لو جی کشمیر والو! من موجی ہوجائو ، خوشی خوشی گرم گرم ہریسہ کھائو کہ خبر یں ہی کچھ ایسی آرہی ہیں۔ملک کشمیر کے ہند نواز سیاست دان دھمکی پہ دھمکی دئے جارہے ہیں ۔ للکار تے ہوئے دھمکا رہے ہیں کہ یلغار ہو۔ ادھر نیشنل کے ہل والے قائد ثانی نے اندرونی خودمختاری کے حصول کا بگل کچھ اتنی زور سے بجایا کہ دلی دربار والے اسے صور اسرافیل سمجھ کر گھبر اگئے اور ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہی رہے کہ یہ اچانک کیا ہوگیا ،کیسے ہوگیا ، کیوں ہوگیا۔ہماری بلی ہم سے میائوں نہیں بلکہ ہماری مر غی ہم سے کرت کرت کرنے لگی ہے۔ادھر بانوئے کشمیر نے اعلان کردیا کہ میرے وقت میں مسلٔہ کشمیر حل نہ ہوا تو دھمکی دے کر کہہ دیا کہ وہ سیاست چھوڑ دیں گی۔ہو نہ ہو سیاست چھوڑنے کا ڈر پوری طرح وہم و گمان میں گھس گیا ہے کہ لاشعور میں جگہ بنا لی ہے۔اور اس کے چلتے ینگ مفتی کو فوری طور سیاست کا مزہ چھکانے کی سوجھی کہ دن پھر گئے تو لمحہ لمحہ جلن محسوس ہوگی کہ خود تو کرسی و اقتدار کا حظ اٹھایا لیکن کرسی کھونے کا کرب قائم رہا اور شفیق بھائی کو اقتدار کی پری سے ملاقات نہ ہو پائی۔ مطلب صاف صاف ہے کوئی کہتا ہے کہ ہم ملک کشمیر کے تمام مسائل کریں گے اور کوئی ڈنکے کی چوٹ پر کہتا ہے کہ جو چاہے میدان عمل میں آجائے، ہم سے دو دو ہاتھ کرے بلکہ بہتر ہے کہ لڑ مرو عاشقو والا رائونڈ ہو ہی جائے ۔پھر دیکھتے ہیں بقول اہل کشمیر کس کی ماں سونا تولتی ہے او ر کس کی ماں چاندی۔
ویسے معاملہ کچھ بھی ہو تولا تو یہاں انسانی (کشمیری)خون ہی ہے اور اس کے لئے کسی ناپ تول کی ضرورت نہیں ۔کوئی لیٹر ، میٹر ،گز کام نہیں کرتا بلکہ دریا دریا، چشمہ چشمہ سرخ ہے اور ہم ہیں کہ پیش پرودگار فریاد کرتے ہیں ،سوال کرتے ہیں یہ لال لال رنگ کی ندیاں کب ہمیں چھوڑیں گی؟ کشمیری لہو کا کوئی پیمانہ مقرر نہیں ، البتہ خون بہا کے نام پر کبھی انکم ٹیکس کا ٹ کر اور اب جی ایس ٹی تراش کر ایک لاکھ دے کر اعلیٰ حضرت حاتم طائی کی قبر پر لات پڑتی ہے، چیک دینے دوران ٹی وی کے لئے کچھ تصویریں بنتی ہیں تاکہ سند رہے ۔سند رہے کہ مانا کہ ہمارے ہی بندوق سے یہ کون مرا ، کس کا لہو بہا لیکن زخموں پر پھاہا رکھنے کے لئے پیسے بھی تو ہم ہی ادا کرتے ہیں۔