اس کائنات میں جہاں اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے جانور پیدا کئے، وہیں پر آنکھ سے نہ دکھ پانے والے نہایت ہی چھوٹے جراثیم بھی پیدا کئے جو ہوا ، پانی ، زمین،پیڑ پودوں، جانوروںپر یا یوں کہئے کہ ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔ ہمارے جسم کے اندر اور باہر لاتعداد خوردبینی جراثیم پنپتے ہیں۔مجموعی طور پرجراثیم تین قسم کے ہوتے ہیں : بیکٹیریا ، وائرس اور فنجائی۔ کچھ جراثیم ہمارے لئے فائدے مند ہیں جب کہ کئی ایک نقصان دہ ۔مثلاً کچھ جراثیم ہمارے ہاضمے میں مدد کرتے ہیں، کچھ دودھ کو دہی میں تبدیل کرتے ہیں جب کہ کچھ جراثیم ہماری زمین میں کھاد بنا کر اسے زرخیز بناتے ہیں۔ البتہ کچھ ایسے جراثیم بھی ہیں جو ہمارے جسم کے اندر بیماریاں پھیلاتے ہیں۔ نمونیا، گلے کا انفیکشن، تپ دق یا ٹی بی،کوڑھ،بخار، ہیضہ، پیشاب کی نالی کا انفیکشن بیکٹیریا سے ہونے والی چند بیماریاں ہیں۔ جب کہ ایڈز، زکام، نزلہ، خسرہ وائرس سے ہوتے ہیں۔کینڈیڈیاسس جس میں شدید خارش اور سوزش ہوتی ہے، فنجائی جراثیم کا نتیجہ ہے۔غرض یہ کہ جراثیم سانس، کھانے پینے کی چیزوں سے ہمارے جسم کے اندر داخل ہو کر، ہمارے مدافعتی نظام کو کمزور کر کے بیماری پھیلاتے ہیں۔سائنس دانوں نے بیکٹیریا سے ہونے والے انفیکشن اور بیماریوں کی روک تھام کیلئے دوائیوں کی ایجاد کی جنہیں اینٹی بیاٹک کہتے ہیں۔ اینٹی بیاٹک بیکٹیریا کو یا تو ختم کرتے ہیں یا ان کی نشونما کو روکتے ہیں جس سے انفیکشن اور بیماریوں سے نجات ملتی ہے۔ایماکسلین، ایمپسلین اور وایبرامیسن چند چیدہ اینٹی بیاٹک کے نام ہیں۔آج کل ہم سینکڑوں اینٹی بیاٹک کا استعمال کرتے ہیں۔ اینٹی بیاٹک کی ایجاد سے میڈیکل سائنس کی دنیا میں ایک انقلاب بپا ہوا کہ جو بیماریاں جان لیوا تھیں ان کا علاج کرنا آسان ہو گیا۔ ٹی بی جو کہ ایک زمانے میں جان لیوا بیماری تھی اب نہ رہی۔ اینٹی بیاٹک کی وجہ سے ڈاکٹر آپریشن، زخموں اور کینسر کا علاج کر سکے۔غرض یہ کہ اینٹی بیاٹک نے انسانی جانوں کے اتلاف کا موثر ازالہ کیا۔
البتہ جوں جوں دنیا بھر کے لوگ اینٹی بیاٹک کھا کر بیکٹیریا سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا علاج کر تے گئے توں توں وہ اینٹی بیاٹک سے بے تاثیری کا شکار ہوتے گئے۔اس کو اینٹی بیاٹک مزاحمت کہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جراثیم کی وہ قسم پیدا ہوگئی جن پر اینٹی بیاٹک کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔سائنس دانوں نے کچھ ہی دہائیوں میں سینکڑوں اینٹی بیاٹک بنائے، البتہ قدرت کا کرنا یہ کہ اینٹی بیاٹک کے استعمال سے نئے نئے مزاحم جراثیم پنپتے گئے اور بیماریاں پھر اپنا سر نکالتی رہیں۔ صورت حال اس حد تک ابتر ہو گئی ہے کہ اب دنیا بھر کے اسپتالوں میں اینٹی بیاٹک کے استعمال کے باوجود کئی لوگ انفیکشن کی وجہ سے موت کا شکار ہو جاتے ہیں ،اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے پاس جتنے بھی اینٹی بیاٹک ہیں وہ بے تاثیر ہوتے جا رہے ہیںاور خدا نخواستہ ایک ایسا وقت آسکتا ہے جب بیکٹیریا سے ہونے والی بیماریاں اور معمولی انفیکشن کا کسی بھی اینٹی بیاٹک سے علاج نہیں کیا جا سکتا ۔اس کے سبب لوگ موت کا شکار ہو ںگے۔ یہ ایک تشویش ناک صورتحال ہے جس سے پوری میڈیکل سائینس کا حلقہ پریشان دکھ رہا ہے۔ اینٹی بیاٹک مزاحمت کسی بھی شخص میں پیدا ہو سکتی ہے، چاہے وہ کسی بھی عمر یا کسی بھی ملک کا رہنے والا ہو۔تشویشناک بات یہ ہے کہ دوا ساز کمپنیاں نئے اور موثر اینٹی بیاٹک بنانے میں فی الوقت ناکام دِکھ رہی ہیں۔
