گجرات کے انتخابی عمل کے پوراہوتے ہی ایک بار پھر سے ٹی وی چینلوں نے انتخابی جائزوں یعنی ایگزٹ پول کے بہانے بی جے پی کی حمایت اور نریندر مودی کے پہلے سے بھی زیادہ طاقت ور ہو جانے کو جس انداز میں پیش کرنا شروع کیا تھاکہ کہیں سوشل میڈیا پر سرگرم ہندتواوادی عناصر بھی شرمسار نہ ہو جائیں۔ایسا محسوس ہوا کہ یہ چینل والے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے چکر میںکہیں جھوٹ کا پلندہ ہی نہ پیش کررہے ہوں۔ان کے لہجے اور اندازِ بیان نیز پیش کش سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں تھا کہ وہ کسی ایک پارٹی کی دل و جاں سے حمایت کر رہے ہیں۔جملوں کے درو بست اور اقسام سے یہ محسوس ہونے میں دیر نہیں لگتی کہ کسی خاص پارٹی اور نظریے کی تبلیغ ان کا مقصد رہ گیا ہے اور وہیں کسی ایک پارٹی کو برباد کرنے کے لئے یہ کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔ان کی زبان اور اسلوب بھی سب کچھ بتلا دیتا ہے کہ وہ کس کی حمایت میں بات کر رہے ہیں۔یہی وہ صورت حال ہے جب ٹی وی چینلوںکے مالکوں اور اینکروںکی پالیسی سے ملاقات ہوتی ہے اور چڑھتے سورج کی پرستش کا وطیرہ واضح طور پر محسوس ہوتا ہے۔کیا یہ ایک جمہوری نظام کے لئے صحیح ہے؟اور کیا جس کے پاس وسائل ہیں اُسے ہی منظر نامے پر رہنے کا حق ہے؟۔۔۔۔اورکیا صحافتی پیشے میں جانب داری اختیار کرنے کو جائز ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ اس طرح کے کئی سوالات ہیں جو انصاف پسند عوام کو پریشان کئے ہوئے ہیں اور وہ انہیں میں الجھ کر رہ گیا ہے کہ کیا جھوٹ اب غالب ہو کر رہے گا؟اور کیاعوام کی اکثریت جھوٹ پر تکیہ کرنے لگی ہے اور جھوٹ کی تحقیق کئے بغیر ہی اپنے رہنما پر یقین کر لیتی ہے اور اسے بھاری اکثریت سے فتحیاب بھی کر دیتی ہے یا رہنما اُنہیں موقع ہی نہیں دیتا کہ جھوٹ کی جانچ پڑتال وہ کر سکیں؟ تو یہ تو کمالِ ہوشیاری ہوئی نا! اِن حالات میں پھر سچا آدمی ہونا بے وقوفی ہے اور یہی سبب ہے کہ دنیا بھر میں جھوٹ اور روپے دونوں مل کر حکومت کر رہے ہیں۔اب بھلا بتائیے ،گھٹن جیسا ماحول ہے کہ نہیں؟
ٹی وی کے بیشتر چینلوں نے جو جائزے پیش کئے تھے اُن کے مطابق تو نتائج آئے نہیں البتہ کانگریس نے ۸۰؍سیٹیں حاصل کرکے راہل گاندھی کی لیڈر شپ کھڑی کردی اور اُن کی محنت رنگ لائی اور ۲۰۱۹ء کے عام چناؤ کے لئے اب وہی مشترکہ اپوزیشن کے لیڈر ہوں گے کیوں کہ مودی کے قلعے میں اس طرح سے سیندھ لگاناکوئی آسان کام نہیں تھا اور بی جے پی کو یوں ۹۹؍سیٹوں پر روک دینا بھی اپنے آپ میں ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔اس کا سارا کریڈٹ راہل گاندھی کو جاتا ہے کیونکہ تین نوجوان لیڈروں ہاردک،الپیش اور میوانی کے خاطر خواہ اثرات، نتائج کی صورت میں دیکھنے کو نہیں ملے۔