآباد کاری کو یقینی بنانا ہے تو بے جا نہیں ہوگا۔ جسطرح فاروق ڈار کو انسانی ڈھال بنائے جانے کے معاملے کو لیکر انسانی حقوق کمیشن کی سفارش کو نہ صرف ردی کی ٹوکری میں پھینکا گیا بلکہ سرینگر سے دلی تک ایسے شور شرابا مچایا گیا اس سے لگتا تھا کہ جیسے ریاستی انسانی حقوق کمیشن ریاستی سرکار کا ادارہ نہیں بلکہ مزاحمتی قیادت یا پاکستان کا قائم کردہ کوئی غیر سرکاری ادارہ ہے۔ ایسے میں اگر انسانی حقوق کمیشن کے ریاستی چیرمین اگر مجوزہ سرکاری تقریب سے بطور احتجاج بھی دور ہی رہتے تو شائد نہ صرف کمیشن کی اپنی اعتباریت کیلئے ٹھیک ہوتا بلکہ عام آدمی کا بھی کمیشن پر بھروسہ کسی حد تک بحال ہو جاتا۔ جسطرح کا طرز عمل اور وطیرہ انسانی حقو ق کے حوالے سے موجودہ سرکار کا اب تک رہاہے اس سے یہ بات پوری طرح ثابت ہو چکی ہے کہ محبوبہ مفتی کے قول و فعل میں یا تو کافی زیادہ تضاد موجود ہے یا پھر ان کے ہاتھوں میں کچھ بھی نہیں ہے اور وہ صرف سیکورٹی ایجنسیوں کے پورے رحم و کرم اور ان کی فراہم کردہ بریفنگ کے سہارے سرکار چلا رہی ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا تو 10دسمبر یعنی انسانی حقوق کے عالمی دن کی شام ڈھلتے ہی یونسو ہندوارہ میں چار ماہ کی بچی کو اپنی ماں کی شفقت سے ہاتھ نہیں دھونا پڑتا۔ اگر یوں کہیں کہ SKICCکے سمینار کے انعقاد کے بعد یونسو کی 25سالہ میسرہ کی گولیوں سے چھلنی لاش اہل کشمیر کو ان کی اوقات یاد دلانے کی دانستہ کوشش تھی تو بے جا نہ ہوگا ۔ پھر صرف دوو دن بعد جس طرح ٹھنڈی پورہ کرالہ پورہ میں آصف اقبال نامی سومو ڈرائیور کو بے دردی کے ساتھ فوج نے گولیاں مار کر جان بحق کر دیا اس سے تو 10دسمبر کے سمینار کے دوران سرکاری دعوئوں کی پول کھل گئی اور ایک بار پھر ثابت ہوا کہ سیکورٹی فورسز اپنے آپ کو کسی بھی طرح کی جوابدہی سے بالا تر سمجھتی ہیں ۔ مسرت عالم پر جس قدر نام نہاد PSAبار بار لگائے جا رہے ہیں اس تو خود PSAبھی شرمساری محسوس کرتا ہوگا ۔ جہاں ریاستی سرکار نے جان بوجھ کر نہ صرف اپنے ہی قوانین کی ہر محاذ پر دھجیاں اڑا دی ہیں وہاں بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ انسانی حقو ق کے حوالے سے چند بنیاد ی اور غیر متنازعہ ضمانتوں کو بھی کشمیر میں پائوں تلے روندھا گیا ہے ۔ کیا محبوبہ مفتی میں اتنی غیرت موجود ہے کہ وہ اپنے ضمیر کو جھنجوڑکر اپنا احتساب کریں اور ریاست کے لوگوں کے کھوئے ہوئے اعتماد کو بحال کرنے کیلئے کچھ ایسے اقدامات اٹھانے کی زحمت گوارہ کریں گی جن سے ثابت ہو کہ انہیں اپنی ذمہ داریوں کا رتی بھی احساس موجود ہے۔ ساتھ ہی انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں پر بھی لازم ہے کہ وہ صرف روائتی بیانات سے کام نہ لیں بلکہ مظلوم و معصوم اہل کشمیر کو انسان سمجھ کر انہیں بار بار کی رسوائیوں اور سرکاری فورسز کی جارحیت سے جسقدر ممکن ہو سکے بچانے کی عملی کوشش کریں۔جب تک ایسا نہیں ہوتا ہے تب تک کشمیری یہ کہنے میں حق بجانب ہونگے کہ انہیں صرف طاقت کے بل پر دبایا جاتا ہے اور عالمی ادروں کی بھی خاموش تائید کشمیریوں کے اوپر ہونے والے ظلم و ستم کو پوری طرح سے حاصل ہے۔