سرینگر//ریاستی حکومت کی طرف سے عارضی ملازمین کو مستقل کرنے سے متعلق ایس آر او۔520 کی اجرائی کے ایک روز بعدسرکاری محکموں کو ایک کنال سے کم اراضی دینے والے مالکان نے احتجاج کیا ہے۔تاہم وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ پہلے مرحلے میں ایک کنال اراضی دینے والوں کو راحت دی گئی ہے اور اگلے مرحلے میں دیگراں کے بارے میں کوئی فیصلہ لیا جاسکتا ہے۔محکمہ خزانہ کی طرف سے اجراء کئے گئے ایس آر اوکے مطابق’’ جن اراضی مالکان نے بغیر معاوضہ سرکار کے نام مختلف پروجیکٹوں کیلئے اپنی اراضی وقف کی ہے،متعلقہ محکموں کے انتظامی سیکریٹریوں کی سربراہی میں قائم کمیٹی کی سفارشات پر کیجول لیبر تعینات ہونے کے اہل ہیں‘‘۔ مذکورہ ایس آر اومیں مزید کہا گیا ہے’’ مالک زمین نے یہ اراضی خیرات میں نہ دی ہو،جبکہ31دسمبر2001کے بعد ہی وقف کی گئی اراضی کے کیس زیر غور لائے جائیں گے،کم از کم زمین کی حد ایک کنال مقرر کی گئی ہے اور یہ قانونی طور پر سرکار کے نام منتقل ہوئی ہو،اور اس کے دستاویزی ثبوت بھی مالک زمین کے پاس دستیاب ہو‘‘۔ سرینگر پریس کالونی میں ایک کنال سے کم اراضی وقف کرنے والے مالکان نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ایس آر اونے مایوس کیا،اور انکی کشتی کو بیچ منجھدار میں ہچکولے کھانے کیلئے چھوڑ دیا گیاہے۔ اراضی وقف کرنے والے لوگوں نے بتایا کہ انہوں نے سرکار کو مختلف پروجیکٹوں،بجلی ریسونگ اسٹیشن،پانی سپلائی اسکیموں اور اسکولوں کی تعمیر کیلئے ایک کنال سے کم اراضی وقف کی ہے،جبکہ متعلقہ محکموں نے انہیں یقین دہانی کرائی تھی کہ اراضی وقف کرنے کے عوض انہیں یا انکے قریبی رشتہ داروں کو محکموں میں تعینات کیا جائے گا،تاہم ایس آر انہیں ان محکموں میں تعیناتی سے محروم کرتا ہے۔ اس سلسلے میں محکمہ آب رسانی(پی ایچ ای) میں587لوگ اراضی وقف کرنے کرنے کے بعد تعیناتی کے منتظر ہیں،جبکہ اسی محکمے میں اسی پالیسی کے تحت پہلے ہی861امیدواروں کو تعینات کیا گیا ہے۔ محمد رمضان میر ساکن شوپیاں نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ2006 میں پانی سپلائی اسکیم کی تعمیر کیلئے انہوں نے سرکار کو10مرلہ اراضی وقف کی،تاکہ انکے پوتے کو محکمہ میں تعینات کیا جائے۔میر نے محکمہ پی ایچ ای کے ساتھ عدالت میں نوکری کے حصول کیلئے ایک معاہدہ بھی کیا۔محمد رمضان میر کا کہنا ہے’’ میرے پاس تمام دستاویزی ثبوت ہیں،جس کی تصدیق لینڈ کلکٹر اور محکمہ پی ایچ ای کے متعلقہ افسراں نے بھی کی ہے ،کہ میںنے10مرلہ اراضی وقف کی ہے اور اس کے بدلے میں،افسراں نے سرکاری طور پر مجھے یقین دہانی کرائی ہے کہ میرے بچے کو نوکری فراہم کی جائے گی‘‘۔محمد رمضان میر کے دستاویزات لینڈ کلکٹر،سنیئر انجینئر،ایگزیکٹو انجینئر اور دیگر افسران سے تو ثیق شدہ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ روز سرکار نے جو ایس آر اومنظر عام پر لایا،اور جس میں سرکار نے ایک کنال اراضی کی حد مقرر کی ہے،انکے ساتھ نا انصافی ہے۔انہوں نے کہا’’جب ہم نے اراضی کو وقف کیا،اس وقت ایس آر او نہیں تھا،اور محکمہ نے ہمیں یقین دہانی کرائی کہ ہمارے بچے کو پی ایچ ای میں تعینات کیا جائے گا‘‘۔ان کا کہنا تھا’’ اگر ایک کنال اراضی کی حد مقرر ہوتی تو میں اپنی اراضی وقف نہیں کرتا،جبکہ میں نے اپنی اراضی دہائیوں قبل وقف کی ہے،جب کوئی ایس آر او نہیں تھا‘‘۔ محمد رمضان میر کے علاوہ مختار حجام ساکن کچہامہ کپوارہ بھی ہے،جس نے محکمہ پی ایچ ای کو14مرلہ ،غلام رسول دار ساکن ہندوارہ نے18مرلہ،ظہور احمد شیخ ساکن سار شالی پانپور نے16مرلہ اور دیگر سینکڑوں لوگ بھی ایسے ہیں،جنہوں نے ایک کنال سے کم اپنی اراضی محکمہ پی ایچ ای کو وقف کی ہے۔ اراضی مالکان نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنی زمین صرف اس لئے وقف کی تاکہ انہیں ملازمت فراہم ہو۔انہوں نے کہا کہ ماضی میں ان اراضی مالکان کو بھی نوکری مل گئی،جنہوں نے صرف5یا6مرلہ زمین وقف کی تھی۔ اراضی مالکان نے ان پروجیکٹوں کو مقفل کرنے کی دھمکی دی،اگر انہیں نئی پالیسی کے دائرے میں نہیں لایا گیا۔وزیر خزانہ نے اس سلسلے میں سوال کو ٹالتے ہوئے کہا ابھی صرف ایک کنال اراضی کرنے والوں کافیصلہ ہوا ہے۔بجٹ سے قبل مشاورت کے حاشیہ پر نامہ نگاروں کی طرف سے پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے حسیب درابو نے کہا’’ کسی نے1996میں اراضی دی تھی،اور اب تک نوکری نہیں دی گئی تھی،جبکہ ان سے وعدے بھی کئے گئے تھے،اور انہیں اب جا کر ملازمت مل گئی‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ فی الحال ایک کنال کی حد مقرر کی گئی،اور اسی کا فیصلہ ہواہے‘‘۔