سرینگر/این ایچ پی سی کی جانب سے کشن گنگا پن بجلی پروجیکٹ پر جاری کام دراصل وعدوں کی نیلم پر ی دکھا کر پایہ تکمیل کو پہنچایا جارہا ہے ۔330میگاواٹ پروجیکٹ حسب روایت این ایچ پی سی کو سونپا گیا ۔کمپنی نے اپنے مفاد کی خاطر اراضی مالکان سے جو وعدے کئے وہ ہنوز تشنۂ تکمیل ہیں۔اس پروجیکٹ پر کام شروع ہونے سے قبل اہلیان گریز کواقتصادی اور معاشی ترقی کے سبز باغ دکھائے گئے ،انہیں نہ صرف نوکریاں فراہم کرنے کا وعدہ دیا گیا بلکہ جن لوگوں کی زمینیں پروجیکٹ کے دائرے میں لائیں گئیں انہیں بھی معقول معاوضہ دینے کا وعدہ کیا گیا ۔تاہم اس وقت جب کہ مذکورہ پرجیکٹ تکمیل کے آخری مراحل میں ہے کمپنی کی طرف سے ایک بھی وعدہ وفا نہ ہوسکا ۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ گریز کے بڈون علاقے میں زیر تعمیر کشن گنگا پن بجلی پروجیکٹ سے کمپنی 330 میگاواٹ بجلی حاصل کرے گی جس کیلئے علاقے میں 37میٹر اونچا ڈیم بنایا گیا ہے ،ساتھ ہی ساتھ 29کلو میٹر لمبی سرنگ کے ذریعے دریائے کشن گنگا کے پانی کا رخ موڑکر اسے ضلع بانڈی پورہ میں واقع جھیل ولر میں ڈالا جائیگا ۔گریز کے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ این ایچ پی سی کی وعدہ خلافی سے تنگ آچکے ہیں اور اس کمپنی کو اپنی اراضی فراہم کرنے پر کفِ افسوس مل رہے ہیں ۔گریز کے ایک سماجی کارکن اور صحافی تنویر عالم خان نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ کھوپری اور بڈون گائوں کے 128کنبے کشن گنگا پرجیکٹ کی زد میں آئے ہیں ،جو 800نفوس پر مشتمل ہے،انہوں نے بتایا کہ جو معاوضہ لوگوں کو فراہم کیا گیا وہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہے ،کیونکہ 3سے 4افراد پر مشتمل کنبے میں تین بھائیوں کا حصہ کتنا بنے گا ،کمپنی نے یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ ہر گھر کے ایک فردکو نوکری فراہم کی جائے گی اور ساتھ ہی ساتھ علاقے کی خستہ حال سڑکوں کی مرمت کے علاوہ بنیادی ڈھانچے کو بھی استوار کیا جائے گا ۔کمپنی نے علاقے میں جدید طرز کا ایک ہسپتال اور سکول بنانے کا بھی وعدہ کیا تھا تاہم ان میں اس ایک بھی وعدہ ایفاء نہ ہوا۔تنویر عالم نے مزید کہا کہ جب اس پروجیکٹ کی تعمیر شروع کی گئی تو علاقے کے نوجوانوں کویہاں کام کرنے کی اجازت دی گئی اور پھر 2 برس کے اندر انہیں وہاں سے نکال کر غیر ریاستی مزدوروں کو کام پر لگایا گیا ۔انہوں نے کہا کہ این ایچ پی سی نے گریز بانڈی پورہ سڑک کی تعمیر کا بھی وعدہ کیا تھا لیکن یہ وعدہ بھی سراب ثابت ہوا ۔ اسی طرح گائوں کی طرف جانے والی ایک بھی سڑک پر کام نہیں ہوا ۔گریز کے ایک اور شہری زبیر احمد نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ بڈون اور کھوپری میں اس وقت ایک مسجد ہے اور ایک کنبہ وہاں رہائش پذیر ہے باقی لوگوں کو یا تو گریز میں زمین ملی یا پھر انہوں نے بانڈی پورہ میں رہائش اختیار کی ۔ پروجیکٹ کیلئے اس غرض سے زمین دی گئی تھی تاکہ اس کا فائدہ گریز کو مل سکے وہاں سکول تعمیر ہوں، ہسپتال بنے ،سڑکیں پختہ بنیں گی اور دیگر تعمیراتی کام ہوں گے، جس کا اُن سے وعدہ کیا گیا تھا لیکن سارے وعدے فریب ثابت ہوئے۔گریز کی آبادی کو آج کے اس دور میں بھی جنریٹر سے چندگھنٹوں کیلئے بجلی فراہم کی جاتی ہے ۔این ایچ پی سی جہاں یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ ہر کنبے کو رہائشی مکان کیلئے زمین یا نقدلگ بھگ 11لاکھ روپے معاوضے کے طور پر ادا کئے گئے ہیں، تاہم مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ 128گھرانوں میں سے صرف 18گھرانوں کو مکان کے لئے متبادل زمین فراہم کی گئی اور فی کنال زمین کا معاوضہ 11 لاکھ نہیں بلکہ 5.75لاکھ ادا کیا گیا ۔سال2013میں کشن گنگا بجلی پروجیکٹ کی تعمیر کیلئے لوگوں سے ملکیتی زمین حاصل کی گئی اور اس کے عوض انہیں غیر متوازن معاوضہ بھی فراہم کیاگیا۔قصبہ بانڈی پورہ اوراس کے نزدیکی دیہات کے لوگ کہتے ہیں کہ اْن سے لی گئی ملکیتی اراضی کیلئے معمولی معاوضہ فراہم کیاگیا۔اور باقی معاوضہ ہضم کیا گیا لیکن اب مذکورہ پروجیکٹ کے پانی کے اخراج کیلئے مخصوص نالہ بونار کواس قدر تباہ وبرباد کیاجارہاہے کہ کرالہ پورہ گائوں سے لیکر ناتھ پورہ بانڈی پورہ تک لگ بھگ 25دیہات آنے والے وقت میں تباہ کن سیلابی صورتحال سے دوچار ہوسکتے ہیںکیونکہ اس نالے پر کام میں محکمہ اریگیشن فلڈ کنٹرول غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہا ہے ۔