نیشنل ہیلتھ مشن کے تحت کام کرنے والے ڈاکٹر اور دیگر ملازمین پچھلے کئی دنوںسے اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کررہے ہیںجس کے نتیجہ میں دیہی علاقوں کا طبی نظام مفلوج ہوکررہ گیاہے اور نہ صرف پرائمری ہیلتھ سنٹروں بلکہ بیشتر سب ضلع ہسپتالوں میں بھی مریضوں کو مشکلات کاسامناہے اور انہیں علاج معالجہ کی مناسب سہولیات نہیں مل رہی ہیں ۔ اگرچہ کچھ علاقوں میں محکمہ صحت کے مقامی افسران کی طرف سے مستقل ملازمین کی چھٹیاں منسوخ کرکے انہیں واپس ڈیوٹی پر تعینات رہنے کی ہدایت دی گئی ہے اور کچھ ہسپتالوں میں ڈاکٹر دن رات خدمات انجام دے رہے ہیں لیکن اس کے باوجود مریضوں کی ایک بڑی تعداد کی وقت پر نہ ہی تشخیص ہوپارہی ہے اور نہ ہی ان کا علاج ہوتاہے ۔واضح رہے کہ کچھ برس قبل مرکزی سرکار کی معاونت سے ریاست کے دیہی علاقوں میں طبی نظام کو مستحکم بنانے کے مقصد سے نیشنل رورل ہیلتھ مشن سکیم کا آغاز کیاگیااوراس سکیم کے تحت بڑی تعداد میں طبی و نیم طبی عملہ کو تعینات کیاگیاجنہوںنے اپنے فرائض انجام دے کر نہ صرف طبی نظام میں بہتری لائی بلکہ کئی ناکارہ پڑے طبی مراکز بھی فعال ہوئے اور لوگوں کو مقامی سطح پر ہی طبی خدمات کے حصول کے بہ سبب طویل مسافتیں طے کرکے تحصیل اور ضلع صدر مقامات کے پھیرے لگانے میں راحت ملی تھی۔ دیہی علاقوں میں ان ملازمین نے اہم خدمات انجام دی ہیں اور ان کی خدمات پر فی الوقت نہ صرف گائوں دیہات بلکہ بیشتر تحصیل صدر مقامات بھی انحصار رکھتے ہیں ۔اس سکیم کے تحت کام کرنے والے ملازمین ماضی میں بھی کئی مرتبہ اپنے مطالبات اور خاص طور پر جاب پالیسی مرتب کرنے کا مطالبہ لیکر احتجاجی دھرنے دے چکے ہیں اور کام چھوڑ ہڑتالیں کرچکے ہیں لیکن ہر بار حکام کی طرف سے انہیں جھوٹی یقین دہانیاں دی گئیں اور ان پر عمل درآمد نہیں کیاگیا جس کے نتیجہ میں ان ملازمین کا حکومت کے تئیں اعتماد ختم ہوگیا اور اب وہ اپنے مستقبل کے حوالے سے زبردست فکر مند ہیں ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان ملازمین میںسے بیشتر کی عمر ملازمت حاصل کرنے کی حدپار کرچکی ہے اور وہ اب کوئی دوسرا کام کرنے کے اہل بھی نہیں رہ گئے اس لئے ان کی تمام تر امیدیں اسی محکمہ سے وابستہ ہیں ۔حکومت کی طرف سے این ایچ ایم ملازمین سے کام تو برابر لیاجارہاہے لیکن انہیں تنخواہیں بھی بہت کم قلیل دی جاتی ہیں اور ان کیلئے کوئی جاب پالیسی بھی موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے مستقبل کے تئیں متفکر ہیں اور انہیں یہ تک معلوم نہیں کہ سکیم بند ہونے کے بعد ان کی زندگی کیسے بسر ہوگی ۔بدقسمتی کی بات ہے کہ اب تک حکومت نے اس سلسلے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا اور ہزاروں کی تعداد میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کے تئیں کوئی پالیسی وضع نہیں کی گئی ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ نیشنل ہیلتھ مشن ملازمین کی جائز مانگوںکو پورا کیاجائے اور جس طرح سے سرکار نے انسانی بنیادوں پر ساٹھ ہزار عارضی ملازمین کا مستقبل محفوظ بنایاہے ،اسی طرح سے ان ملازمین کے مستقبل کو بھی تباہ ہونے سے بچایاجائے ۔حکومت کوفوری طور پر ہڑتالی ملازمین سے بات چیت کرکے ہڑتال ختم کروانی چاہئے تاکہ دیہی علاقوں کے مفلوج طبی نظام کو پٹری پر واپس لایاجاسکے ۔