سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے ٹو جی گھپلے کا فیصلہ سنا دیا ہے جس کے تحت اس میں ملوث تمام ملزمین بری کر دئیے گئے ہیں۔اس وجہ سے منموہن سنگھ کی سرکارپر لگا داغ مٹ گیا ہے۔یہ اور بات ہے کہ سی بی آئی اور اِی ڈی (انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ) کی جانب سے ہائی کورٹ میں اپیل داخل کرنے کی بات کہی گئی ہے لیکن کورٹ کے اس فیصلے پرکرونا ندھی کی پارٹی ڈی ایم کے کا سرشار ہونا لازمی ہے کیونکہ اُس وقت کے وزیر مواصلات اے راجہ جن کا تعلق ڈی ایم کے سے ہے ،کو ہی سارے گڑبڑ کا جڑ قرار دیا گیا تھا ۔ اُنہیں اُس وقت استعفیٰ بھی دینا پڑا تھا اور چند دنوں بعد جیل بھی جانا پڑا۔کروناندھی کی اپنی بیٹی بھی جیل جانے سے نہیں بچ سکی تھیں۔اِن دونوں کے علاوہ اور بھی ۱۷؍افراد پر فرد جرم عائد کیا گیا تھا اور اُس میں بھی تقریباً سب نے جیل کی ہوا کھائی تھی۔اس مقدمے میںخاص طور پر جو بڑے صنعتکار منظر عام پر آئے تھے، اُن میںروی روئیا،انشمن روئیا،آئی پی کھیتان،شاہد بلوا،ونود گوینکا،سنجے چندرا وغیرہ کے علاوہ ریلائنس انل امبانی گروپ کے ۳؍ بڑے آفیسر بھی شامل تھے۔ساتھ ہی اُس وقت کے سابق سکریٹری مواصلات سدھارتھ بیہورااور اے راجا کے پرائیوٹ سکریٹری آر کے چندولیا بھی ملزمین میں تھے۔جج او پی سینی کے ذریعے اِن تمام لوگوں کو بری کئے جانا اور وہ بھی ۷؍برسوں سے جاری شنوائی کے بعد،بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اِس مقدمے میں کوئی میرِٹ ہی نہیں تھا۔محترم جج کے ۱۵۵۲؍ صفحات کے آرڈر کو اگر ایک جملے میں بیان کیا جائے تو یوں کہیں گے کہ ’’کھودا پہاڑ اور نکلی چوہیا‘‘۔
۲۰۱۴ء کے عام چناؤ میں کانگریس کے خلاف جو سب سے بڑا اور اہم موضوع تھا وہ یہی ٹوجی گھوٹالا تھا جسے مودی اور بی جے پی نے میڈیا کی مدد سے خوب اچھالا جس کے سبب کانگریس ۴۴؍نشستوں پر سمٹ گئی تھی۔مودی نے اپنی تقریروں میں یہ کہنا شروع کیا تھا کہ یہ صدی اور دنیا کا سب سے بڑا گھپلا ہے جس کی وجہ سے سرکاری خزانے کو ۱؍ لاکھ ۷۶؍ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔اِس فیصلے کے آنے کے بعدمودی حکومت کی طرف سے ارون جیٹلی ہی آگے آئے اور اپنے ’اچھے جملوں‘ کی ساخت کی بنا پر مودی اور شاہ اوراپنی حکومت کی عزت بچانے کی کوشش کی اور یہ کہا کہ کانگریس اسے اپنے لئے کوئی (بدعنوانی سے پاک ہو جانے کا)سرٹیفکٹ نہ سمجھے اور ساتھ ہی قدرو منزلت کا تمغہ بھی متصور نہ کرے۔اُن کے مطابق وہ آگے کی عدالت میں جائیں گے اور وہاں کانگریس کی بدعنوانی ثابت ہو جائے گی کیونکہ کانگریس سر سے پیر تک ایک بدعنوان پارٹی ہے۔اُن کے کہنے کا یہ بھی مطلب تھا کہ کانگریس کو بدعنوان ثابت کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔ساتھ ہی اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ سپریم کورٹ اے راجہ کے ذریعے الاٹ کئے گئے تمام کے تمام ۱۲۲؍ ٹیلی کوم لائسنس کیوں کرمنسوخ کرتا اگر مقدمے میں کوئی دَم نہیں ہوتا۔