مولانا امین الرحمن عامر عثمانی ( ۱۹۲۰ء۔ ۱۹۷۵ء ) بیسویں صدی کے اْن ممتاز اہلِ علم و فضل میں سے ہیں، جنھیں دین اسلام کے علم و آگہی میں ملکہ ہونے کے ساتھ شعر وادب اور نقدوبصر کے منصفانہ رویے کے حوالے سے ایک منفر دشناخت حاصل تھی۔ ان کے قلم میں ایسی تابانی اور فکرونظر میں ایسی وسعت تھی کہ وہ جس موضوع پر قلم اٹھاتے، اس کا حق ادا کردیتے تھے۔ علمی اعتبار سے اْن کی استنادی حیثیت یوں متشخص ہوتی ہے کہ ان کا خانوادہ دار العلوم دیوبند کے بانیوں میں سے ایک مولانا فضل الرحمن عثمانی، ان کے صاحبزادگان مفتی عزیزالرحمن عثمانی اور علامہ شبیر احمد عثمانی جیسے نابغہ افراد کا خانوادہ ہے۔خود عامر عثمانی دارالعلوم دیوبند کے ممتاز طالبِ علم رہے اور اعلیٰ نمبرات کے ساتھ ۱۹۳۸ء میں فضیلت کی تکمیل کی۔ ان کا مطالعہ وسیع تھا اور مشاہدہ عمیق۔ وہ اسلامیات کے بھی رمزشناس تھے اور ادبیات سے ان کی آگاہی بھی بہت سے پیشہ ور اصحابِ ادب سے زیادہ اور اچھی تھی۔ رسمی تعلیم سے فراغت کے بعد انھوں نے کسبِ معاش کے لیے متعدد سرگرمیوں میں ہاتھ ڈالالیکن ان کی عملی زندگی کا اصل دور تب شروع ہوا، جب انھوں نے نومبر ۱۹۴۹ء میں ماہ نامہ ’تجلی‘ کا آغاز کیا۔عام لوگوں کے لیے یہ امر مئوجبِ حیرت تھا کہ دیوبند سے شائع ہونے والے اس رسالے کو آناً فاناً ملک گیر شہرت و مقبولیت حاصل ہوگئی حالاں کہ بنیادی طور پر یہ ایک مذہبی رسالہ تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مذہبی ہونے کے باوجود اس رسالے کے مشمولات میں ایسا تنوع اور توسع ہوتا تھا کہ اس میں ہر قسم کے ذوق و دلچسپی رکھنے والے قارئین کو اپنی آسودگیِ فکر و نظرکا سامان بخوبی طور پر میسر آجاتا تھا۔
’تجلی‘ نے مذہبی، مجلاتی صحافت میں ایک انقلاب کی نیو اٹھائی اور ادبی و تنقیدی مباحث میں دلچسپیو ں کے نئے جہان تخلیق کیے۔’تجلی‘ محض ایک رسالہ نہیںبلکہ فکر و نظر کے نئے نئے زاویے تراشنے والا ایک مکمل ادارہ تھا۔ اس رسالے کے ذریعے عامر عثمانیؔ نے بحث و تحقیق کے اْن گوشوں پر بھی کھل کر لکھا، جن پر لکھنے سے لوگ ہچکچاتے تھے یا اْن کی علمی نارسائی اْنھیں اس سے روکتی تھی، چاہے مذہبی مسائل ہوں یا ادبی نقطہ ہائے نظر،سب پر عامر عثمانیؔکاقلم بھرپور روانی سے چلتا تھا اور اپنے قاری کو غور و فکر کی نئی راہوں سے ہم کنارکرتاتھا۔مولاناعامرعثمانی کے نثری جہان کی دلکشی،تنوع اور خوبیوں کے ادراک کے لیے ماہ نامہ’ تجلی‘ کے شماروں پر ایک نظر ڈالنا کافی ہوگا، اْنھوں نے جس انداز سے اس رسالے کی ترتیب قائم کی تھی اور جس طرح علمی و فنی باریکیوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ’تجلی‘ کے کالموں کی تقسیم کی تھی اور پھر وہ جس خوبی سے انھیں برتتے تھے، وہ صرف انہی کا حصہ تھا۔ ہر ماہ نئے اور اچھوتے مذہبی ،علمی، سماجی و سیاسی موضوعات پر ان کے دلچسپ اور علم ریز اداریے قاری کے لیے فرحت و انبساط کا سامان کرنے کے ساتھ سوچنے اور سمجھنے کی تازہ قوتوں سے سرشار کرتے تھے۔مذہبی رسائل عام طور پر اپنے یک موضوعی ارتکاز کی وجہ سے چل نہیں پاتے اور ان کی تعدادِ اشاعت چند سیکڑوں سے تجاوز نہیں کرپاتی، اس کا احساس عامر عثمانیؔ کو بھی تھا اور انھوں نے تجلی کے پہلے شمارے میں اس طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا بھی تھا کہ : ’’تجلی کا پہلا شمارہ آپ کے ہاتھوں میں ہے، ہم جانتے ہیں کہ سرِورق پر ’’مذہبی‘‘ کا لفظ دیکھ کر ہمارے نوے فی صدی بھائی ورق گردانی کی زحمت گوارہ کیے بغیر ہی اسے ایک طرف ڈال دیں گے، ان کی طنز آلود نگاہیں زبانِ حال سے تحقیر آمیز انداز میں کہیں گی ’’دقیانوسی، فضول، رجعت پسند انہ‘‘ ! پانچ فی صدی ایسے ہوں گے، جو محض عنوانات پر نگاہ ڈالنا کافی سمجھیں گے، ان کا اندازِ نظر کچھ ایسا ہوگا گویا صرف ورق گردانی ہی چھاپنے والے کی عرق ریزیوں کی مناسب قیمت ہے، پانچ فی صدی مشکل سے ایسے ہوں گے جو پورے مضامین کا مطالعہ فرماسکیں گے‘‘۔خودان کے کئی ہمدردوں اور بہی خواہوں نے بھی ممکنہ خساروں کے پیشِ نظر انھیں اس مہم جوئی سے باز رہنے کی تلقین کی تھی لیکن عامر عثمانی ؔاولاً تواپنی دھن کے پکے آدمی تھے اور ثانیاً یہ کہ ان کے ذہن میں جس قسم کے رسالے کا خاکہ تھا، اس کو دیکھتے ہوئے انھیں بھی یقیناً یہ امید ہوگی کہ ’تجلی‘ رسائل و مجلات کی دنیا میں نقطہ انقلاب ثابت ہوگا، سو ایسا ہوا بھی، اس رسالے کو سراہا بھی گیا، علمی و ادبی حلقوں میں اس کا ایک وقار و اعتبار قائم ہوا، یہ ایک ایسا مجلہ تھا، جسے لوگ خرید کر پڑھتے تھے ۔حالاں کہ عام طور پر رسائل اور مجلات کو لوگ خرید کر پڑھنے سے زیادہ مفت حاصل کرنا چاہتے ہیں، چند شماروں کے بعد ہی اس رسالے کی تعدادِ اشاعت دسیوں ہزار سے زائد پہنچ گئی اور پورے برصغیر کی اردو دنیا نہ صرف ’تجلی‘ کے نام سے آشنا بلکہ اس کے خوانِ علم و ادب کی ریزہ چیں ہوگئی۔
عامر عثمانیؔ نے اس رسالے میں پوری بے باکی کے ساتھ بدعات و خرافات کے خلاف لکھا، مذہبی تقدس کی آڑ میں نفسانی خواہشات کی پرورش کرنے والے عناصر کی نشان دہی کی اور اس حوالے سے عام مسلمانوں کے فکری و شعوری انجماد کو توڑا، ادب کو لامقصدیت اور تفریحِ طبع بنانے کی بجائے بامقصد بنانے پر زور دیا۔ ادبی و شعری تنقید کے بھی خوب سے خوب تر تجربے کیے اور ان کی دلچسپ، خوب صورت، معنویت سے لبریز شاعرانہ صلاحیتوں کا باقاعدہ ظہور ’تجلی‘ کے صفحات سے ہی ہوا۔
