ایک عرصہ ہوا کہ ہاکنگ نے کہا تھا
کائنات پھیل رہی ہے
معمہ وقت کا آخر کو
تفہیم کی ساخت میں اتر رہا ہے
دور آسمانوں میں کہیں
سیاہ دیواروں کے پیچھے
وقت کی آستینوں میں
پڑے تسبیح کے دانے ہیں
جو دانہ بھی اٹھانا چاہتے ہو
انگلیاں کھولو
خرد کی گتھیوں کے اب سلجھنے کا وقت آیا
آسمانوں کے دہانوں پر
شب رنگ سُوراخ
سمٹ رہے ہیں
اپنے وجود کو چھو لینے کی کوشش میں
نگل رہے ہیں خود کو
ہمارا آج جب کل بن رہا ہوگا
رات کو رو رو صبح کیا جو
دن کو جوں توں شام کیا جو
وقت کا ایک چھوٹا سا پیکٹ بن کر
سمٹ رہا ہے بلیک ہول کے اندر
یہ لمحے چھوٹ کر ہم سے کہیں محفوظ رہتے ہیں
مجھے امید ہے ہاکنگ کی تھیوری سے
کہ اک دن جب صبح اُٹھ کر میں
اخباروں کے پنّے اُلٹ کر
یہ سرخی آنکھ میں بھر کر
کہ ہاکنگ سچ بتاتا تھا
ہمیں ماضی کی رسوائی کو
پھر اک بار جینا ہے
جو آنے والا کل ہے اُس کے پردے
نوچ ڈالیں گے
اور میں۔۔
مجھے گزرے ہوئے لمحوں کو پھر سے کاٹ کھانا ہے
میں اکثر سوچتا ہوں کل کا سورج
اپنے دوش پہ نیا اخبار لئے
یہی سرخی سنبھالے
چل رہا ہوگا
کہ فاصلہ ہے بہت اور میں
منتظر ہوں
ہاکنگ سچ بتاتا ہے
کائنات پھیل رہی ہے
مگر میں
خود میں سمٹ رہا ہوں۔۔۔۔۔
عابد نورالامین عابدؔ
ریسرچ اسکالرشعبۂ اُردوکشمیر یونیورسٹی سرینگر
ای میل؛[email protected]
موبائل نمبر؛:9596236255