یہ سراسر گمراہ کرنے والی بات ہے اور بی جے پی نواز میڈیا نے جیٹلی کے اسی بیان کو اُچک لیا ہے اور ایک بار پھر سے مودی اور مودی حکومت کا دفاع کرنے میں لگ گیا ہے ۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ دونوں مقدمات میں کوئی یکسانیت نہیں ہے اور دونوں ہی الگ الگ نوعیت کے مقدمے ہیں۔سپریم کورٹ میں اِس گڑبڑی کے تعلق سے جو مقدمہ تھا اُس کی نوعیت خالص دیوانی تھی اور عدالت عظمیٰ نے وزارت کے کام کرنے کے طور طریقوں پر فیصلہ سنایا تھا۔یعنی کے اے راجا کے وقت یہ چلن عام تھا اور شاید اس سے پہلے بھی کہ ’’پہلے آؤ اور پہلے پاؤ‘‘کا طریقہ اختیار کیا گیا تھا ۔عدالت عظمیٰ نے ٹینڈر نہ جاری کرنے کی غلطی کو بنیاد بنا کر تمام کے تمام لائسنس منسوخ کئے تھے نہ کہ کوئی فوجداری معاملے کا یہ فیصلہ تھاجب کہ سی بی آئی کی خصوصی عدالت کا مقدمہ خالصتاً فوجداری نوعیت کا ہے۔جیٹلی جی اور کمپنی اور بی جے پی والے اس ہنر میں بہت آگے ہیں کہ کس طرح لوگوں کو گمراہ کیا جائے؟
کانگریس نے یہ صحیح راستہ اپنایا ہے کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کو بار بار معطل کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔مودی جی نے گجرات میں اپنے الیکشن مہم کے دوران سابق کانگریسی وزیر اعظم منموہن سنگھ،سابق نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری،سابق فوجی سربراہ اور دیگر سابق وزراء اور حکومت کے عہدیداروں پر ملک سے غداری کا جو الزام عائد کیااور یہاں تک اپنے ووٹروں سے کہا کہ پاکستان کے ساتھ مل کر میرے خلاف یعنی ایک گجراتی کے خلاف یہ تمام سازشیں رچ رہے تھے۔منی شنکر ایر کے بارے میں تو یہ بھی کہا کہ اُس نے پاکستان کو میری سُپاری دی ہے۔کانگریس یہ چاہتی ہے کہ وزیر اعظم اس الزام کا خلاصہ کریں یا ان تمام افراد پر مقدمہ چلائیں۔بات در اصل یہ ہے کہ مودی جی اِس بار بُرے پھنسے ہیں ورنہ نائب صدر جمہوریہ نائڈو جو راجیہ سبھا کے چیئر مین بھی ہیں کو یہ نہیں کہنا پڑتا کہ باہر کہی ہوئی بات کا ایوان میں جواب مانگنا درست نہیں ہے۔وہی ذرا تکلیف کر کے بتا دیں کہ وزیر اعظم سے کیسے اور کس فورم سے جواب مانگا جائے؟ مودی جی کو تو جواب دینا پڑے گا کیونکہ جھوٹ بول کر اُنہوں نے ابھی ابھی گجرات کا الیکشن جیتا ہے،ٹھیک اسی طرح ٹو جی والے نام نہاد گھپلے پر بہت بڑا جھوٹ بول کر ۲۰۱۴ء کا انتخاب جیتا تھا۔اس کا بھی بھید کھل گیا کیونکہ جھوٹ کو زیادہ دنوں تک طول نہیں دیا جا سکتا۔