یوں تو ’تجلی‘ کا مکمل سراپا ہی اپنے اندر بے پناہ حسن و کشش رکھتا تھا اور اسے پڑھنے کے لیے قارئین بے تاب رہتے تھے، مگر اس کے بعض مخصوص کالموں کی کچھ زیادہ ہی اہمیت تھی، مثلاً عامر عثمانی ؔصاحب کا اداریہ، جسے وہ ’آغازِ سخن‘ کے عنوان سے تحریر کیا کرتے تھے، اس اداریے میں وہ عام طور پر تازہ شمارے کے مشمولات پر طائرانہ نظر ڈالتے تھے اور اس خوبی سے لکھتے تھے کہ قاری کے سامنے پورے رسالے کا خلاصہ اور نچوڑ آجاتا تھا۔ ’تجلی کی ڈاک‘ بھی اس رسالے کا ایک دلچسپ کالم تھا، اس کی وجہ یہ تھی کہ جس طرح عامر عثمانی کسی بھی مسئلے پر پوری بے باکی کے ساتھ اپنا نقطہ نظر واضح کرتے تھے اور شخصی امتیاز کو خاطر میں لائے بغیر انھیں جو حق نظر آتا، اس کا اظہار کردیتے تھے، اسی طرح ان کے یہاں مکمل فکری و نظری وسعت تھی کہ ان کاکوئی بھی قاری ’تجلی‘ کے کسی بھی مشمولہ حصے سے متعلق اپنی رائے، اعتراض یا اشکال انھیں ارسال کرسکتا تھا۔چنانچہ اس رسالے کے تقریباً ہر شمارے میں جہاں بہت سے مراسلات ماہ نامہ ’تجلی‘ کی خوبیوں اور اس کے امتیازات کی مدح سرائی پر مشتمل ہوتے تھے، وہیں کئی مراسلے ایسے بھی ہوتے تھے، جن میں ’تجلی‘ کے کسی مضمون، کسی کالم پر کوئی اشکال ہوتا تھا اور عامر عثمانی صاحب اہتمام سے اس کا جواب لکھتے اور اعتراض کرنے والے کے ذہنی خلجان کو دور کرتے تھے۔ ’تجلی‘ کا ایک اور خاص کالم، جو ملک گیر شہرت رکھتا تھا اور قارئین کی ایک بہت بڑی تعداد اس کی ہر نئی قسط کے لیے چشم براہ رہتی تھی، وہ اس رسالے کا طنزیہ کالم ’مسجدسے مے خانے تک‘ تھا، اس میں عامر عثمانی کا ایک نیا اوتار’ ملا ابن العرب مکی‘ کی شکل میں نظر آتا تھا۔ اس کالم میں عامر عثمانی اپنے مخصوص، مزاحیہ اور طنزیہ انداز میں ملک کے ماحول، مسلمانوں کے معاشرہ اور اربابِ اقتدار سے لے کر صاحبانِ جبہ و دستار تک کے اصلی اور حقیقی چہرے سے نقاب اٹھاتے تھے۔اس کالم میں ’ملا ابن العرب مکی‘ کی زبانی انھوں نے بعض ایسے فکرانگیز جملے لکھے اور ایسی قیمتی باتیں تحریر کی ہیں کہ ان کو سمجھنے کے بعد انسان اپنی فکری و عملی زندگی میں تحرک اور بیداری کی نئی سمتیں حاصل کرسکتاہے اوریہ جملے اس کی زندگی میں ایک صالح اور خوشگوار انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ ان کی وفات کے ایک عرصے کے بعد ’مسجد سے مے خانے تک‘ کو کتابی شکل میں بھی شائع کیا گیا ہے، جو پانچ سو سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔ ’کھرے کھوٹے‘ بھی ’تجلی‘ کا ایک بہت ہی ممتاز کالم تھا، جس میں مختلف موضوعات پر شائع ہونے والی نئی کتابوں پر تبصرے کیے جاتے تھے، تبصرہ نگاری میں بھی عامر عثمانیؔ کا اپنا ایک خاص منہج تھا، وہ کسی بھی تصنیف کی قدر و قیمت مصنف کی شہرت و مقبولیت کے ذریعے طے کرنے کی بجائے اس کتاب کے مشمولات کے ذریعے طے کرتے تھے، تبصرہ نگاری کے مروج طریقے کے برعکس وہ کتاب کو پہلے مکمل دقتِ نظری سے پڑھتے اور پھر اس پر اظہارِ خیال کرتے تھے، علمی کمزوری ہو یا ادب و زبان کی ادنیٰ سی لغزش، اس کی وہ بڑی بے باکی سے نشان دہی کرتے تھے۔