قارئین کرام جانتے ہیں کہ جس طرح اُردو شاعری کے مختلف اصناف سخن جیسے غزل ،نظم،رباعی ،قطعہ،مرثیہ،قصیدہ،وغیرہ ہیں،اُسی طرح نثری ادب میں بھی کئی اصناف جیسے ناول ،افسانہ،خود نوشتہ،رپورتاژ،طنزومزاح ،کالم اور صحافت وغیرہ ہیں۔راقم بھی اس میدان میں لگ بھگ چوالیس برس سے مختلف اصناف میں اپنی آشفتہ بیانی اور کالم نگاری سے قارئین میں متعارف ہے۔کئی اخبارات کے علاوہ کافی عرصہ تک پندرہ روزہ ’مسلم‘،اسی دوران نو سال تک ہفتہ وار ’احتساب‘ کے لئے اور بارہ سال تک ماہنامہ ’الحیات ‘کے لئے اور موجودہ وقتوں میں سابقہ نو برس سے ’کشمیر عظمیٰ‘کے لئے ہفتہ وار کالم ’چلتے چلتے‘کے عنوان سے لکھتا آیا ہوں ۔ ان تمام اخبارات و جرائد میں میرے لکھے ہوئے کالم دہلی،رامپور،بنگلورو،آزاد کشمیر اور نہ جانے کہاں کہاں سے دوبارہ چھپتے(Reproduce)ہیںاور مجھے نہ صرف ریاست سے بلکہ ریاست سے باہر حتیٰ کہ کبھی کبھی بدیش سے بھی الحمداللہ پسندیدگی کے فون آتے رہتے ہیں۔یہ سب اللہ کا کرم ہے بلکہ یہ بھی اُسی کی عنایت ہے کہ سابقہ اتنے برسوں سے کسی نے میری نگارشات میں مین میخ نہیں نکالے کیونکہ میرا تو یہی ماننا ہے کہ دل سے نکلتی ہے جو بات دل میں اُترتی ہے ۔میں یہ نہیں کہتا کہ میری ہر ایک بات قارئین کے گلے سے من و عن اُتر جاتی ہوگی ۔ہاں کسی کسی بات میں اختلاف بھی ہوسکتا ہے مگرشکر اللہ کا کہ کسی نے میرے خلاف مورچہ کھڑا نہیں کیا ۔
حالانکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ ابھی قلم زنجیروں میں جکڑا نہیں گیا ،ابھی تحریر و تقریر کی آزادی ہے مگر پھر بھی لکھتے وقت کافی احتیاط برتنا پڑتا ہے کیونکہ یہ بات حق و صداقت پر مبنی ہے کہ ہر ایک انسان کی اپنی اپنی اور الگ سوچ ہوتی ہے ۔ ہر ایک کی وچار دھارا دوسرے سے مختلف ہوتی ہے ۔اسی لئے تو شاعر جناب محمود دُرانی صاحب نے کہا ہے ؎
تلخ ہے کتنا سُکھ سے جینا پوچھ نہ ہم فن کاروں سے
ہم سب لوہا کاٹ رہے ہیں کاغذ کی تلواروں سے
عام طور پر لکھنے والا سماج میں یا اپنے ارد گرد کے ماحول میں ،محلے میں ،ریاست میں ،ملک میں ،کچھ جان جاتا ہے ،مشاہدہ کرتا ہے ۔کوئی واقعہ وقوع پذیر ہوتا ہے جو اُسے متاثر کرتا ہے بلکہ کبھی کبھی جھنجوڑ کے رکھ دیتا ہے۔کبھی اُس کے ذہن میں کوئی پرانی بات ہوتی ہے ،کوئی سنی ہوئی بات ،کوئی دیکھا ہوا منظر ،جو اُس کے تحت الشعور میں ہوتا ہے اور اُس واقعے نے اُسے متاثر کیا ہوتا ہے ۔اب ایک عام انسان میں اور لکھنے والے میں یہی فرق ہوتا ہے کہ عام انسان تمام چھوٹے بڑے حادثات و واقعات سے وقتی طور ضرور متاثر ہوتا ہے مگر لکھنے والا جس کو قدرت نے صلاحیت دی ہوتی ہے یا اس کسب سے متصف کیا ہوتا ہے ،وہ بڑے واقعے کی بات ہی نہیں ایک معمولی سے واقعے کو بھی من کی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور حرزجاں بنا دیتا ہے اور پھر اُس کا اظہار کرتا ہے ۔اسی لئے جناب سہیل فصیحی کا فرمانا ہے ؎