اسی طرح گجرات کے دوسرے مرحلے کے ووٹنگ سے ایک روز پہلے صنعت کاروں کے جلسے ’فِکّی‘ ٖFicciکو خطاب کرتے ہوئے بینکوں کے این پی اے(بُرے قرضہ جات) کے تعلق سے بھی وزیر اعظم مودی نے جھوٹ بولا تھا اور رائے دہند گان کو بھرپور متاثر کیا تھا اور ہمارے چیف الیکشن کمشنر منہ کھولے بس تماشہ ہی دیکھتے رہے ،اُنہیں آج تک توفیق نہیں ہوئی کہ کوئی کارروائی کریں اور اب تو مودی الیکشن جیت چکے ہیں ۔وہ جھوٹ یہ تھا کہ مودی جی نے کہا تھا کہ یہ این پی اے ہمیں وراثت میں ملا ہے یعنی یوپی اے حکومت کی خراب حکمرانی کی وجہ سے اتنے سارے بُرے قرضہ جات ہمیں جھیلنے پڑ رہے ہیں ورنہ ملک کہاں کا کہاں گیا ہوتا؟جب کہ حقیقت یہ ہے کہ آر بی آئی نے جو اعداد و شمار بتائے وہ کچھ الگ ہی تصویر پیش کرتے ہیں ۔جب یو پی اے ۔۲ حکومت ختم ہوئی اُس وقت یہ این پی اے کُل ۲؍لاکھ ۲۷؍ہزار کروڑ روپے تھا اور پی آئی بی یعنی پریس انفارمیشن بیورو کے ایک پریس ریلیز کے مطابق جو ۱۴؍اکتوبر ۲۰۱۷ء کو جاری کی گئی ،موجودہ مودی حکومت کے دور میں ۷؍لاکھ ۳۳؍ہزار کروڑ روپے ہو گیا یعنی صرف ۴۲؍ مہینے میں ۵؍لاکھ ۶؍ہزار کروڑ روپے مودی حکومت نے اپنے لوگوں (صنعتکاروں)کو بانٹے ۔اور تواور ۱۵۔۲۰۱۴ء میں ۴۹؍ہزار کروڑ،۱۶۔۲۰۱۵ء میں ساڑھے ۵۷؍ہزار کروڑ روپے اور ۱۷۔۲۰۱۶ء میں ساڑھے ۸۱؍ہزار کروڑ روپے یعنی کہ کُل ۱؍لاکھ ۸۸؍ہزار کروڑ کے قریب( اپنے دوست )صنعتکاروںکے بینکو ں کے قرضہ جات معاف کئے۔اب بھلا بتائیے کس قدر شاطر ہیں ہمارے وزیر اعظم۔کانگریس کو ٹھیک اُسی طرح سامنے سے وار کرنا ہوگا جس طرح سے گجرات میں اُس نے کیا اور ملک کی سلامتی اور استحکام کے لئے یہ بہت ضروری بھی ہے کانگریس کو اِس ٹو جی کے فیصلے سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ضرورت سے زیادہ خوش ہونا بھی ٹھیک نہیں۔وہ اس لئے کہ یہ ایک گیم بھی ہو سکتا ہے۔چونکہ سیاست میں سب کچھ جائز ہے تو کسی بھی انہونی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔اس سے انکار نہیں کہ یہ فیصلہ کانگریس کے لئے سود مند ہے لیکن ساتھ ہی اسے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ڈی ایم کے اُس کے ساتھ ہی رہے ،ہر قیمت پر،کیوں کہ تمل ناڈو کی سیاست جس طرح روز بہ روز کروٹ لے رہی ہے، اس سے بی جے پی نے یہ محسوس کر لیا ہے کہ آنجہانی جے للتا کی پارٹی آنے والے دنوں میں کمزور ثابت ہوگی اور ڈی ایم کے ہی وہاں کی اصل سربراہی والی پارٹی ہوگی۔اس لئے مودی ڈی ایم کے پر ڈورے ڈال سکتے ہیں۔ ڈی اے کے ساتھ رہ چکی ہے اور سیاست میں کوئی مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتا۔اِس ٹو جی اسپکٹرم کے نام نہاد گھپلے کی وجہ سے ڈی ایم کے اور کانگریس میں دراڑ بھی پڑ چکی تھی جسے راہل گاندھی نے پھر سے پٹری پر لایا تھا۔اِس لئے کانگریس کے لئے یہ اشد ضرور ی ہے کہ وہ ڈی ایم کے کو کسی بھی حال میں اپنے پالے سے نہیں جانے دے۔
……………………….
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو، نئی ممبئی کے مدیر ہیں
رابطہ 9833999883