ان کی تنقید میں تعصب کی بجائے حقیقت پسندی ہوتی تھی، اسی طرح وہ کسی بھی تصنیف یا تخلیق کے محاسن کو بھی کھلے دل سے سراہتے تھے۔ اردو زبان کے تبصرہ نگاروں میں ماہرالقادریؔ کا نام نمایاں ترین ہے، انھوں نے اپنے رسالے ’فاران‘ میں جو سیکڑوں علمی، ادبی، مذہبی، سیاسی و سماجی موضوعات پر لکھی گئی کتابوں پر تبصرے کیے، وہ اہلِ علم و ادب کے یہاں معرکہ آرا سمجھے جاتے ہیں اور وہ ’ماہرالقادری کے تبصرے‘ کے نام سے طبع شدہ بھی ہیں، انھیں بھی عامر عثمانی کی تنقید نویسی اور تبصرہ نگاری میں فنی مہارت کا اعتراف تھا۔ عامر عثمانیؔ کی وفات پر اپنے تاثراتی مضمون میں ماہرالقادری ؔنے اس حوالے سے نہایت ہی وقیع الفاظ تحریر کیے، انھوں نے لکھا: ’’فاران میں کتابوں پر جس انداز میں تبصرہ کیا جاتا ہے، یہ انداز کئی رسالوں نے اختیار کیا، مگر وہ نباہ نہ سکے، مولانا عامر عثمانیؔنے ’تجلی‘ میں اس انداز کو پوری طرح برقرار رکھا، شعروادب اور زبان پر ’فاران‘ کی تنقیدیں شاید کچھ نکلی ہوئی ہوں، مگر علمی مباحث اور کتابوں پر ’تجلی‘ کی تنقیدوں کا جواب نہیں! ‘‘ (یادِرفتگاں،ص:۱۱)
عامر عثمانی کی تنقیدی جولانیوں کا دائرہ زیادہ تر علمی کتابوں تک محدود رہا، وہ اگر باقاعدگی کے ساتھ زبان و ادب اور شعرونثر پر نقد و تبصرے کا سلسلہ جاری رکھتے، تو پھر ان کا قد اِس حوالے سے بھی دراز ہی ہوتابلکہ حقانی القاسمی کے بقول: ’’(عامرعثمانی کے علاوہ) شاید تنقید کے افق پر کوئی دوسرا نام نظرنہ آتا، نقاد یا تو تنقید لکھنا بھول جاتے یا پھر کوئی اور پیشہ اختیار کرتے، کہ عامر عثمانی کی علمیت کے سامنے ہمیشہ انھیں اپنی جہالت کا چراغ روشن ہونے کا خطرہ لاحق رہتا‘‘۔ (دارالعلوم دیوبند:ادبی شناخت نامہ،ص:۲۸)
ابوالاثر حفیظ جالندھری ؔنے ’شاہنامہ اسلام‘ لکھا تھا اور یہ شاہنامہ بہت مشہور ہوا تھا۔ مولانا عامر عثمانی نے ’’شاہنامہ اسلام جدید‘‘ کے نام سے اسلامی حکایات کو منظوم انداز میں بیان کرنا شروع کیا تھا اور بعد میں یہ اشعار کتابی شکل میں شائع ہوئے۔ نہ صرف شائع ہوئے بلکہ انتہائی مقبول ہوئے۔ آپ کا کلام سادگی اور پرکاری کا اعلیٰ نمونہ تھا۔ اثر انگیزی ہر ہر شعر سے ٹپکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے والی بات آپ کے کلام میں محسوس ہوتی ہے، قدرت کا یہ قانون ہے کہ جو چیز انتہائی معیاری ہوتی ہے وہ زیادہ دن تک برقرار نہیں رہتی۔ قدرت کا یہ قانون آپ کسی بھی چیز پر منطبق کر کے دیکھیں، یقیناً آپ یہ قانون پوری طرح کارفرما پائیں گے۔ مولانا پونا کے ایک مشاعرے میں شرکت کرنے کی غرض سے گئے، حالانکہ آپ بیمار تھے اور ڈاکٹر نے باہر نکلنے سے منع کیا تھا، لیکن جو اللہ نے مقدر میں لکھا ہے وہ ہو کر رہتا ہے، چنانچہ آپ نے اپنی ایک نظم بڑے پر درد انداز میں سنائی، اور وہ نظم یہ تھی ’’جنہیں سحر نگل گئی وہ خواب ڈھونڈتا ہوں میں ‘‘ اور دس منٹ بعد وفات پائی۔ مولانا کے انتقال پر علمی و ادبی دنیا میں ایک لمحے کے لیے سناٹا چھا گیا،بعدازاں اخبارات میں تعزیتی مضامین کا تانتا بندھ گیا۔ماہر القادری مرحوم نے آپ کی وفات پر ’’فاران‘‘ میں جو تعزیتی مضمون لکھا تھا، اس کی یہ سطریں مرحوم کو خراج عقیدت پیش کرتی رہیں گی:
’’مولانا عامر عثمانی کا مطالعہ طویل و عریض اور عمیق تھا، وہ جو بات کہتے تھے کتابوں کے حوالے اور عقلی و فکری دلائل و براہین کے ساتھ کہتے تھے، پھر سونے پر سہاگہ زبان و ادب کی چاشنی اور سلاست و رعنائی۔ تفسیر، حدیث، فقہ، تاریخ، لغت و ادب غرض تمام علوم میں مولانا عامر عثمانی کو قابل رشک بصیرت حاصل تھی۔ جس مسئلے پر قلم اٹھاتے اس کا حق ادا کر دیتے، ایک ایک جزئیے کی تردید و تائید میں امہات الکتب سے حوالے پیش کرتے، علمی و دینی مسائل میں ان کی گرفت اتنی سخت ہوتی کہ بڑے بڑے جغادری اور اہل قلم پسینہ پسینہ ہو جاتے۔ ‘‘
مولانا کے کلام میں سلاست اور روانی ہے۔ ایسی دھلی دھلائی، شیریں اور پیاری زبان کہ بے اختیار دل مچل جائے اور تڑپ تڑپ جائے۔ بڑی بڑی بحروں میں بھی آپ بڑے خوبصورت اور با معنیٰ اشعار کہتے ہیں۔ آپ کے اشعار کے اسی معروضی حسن کی وجہ سے مرکزی مکتبہ اسلامی نے آپ کا مجموعہ ’’یہ قدم قدم بلائیں ‘‘ کے عنوان سے شائع کیا اور انتساب ہے ’’قدر دانانِ عامرعثمانی کے نام‘‘ آپ کی ایک غزل کے کچھ منتخب اشعار پیش ہیں ؎
یہ قدم قدم اسیری یہ حسین قید خانا
کوئی طوق ہے نہ بیڑی ،کوئی دام ہے نہ دانا
کوئی ہو سمجھنے والا تو بہت نہیں فسانہ
کبھی مسکرا کے رونا ،کبھی رو کے مسکرانا
یہ عبادتیں مرصع ، یہ سجود مجرمانہ
مجھے ڈر ہے بن نہ جائے، مرے کفر کا بہانا
مرے زخم بھر نہ جائیں ،مجھے چین آ نہ جائے
یہ کبھی کبھی توجہ، ہے ستم کا شاخسانا
وہ کبھی جہاں پہ عامرؔ، مجھے چھوڑ کر گئے تھے
ہے رکی ہوئی وہیں تک، ابھی گردش زمانا
واقعہ یہ ہے کہ عامر عثمانی ؔنے’تجلی‘کے ذریعے سے اردوکی مذہبی، علمی و ادبی مجلاتی صحافت میں ایک انقلاب برپاکردیاتھا۔ ان کے قلم سے جوشہہ پارے وجودمیں آئے، وہ آج بھی’نقش کالحجر‘ہیں اوراپنے اندربے پناہ حسن و کشش رکھتے ہیں۔
رابطہ ریسرچ اسکالرشعبہ اردو،کشمیریونیورسٹی سرینگر