مطلب صاف ہے کہ کان کا پردہ ہم پھاڑیں اور سننے والی مشین بھی ہم ہی لائیں، پیر بھی ہم کاٹیں اور اونچی ایڑی والا جوتا بھی ہم ہی خرید کر دیں ،ٹانگیں ہم توڑ دیں اور بیساکھی کا انتظام بھی ہم ہی کردیںیعنی زخم بھی ہم دیں اور ہیلنگ ٹچ بھی ہم ہی بہ نفس نفیس انتظام کریں۔اسی پس منظر میں بانوئے کشمیر نے اعلان کیا کہ وردی پوشوں کا آپریشن آل آوٹ اپنی جگہ لیکن ملی ٹنٹ مارنے سے کوئی تنظیم آل آئوٹ نہیں ہوگی بلکہ رائفل بھٹ سے بیٹنگ جاری رہے گی،یعنی ملی ٹنٹ بھلے دود بدو لڑتے رہیں اور نئے لوگ داخل تنظیم ہوں اور روز روز کی تلاشی مہموں میں خون بہا کوئی کارگر حل نہیں ،اس لئے ہیلنگ ٹچ کی اشد ضرورت ہے۔
سی ایم محترمہ کا کہنا ہے کہ ملی ٹنٹ مارنے سے کچھ نہ ہوگا ہماری تو امید بندھ گئی تھی کہ اب کے بعد شاید خون خرابہ نہیں ہوگا۔ پھر خون بہا بھی نہ ہوگا اور اس کے ساتھ جو بونس کے طور اہل کشمیر کو تحقیقات کا چوں چوں مربہ ملتا ہے وہ بھی بند ہوگا کہ اس کا مزہ چکھتے چکھتے کشمیریوں کا مزہ ہی کرکرا ہوگیا ہے۔البتہ آصف کا اقبال بلند نہیں تھا کہ بیچارہ’’ غلطی والی موت‘‘ مطلب کراس فائرنگ کا شکار ہوگیا ۔ ادھر بٹہ مرن شوپیان میں بھی روبی کی زندگی کی چمک ماند پڑ گئی۔ ہو نہ ہو فیصلہ یہ ہوگیا ہے کہ بھلے ملی ٹنٹ مارنے سے کچھ نہیں ہوگا لیکن معصوم سویلین مار ڈالنے سے ہی کچھ فرق پڑہی جائے ۔پہلا شکار تو کپوارہ کا سومو ڈرائیور ہوگیا پھر شوپیان کی خاتون، اورابھی یہ فیصلہ ہونا باقی ہے کہ ’’غلطی‘‘ سے جان بحق ہوئے یا کراس فائر میں؟ اس بارے میں تارا مسیح سے اطلاع ملتے آپ کوبتایا جائے گا۔ پھر براہ راست ذمہ داری ڈالنا تو ممکن نہیں کہ افسپا کی مدافعتی چادر تو بڑی کارگر ہے ؎
اس کی درندہ خوئی سے اہل کاشمر
کتنے پھوٹے لہو کے فوارے
اتنے فرعون نے نہ مارے تھے
جتنے بندے افسپانے مارے
اس قسم کی اطلاع ذرا دیر سے ملتی رہتی ہے ۔شک ہو تو پتھری بل، کنن پوشپورہ، ہندوارا ، حول وغیرہ سب یاد کرو۔کچھ تو حافظے سے نکل گئے کچھ ہوم منسٹری کی بھاری دھول کے نیچے دبکے پڑے ہیں اور کچھ ملٹری کورٹ کے نیچے سسک رہے ہیں کہ کب باہر آکر تازہ ہوا کھالیں اور اہل کشمیر ہمارا چہرہ، بیمار ہی سہی، دیکھ پائیں۔ اسی لئے ایک بے ل وپر ممبر اسمبلی نے پھرن تار تار کرکے اور گلا پھاڑپھاڑ کر اعلان کردیا کہ یہ بیچارے مجسٹریٹ تو ارباب اختیار یعنی وردی پوشوں کے بالائی ورکر ہیں کہ انہی کے اشاروں پر نِکے بڑے دستخط کردیتے ہیں ؎
دیکھ اتنا نہ بے تکلف ہو
کچھ زرا احتیاط کر بھائی
چھوڑ قصہ کراس فائرنگ کا
دال قیمے کی بات کر بھائی