۳؍سیٹیں دیگر کے حصے میں آئی ہیں جو ایک طرح سے کانگریس کی ہی ہیں۔حکومت بنانے کے لئے صرف ۱۰؍سیٹوں کی ضرورت تھی جو کانگریس بہت آسانی سے حاصل کر رہی تھی لیکن عین دوسرے مرحلے کی ووٹنگ سے پہلے وزیر اعظم نے ایسا کارڈ کھیل دیا کہ انصاف پسند عوام ہکاّ بکاّ رہ گئے اور گجراتی عوام اُن کے جھانسے میں ضرور آگئے اور اس طرح یہ صوبہ بھی اُن کی جھولی میں رہ گیا جس سے یقیناً وہ اور امیت شاہ مسرور ہوں گے کیونکہ اُن کا پھینکا ہوا پانسہ کام کر گیا ۔
سلمان نظامی کو تو اب آپ بھی جان گئے ہوں گے۔چند روز پہلے تک اسے کوئی نہیں جانتا تھا۔مودی کی کھوج ،عین دوسرے مرحلے سے پہلے۔سچ پوچھئے تو میں نے کبھی یہ نام نہیں سنا تھا اور جتنے بھی صحافیوں سے دریافت کیا ،وہ بھی اس نام سے ناواقف تھے۔اب کشمیریوں سے جب پوچھا تو اِس نام کے کسی شخص کو جاننے سے انکار کیا لیکن ہمارے وزیر اعظم جب یہ کہتے ہیں کہ ’’کانگریس کا ایک سٹار کمپینر سلمان نظامی ہے اور وہ مسلم محلوں میں مہم میں مصروف ہے اور جس کا تعلق دہشت گردوں سے ہے‘‘ تو ان کی اس دریافت پر عش عش کرنے کو جی چاہتا ہے۔سلمان نظامی چلا چلا کر کہتا رہا کہ میرا تعلق کشمیر سے ضرور ہے لیکن دہشت گردوں سے نہیں بلکہ میرے دادا کانگریس کے ایم ایل اے رہ چکے ہیں۔وہ یہ بھی کہتا رہا کہ میرے ٹویٹر اکاؤنٹ کو ہیک کرکے ملک کے خلاف نازیبا پوسٹ ڈالے گئے ہیں جن کی شکایت پولیس اسٹیشنوں میں وہ درج کر چکا ہے۔ لیکن چینل والے ایک ماننے کو تیار نہیں۔اُس کو دہشت گرد ثابت کر کے اُس کی مختلف کانگریس لیڈروں سے ملاقات کی تصویروں کو ایک کے بعد ایک دکھانا شروع کر دیا جن میں راہل گاندھی ، سونیا گاندھی ،منموہن سنگھ، سچن پائلٹ، جیوترادتیہ سندھیا اور راجیو شکلا کے علاوہ درجن بھر اور کانگریسیوں کی تصویریں بھی وائرل کر دی گئیں۔ ۲؍ماہ سے راہل گاندھی جو اپنا سر پھوڑ رہے تھے اُن کی جگہ سلمان نظامی لے لیتا ہے اور گجراتی بہت حد تک مودی کی اس بات کا یقین بھی کر لیتے ہیں۔اب اسٹار کمپینر راہل نہ ہو کر سلمان نظامی ہو جاتا ہے اور اس طرح بی جے پی بلکہ مودی ۔شاہ جوڑی گجرات کے الیکشن کو کشمیر سے جوڑنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔
اسی طرح منی شنکر ایّر کے گھر ۶؍دسمبر کو عشائیہ رکھا جاتا ہے اور زیادہ تر خاص مہمانان پاکستان کے ہوتے ہیں۔اس سے پہلے میں نے یہ شکایت عدالت اور الیکشن کمیشن سے کی تھی کہ ۶؍دسمبر(بابری مسجد کی شہادت کا دن) کے آس پاس تاریخ اور ووٹنگ کیوں کر رکھا ۔