ہر روز جلاتے ہیں ہم خونِ جگر اپنا
یونہی نہیں ہوتی تشکیل خیالوں کی
اس ساری تمہید سے مراد یہ گوش گذار کرنا ہے کہ 13؍ستمبر کے کشمیر عظمیٰ کے شمارے میں ،میں نے ایک کالم بعنوان ’’مجھے رشتہ داروں سے بچائو‘‘لکھا تھا ۔یہ تحریر دس لاکھ لوگوں نے اخبار سے اور انٹر نیٹ سروس سے پڑھ لی۔کئی فون آئے جن میں بزرگوں کی تعداد زیادہ تھی ۔قارئین نے پسندیدگی کے ساتھ تعریف سے میری حوصلہ افزائی بھی کی ،مگر شومئی قسمت ہمارے اپنے رشتہ داروں میں سے ایک شخص کے لئے اُلٹے بانس بریلی والا معاملہ ہوگیا ۔اُس نے تحریر کو حقیقت جان کر میری نیت پر شک کیا اور آرٹیکل کی فوٹو سٹیٹ کاپیاں نکلواکر کئی رشتہ داروں میں تقسیم کیں ،شاید کچھ پیغام زبانی بھی دیا ہو ۔سب نے مضمون کے نریٹر(Narrator)کو چھوڑ کر مجھے ہی واحد متکلم تصور کرکے کسی نہ کسی صورت میں اپنے آپ کو مضمون میں فٹ کرلیا اور اعلان کیا کہ یہ اُنہی کے لئے قصداً لکھا گیا ہے اور میرے خلاف ایک اور مورچہ کھڑا کردیا گیا ۔مجھے بہت سخت سست کہا گیا ۔مذکورہ حضرت کے گھر میں واقعی تعلیم کا فقدان ہے، اسی لئے وہ میرے ساتھ خارکھائے بیٹھا تھا ۔اُسے موقعے کی تلاش تھی ،اس لئے اُس نے اس مضمون کی اشاعت کو زرین موقع سمجھا ورا سے بڑے اچھے ڈھنگ ( یعنی غلط بیانی کرکے ) سے کیش کیا ۔
مجھے صرف مار (Man handing)نہیں پڑی، باقی جو جو خوبصورت الفاظ دشنامی ڈکشنری میں ملتے ہیں وہ سب میرے اوپر استعمال ہوئے۔میں نے اُن کو سمجھانے کے لئے کہا تھا کہ مضمون صرف ایک فکشن تحریر ہے اور اس میں میری ذات جلوہ گر نہیں ہے کیونکہ آرٹیکل کا نریٹر اپنے عیال کا پیٹ پالنے کے لئے باسی روٹی کے ٹکڑے ،ہڈی نما کلچے اور انگوٹھوں کے پاس پھٹے ہوئے موزے ایک عورت سے قبول کرتا ہوتا ہے ،وہ میں کیسے ہوسکتا ہوں جب کہ میں خود ایک گزیٹیڈ آفیسر تھا اور کلاس ون آفیسرس پوسٹ پر سے ریٹائر ہوا ۔حالانکہ یہ بات وہ بھی جانتے تھے۔
جس شخص نے یہ سب کھڑاک کھڑا کیا ،اُس کوتاہ عقل پر مجھے کوئی افسوس نہیں ،افسوس ہے تو اُس شخص پر جو گریجویٹ بھی ہے اور دو سال قبل ایک اچھی پوسٹ پر ملازمت سے بھی سبکدوش ہوچکا ہے ۔اُس کے بیٹے نے بائیس سال قبل میرے گھر میں واش بیسن توڑا تھا تو اُس نے اندھے کی طرح دور کی کوڑی لائی اور گوشٹی کی کہ مضمون میں کراکری کے ٹکڑوں کے ساتھ جو واش بیسن کے ٹکڑے بتایا گیا ہے وہ اشارہ ضرور اُس کے بیٹے کی طرف ہے ۔یہ توندی والے میمنے کی بات ہوگئی ،جب بے ایمان بھیڑیا اُسے کہتا ہے :’’ارے چپ رہ ،زیادہ باتیں نہ بنا ۔ اگر تم نے نہیں تو تمہارے باپ نے ضرور گالیاں دی ہیں۔‘‘
ان حالات میں اب خدارا آپ خود ہی فیصلہ کیجئے کہ میں کیا کروں ؎
حیراں ہوں دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
غالبؔ
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر-190001،کشمیر،
موبائل نمبر:-9419475995
�����