خیر ہیلنگ ٹچ تو مرد مومن کا سنہرا خواب تھا اور اس کے لئے انہوں نے تاریخی ( یاتاریکی کا) فیصلہ لیا ۔شمال و جنوب کو ملانے کا جو بیڑا مرد مومن نے اٹھایا تھا اس کی یاد اپنے وزیر خزانہ کے بہی کھاتوں میں درج ہے جبھی تو انہیں اب کی بار وہ تاریخ یاد آئی جو ۲۰۱۵ میں رقم کی گئی بلکہ اس نے ہی رام کے ساتھ مل کر یہ تاریخی مادھو تراشا تھا اور اب جو کوئی اس کے خدو خال ، ناک نقش ، چہرے مہرے ، رنگ وروپ ظاہر کر نے کی بات کرتا ہے تو وزیر خزانہ جی ایس ٹی کاٹ کر دکھاتا ہے اور وہاں تو صفر صفر ہی نظر آتا ہے کہ باقی کنول برداروں کے کھاتے میں چلا گیا اور خود قلم دوات والے روکھی سوکھی شیشی لے کر رہہ گئے،یعنی وزیر خزانہ کے پاس حساب ہے کتاب ہے لیکن کباب نہیں کیونکہ وہ تو باجپا والے اڑا کر لے گئے ۔
وزیر خزانہ حسیب بنے ہوئے ہیں اور سیاست کاروں کے درد کے علاج کی قیمتیں ادا کرتے ہوئے کنگال دکھتے ہیں ، پھر حساب دکھائیں تو کیا؟؟؟ممبران اسمبلی کو دلی میں دانت ہڈی کا علاج کراتے خزانہ خالی ہوا تو جانباز فایر سروس اہلکار کے لئے کچھ بچا ہی نہیں۔جانباز اہل کار آگ بجھاتے زخمی ہوگیا لیکن اس کے بہتر علاج کے لئے سرکار کی تھیلی میں کچھ نہ بچا تھا کہ میڈیکل کھاتے میں سب پیسے ممبران قانون سازیہ کے بیرون ریاست علاج و معالجہ پر خرچ ہو گئے تھے۔جانباز اہل کار کو ہوائی جہاز سے دلی نوئیڈا نہ لے جایا جا سکا اور وہ زندگی کی جنگ ہار گیا ؎
سود در سود دے کے روو گے
ہم کو یہ ادا نہیں بھاتی
قرض پہ قرض لے کے ہنستے ہو
شرم تم کو مگر نہیں آتی
ملک کشمیر کے ہل والے دریندرسردی سے نہیں ڈرتے بلکہ سردی کی مشکلات کا سامنا کرنے میدان لال چوک میں اُتر آئے کہ اہل کشمیر کا درد ان کے سینے میں بستا ہے اور انہیں تڑپاتا ہے ۔اسی لئے بجلی کی کمی کا ، انسانی حقوق کی پامالی کا، راشن کی نایابی کا دیو انہیں سامنے محسوس ہوتا ہے۔بھائی ہو کیوں نہ ، اپنے دور اقتدار میں تو انہوں نے اس دیو کو پابند سلاسل کردیا تھا ۔پھر بجلی کی کمی نہ تھی راشن کی فراوانی تھی ۔ انسانی حقوق کی پاسداری عروج پر تھی جبھی تو ایک سال ۲۰۱۰میں فقط ایک سو بیس مارنے کا سکورتھابنااور ۲۰۰۸ سے ۲۰۱۰ تک دو سو اڑسٹھ۔بھلا یہ بھی کوئی ہندسہ ہے !!!نیشنل کے ٹویٹرٹائیگر نے ٹویٹر چڑیا اڑا کر کپوارہ کے سومو ڈرائیور کی ہلاکت کیایک عدد مذمت کی اور اس کے لئے تحقیقات کی فوری تکمیل کا رونا رویا ؎