اینٹی بیاٹک مزاحمت سے ہونے والی اموات کی خبریں دنیا بھر سے آرہی ہیں۔۲۰۱۴ء میں عالمی ادارہ صحت کی طرف سے ہونے والی ایک سروے کے بعد اینٹی بیاٹک مزاحمت کو صحت عامہ کو درپیش ایک چیلینج قرار دیا گیا تھا۔حالانکہ اینٹی بیاٹک مزاحمت ابھی عام نہیں لیکن دنیا بھر میں یہ دیکھا گیا کہ کچھ انفیکشن ایسے بھی ہیں جن کا کسی بھی اینٹی بیاٹک سے علاج نہیں کیا جا سکتا ، جس سے دنیا بھر میں اس وقت سالانہ سات لاکھ اموات ہوتی ہیںاور وقت کے ساتھ ساتھ یہ تعداد بڑھتی رہے گی ۔اندیشہ ہے کہ ۲۰۵۰ء میں بیکٹیریا سے ہونے والی اموات سالانہ ایک کروڑ ہوگی جو کہ کینسر سے ہونے واکی اموات کے ہم پلہ ہوگی۔فی الوقت نمونیا، ٹی بی، سوزاک، کھانے کی چیزوں سے پیدا ہونے والے انفیکشنز کاعلاج مشکل ہوتا جا رہا ہے او ر مریضوں کو ہسپتالوں میں زیادہ دیر تک رہنا پڑتا ہے۔
اینٹی بیاٹک مزاحمت کی وجہ حالانکہ قدرتی ہے لیکن کئی سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اینٹی بیاٹک کے کھلے اور غیر ضروری استعمال سے ہم اس عمل میں سُرعت پیدا کر کے مستقبل کا خطرہ مول رہے ہیں۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم اینٹی بیاٹک کا بے تحاشہ استعمال ترک کر دیں۔معمولی تکالیف مثلاً زکام، نزلہ، ہلکا بخار، کمر درد،پیٹ کے خراب ہونے پر اینٹی بیاٹک نہ لیں۔ ہمارا مدافعتی نظام ان تکالیف کا دو ایک دن میں خود ازالہ کرتا ہے۔علاوہ ازیں ان تکالیف کیلئے اینٹی بیاٹک کے استعمال سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ الٹا نقصان ہوتا ہے۔اینٹی بیاٹک ہمیشہ ڈاکٹر ی تشخیص اور مشورہ سے لینی چاہئے اور کورس پورا کرتے ہوئے پورری مقدار میں لینی چاہئے۔ آدھی دوائی کھانے سے بھی مزاحم جراثیم جنم لیتے ہیں۔کبھی بھی خود ہی اینٹی بیاٹک کا استعمال نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ طے کرنا کہ آپ کو اینٹی بیاٹک کی ضرورت ہے کہ نہیں، تشخیص کے بعد صرف اور صرف ڈاکٹر کر سکتا ہے۔دوئم ہر تکلیف کیلئے مختلف اینٹی بیاٹک دی جاتی ہے۔ سوئم کچھ اینٹی بیاٹک(مثلاً پنسلین یا ٹیٹراسائکلین) کئی مریضوں میںالرجی پیداکر سکتی ہے، جس سے موت بھی واقعہ ہو سکتی ہے۔حاملہ عورتوں، بچوں اور گردے کے مریضوں کو خاص طور پر ان باتوں کا خیال رکھنا چاہئے۔والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کو دو سال کی عمر تک کوئی اینٹی بیاٹک نہ دیں کیونکہ اس سے جسم میں پنپنے والے اچھے جراثیم بھی ختم ہوجاتے ہیں اور بعد ازاں کئی تکالیف کو جنم دے سکتے ہیں۔کئی طبیب غیر ضروری طور پر مریض کو اینٹی بیاٹک کا نسخہ دیتے ہیں۔ کبھی وہ مریض کو ضرورت سے زیادہ تیز اینٹی بیاٹک بھی دیتے ہیں جس سے وہ فوراً ٹھیک تو ہو جاتے ہیں مگر مستقبل کیلئے صحت پر برا اثر ڈالتے ہیں۔ مریضوں کو چاہئے کہ وہ ڈاکٹر سے اس بارے میں بات کریں ۔ اسی طرح دوا ساز بھی مریضوں کو یا تو ڈاکٹری نسخہ کے بغیر یا از خود ہی اینٹی بیاٹک دیتے ہیں جو کہ ایک جرم ہے۔۷ نومبر ۲۰۱۷ کو جینوا سے جاری ہونے والے ایک پریس بیان کے مطابق عالمی ادارہ صحت نے بڑھتی ہوئی اینٹی بیاٹک مزاحمت پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے سفارش کی ہے کہ اینٹی بیاٹک کا صرف ضرورت پڑھنے پر استعمال کیا جائے، اینٹی بیاٹک کے متبادل استعمال کئے جائیں (میرے خیال میں یونانی دوائیوں کا استعمال بہتر رہ سکتا ہے)، صاف و پاک رہیں،ویکسین کا ٹیکہ لگوائیں، گوشت پیدا کرنے والے جانوروں میں اینٹی بیاٹک کی افزائش کے طور پر استعمال بند کیا جائے۔
نوٹ :مضمون نگار کشمیر یونورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں اور آج کل کینساس یونیورسٹی میڈیکل سنٹر امریکہ میںسائنس دان ہیں۔
ای میل ایڈریس[email protected]