چلئے وہ دونوں ادارے کانگریس کے دائرۂ اختیار میں نہیں تھے اور اُن کو کانگریس روک نہیں سکی لیکن ایّر کے یہاں پارٹی کو تو ۱۴؍دسمبر کے بعدبھی رکھا جا سکتا تھا اور یہ تو کانگریس کے اختیار میں تھالیکن نہیں صاحب ! یہ خود ہی موقع دیتے ہیں بلکہ الیکشن کے لئے ایشو بھی یہی فراہم کرتے ہیں۔مودی جی نے کتنی فطانت سے اس عشائیے کو استعمال کیا اور کانگریس تاکتی رہ گئی۔مودی نے اپنی تقریروں میں یہ کہنا شروع کر دیا کہ پاکستان میرے اور گجرات کے خلاف سازش رچ رہا ہے اور احمد پٹیل کو گجرات کا وزیر اعلیٰ بنانا چاہتا ہے۔اس کی سازش مذکورہ عشائیے میں رچی گئی۔یہ ویسا ہی بیان تھا جس طرح روس امریکہ کے الیکشن پر اثر انداز ہوا تھا۔بھولے بھالے عوام کو پاکستان اور مسلمان یعنی احمد پٹیل دونوں ہی موضوع دے دیا شریمان مودی نے ۔کانگریس اس پوزیشن میں نہیں تھی کہ یہ کہہ سکے کہ کیا ہوا اگر احمد پٹیل کو وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا؟ایسا پہلی بار تھوڑی ہی ہوا ہے کہ کوئی مسلمان وزیر اعلیٰ نہیں ہوا ہے۔لیکن کانگریس میں اس وقت ایسا کہنے کی جرأ ت نہیں ۔اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کی گجرات اور ملک کے دوسرے حصوں میں بھی، کیا وقعت ہے؟وزیر اعظم مودی کی باتوں کا منموہن سنگھ نے ترکی بہ ترکی جواب ایک خط کی صورت میں دیا اور کانگریس ،پی ایم سے معافی کا مطالبہ کرتی رہی۔مودی جی اگر معافی مانگ بھی لیتے ہیں تو کیا،اُن کاکام تو ہو گیا۔(ایّر کاایک اور ’’نیچ ‘‘والا بیان بھی بی جے پی کے لئے آکسیجن کا کام کر گیا تھا) آخر تک مودی ۔شاہ َجوڑی گجرات انتخابات کو پاکستان ،کشمیر اور مسلمانوں سے جوڑنے میں کامیاب ہو گئی جن کا ووٹنگ سے ۳۔۴؍روز قبل تک پتہ نہیں تھا اور اب تونتائج بھی سامنے ہیںلیکن گجرات کی اِن ۸۰؍سیٹوں کی جیت اور ہماچل پردیش میں بھی کانگریس کی ایک تہائی سیٹ(۲۱؍) کی حصولیابی سے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ راہل گاندھی کے لئے بہت بڑی جیت ہے۔ اگرگجرات کے اِن نتائج کا جائزہ لیاجائے تو بھی گزشتہ ۲۰۱۲ ء کے اسمبلی انتخابات سے۲۰؍سیٹیں زیادہ لے لینا بھی کامیابی ہے کیونکہ یہ سب پر عیاں ہے کہ کس طرح امیت شاہ نے کانگریس میں توڑ پھوڑ مچائی تھی اور ۱۳؍ ایم ایل اے کانگریس کو ۵۔۶؍ماہ پہلے خیر باد کر چکے تھے اور مقصد یہ تھا کہ کانگریس کو کمزور کیا جائے لیکن احمد پٹیل کی راجیہ سبھا کی جیت نے ایک نئی امنگ کانگریسیوں میں پیدا کر دی تھی۔اور اگر ۲۰۱۴ء کے عام انتخابات کے نتائج کا مشاہدہ کیا جائے تو کانگریس ۱۵۔۱۴؍ سیٹوں کے اسمبلی حلقوں میں ہی سمٹ گئی تھی ،اس حساب سے تو اسے ۶۵؍سیٹوں کا فائدہ ہواہے جو ایک بہت بڑی کامیابی ہے اور اس کے لئے راہل گاندھی مبارک باد کے مستحق ہیں۔
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو، نئی ممبئی کے مدیر ہیں
رابطہ 9833999883