آنکھوں میں آنسو چہرے پہ ہنسی ہے
سانسوں میں آہیں دل میں بے بسی ہے
ہم کو معلوم ہے اس دردِ بے پناہ کا راز
پہلے کیوں نہ بتایا جان کرسی میں پھنسی ہے
بے چارے اہل اسلام شکایت کے عادی ہیں اور ہر وقت مظلوم بنے پھرتے ہیں کہ انہیں ہندو شدت پسند پیٹتے ہیں ،مارتے ہیں کاٹتے ہیں جلاتے ہیںلیکن مودی سرکار میں جہاں’’ سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘‘عام ہے اسلئے سب پہ لات سب کی مار اسی سکے کا دوسرا پہلو ہے۔اہل اسلام کی پٹائی کٹائی ابھی جاری تھی کہ عیسائی افراد ناراض ہوئے کہ انہیں اس عمل میں شامل نہیں کیا جاتا۔بس پھر کیا تھا سب کا ساتھ سب کو مار برگیڈ نے میرٹھ میں مسلمان کو ہندو کا مکان خریدنے نہ دیا۔ مدھیہ پردیش میں بھی یہ برگیڈمیدان میں اُتر آیا ۔کرسمس موقعے پر گانے والے عیسائی گویوں کی مار پیٹ کی۔ پادری کی گاڑی کو آگ لگا دی ۔پولیس بھی پیچھے نہ رہی ،انہی گویوں کو گرفتار کیا اور جو پادری وغیرہ انہیں چھڑانے آئے تھے، انہیں بھی قید کیا ۔ ایسے میں ہندو جاگرن منچ جاگ اٹھا اورعلی گڑھ میں کرسچن اسکولوں کو کرسمس نہ منانے کی وارننگ دے ڈالی۔ کہا بجرنگی بھائیو ! یہ زبردستی کرسچن بنانے کی سازش ہے ۔ساتھ میں یہ بھی مشورہ دیا کہ کرسچن بنانا ہی ہے تو کشمیر میں اہل اسلام کو مسیحی بنا دو یعنی جو جیتا وہ نریندر اور جو پیٹا وہ اسی کا دریندر ۔ لیکن اصل دریندر تو گجرات کے ووٹر نکلے۔مودی نے ان سے ایک سو پچاس سیٹیں مانگیں تھیں کہ اسمبلی میں بھاجپا کا دبدبہ قائم رہے لیکن گجراتیوں نے مودی کا جاری کردہ جی ایس ٹی کاٹ کر بہ صیغہ بے رنگ دے دیا۔ یعنی ایک سو پچاس کا اٹھائیس فیصد کاٹ کر ننانوے کا نٹے دار سیٹیں حوالے کردیں۔انت میں کانگریس کو ہرا دیا ، مودی کو ڈرا دیا، اچھا بیوپاری کامیاب بیوپاری!
آخر پر یہ دلچسپ خبرکہ ۱۹۴۸ میں مسلم خواتین کوعبادت کرتے اور دعائیں کرتے دکھانے والی ایک تصویر جو پیٹر فیٹرمین نے لی تھی، امریکہ میں نیلامی کے دوران بتیس ہزار پانچ سو پاونڈمیں بک گئی۔ واہ بھئی واہ گورو! گوشت پوست والے مسلمان کا جنگ وجدل سے ستیاناس کرو ، مگراس کی تصویر نیلام ہو تو کروڑوں ڈالر پاؤنڈ اسی طرح اُڑاتے پھینکو جیسے محمد بن سلمان نے فرانس میں کروڑوں ڈالر کا قصر شاہی خریدکر نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ جیو میرے لال بجھکڑو، جُگ جُگ جیو!
رابط[email protected]/9419009169