وادی کشمیر کو قدرت نے بے شمار نعمتوں سے نوازا جس کی بنا پر اسے سرزمین جنت سے تشبیہ بھی دی گئی ہے۔ دنیا بھر میں وادی کشمیر کے صحت افزاء مقامات کی کافی شہرت ہے۔ ان شہرت یافتہ مقامات میں جھیل ڈل مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔قدیم زمانے سے ہی ڈل جھیل کے اطراف واکناف میں انسانی آبادیاں بود و باش رکھتی چلی آئی ہیں ۔ مغرب کی جانب ایک بڑی انسانی آبادی عرصۂ درازسے زندگی بسر کر رہی ہے جس کا سرکاری نام ’نندہ پورہ‘ اور موجودہ نام ’میر بحری‘ ہے۔ مشہور جغرافیہ دان والٹر لارنس نے بھی اپنی مشہور کتاب ’’دی ویلی آف کشمیر‘‘ میں ’نندہ پورہ‘ کو میر بحری کے نام سے موسوم کیا ہے۔ میر بحری دراصل ڈل جھیل کا مرکز مانا جاتا ہے کیونکہ اسی سے علاقے کے باشندوں کو ڈل جھیل سے ہمیشہ سروکار رہتا ہے۔میر بحری کے اطراف و اکناف میںچند ایک چھوٹے چھوٹے جزیرے نما کھیت ہیں جن کے ساتھ یہاں کے لوگوں کا معاش و اقتصاد کا فی حد تک وابستہ ہے ۔ ایک عرصے تک میر بحری کے باشندوں کی کل آمدن کا انحصار ان ہی چھوٹیجزیرے نما کھیتوں پر تھاجو جھیل کے اطراف و جوا نب میںآباد ہیںا،ن کھیتوں کو’ڈول ڈیمب‘ کے نام سے جانا بھی جاتا ہے۔ یہاں کے بیشتر باشندوں کا پیشہ کھیتی باڑی ہی رہا ہے اور اسی پر وہ زندگی کے ضروری اخراجات اپنے اہل و عیال کو فراہم کرتے رہے ہیں۔ علاقے کے لوگ اپنی محنت و مشقت سے ہمیشہ ان سر سبز کھیتوں کو آباد رکھتے چلے آتے، وہ موسمیاتی تبدیلی کے پیش نظر مختلف سبزیوں کی کاشت ان کھیتوں میں کرتے رہتے۔ ہر سال کے ابتدائی مہینوں میںاپنے اطراف کے ندی نالوں کی صفائی ان کا معمول ہوتا جو موسم سرما میں خستہ حالی کی وجہ سے دلدل کی شکل میں تبدیل ہوتے ۔ یہ کارِ خیر ہر خاندان اور ہر محلے کے افراد کے ہاتھوں انجام پذیر ہوتا اور اس کام کی انجام دہی میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں برت لی جاتی۔ اس وجہ سے جھیل کا پانی متحرک اور صاف و شفاف رہا کرتا ۔ علاوہ ازیں وہ اپنے گھر یا محلے کی کسی بھی نالی (Drain)کو اس جھیل میں ڈالنے سے سخت پرہیز کیا کرتے بلکہ یہاں کے لوگ غسل خانہ یا بیت الخلاء کی نالی کو ایک گڑھے میںڈالتے تھے اور اس بدرو کو بطور کھاد (fertilizer) اپنے کھیتوں میں استعمال کیا کرتے تھے۔ اس سے جھیل کا پانی صاف و شفاف رہتا اور وہ اس پانی کو پینے کے لئے استعمال کرتے ۔ اُس وقت کے باشندے مال مویشی بھی پالتے لیکن گاؤشالہ وغیرہ (Cowshed)سے خارج ہونے والے فضلاتی مواد کوجھیل ڈل میں ڈالنے سے اجتناب کیا جاتا ، برعکس اس کے اس مواد کوبھی بطور کھاد اپنے کھیتوں میں استعمال کیا جاتا اور یہ عمل یہاں کئی مقامات پر ہنوز جاری ہے۔
المختصراً مندرجہ بالا حقائق سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جھیل ڈل کو بچانے میںان مقامی باشندوں کا ایک اہم کردار رہا ہے جو اس کے آس پاس رہا کرتے اور ناقابل تردید سچ یہ ہے کہ یہی باشندگان ِ علاقہ ڈل کو بچانے میں بھی اہم رول ادا کرسکتے ہیںجو فی الوقت اس کے اطراف و اکناف میں بود و باش رکھتے ہیں مگر بدقسمتی سے زمانۂ گزشتہ کے برعکس لوگوں میں جھیل ڈل کے تئیں وہ خیرخواہانہ اور مدافعانہ رویہ اب مفقود ہو چکا ہے ۔اس کے برعکس ایک خود غرضانہ رویہ روزبہ روز فروغ پا رہا ہے۔ ڈل کے تئیںاس بے اعتنائی اور عدم توجہی کے پیچھے چند عوامل کارفر ما ہیں۔ چنانچہ ریاستی سرکار نے ا یک ادارہ لاو ٔڈا LAWDAکے نام سے قائم کیا جس کا نصب العین ڈل جھیل کو تحفظ دینا ہے لیکن آج تک یہ ادارہ اس مقصد میں بوجوہ کامیاب نظر نہیں آ رہا ہے بلکہ یوں سمجھئے کہ اس ادارے کی ناکارہ حکمت عملی سے مذکورہ جھیل کو ایک ویران جنگل میں تبدیل ہو گیا ہے۔ یہ بات روز روشن کی طر ح عیاں ہے کہ جنگل کبھی آباد نہیں ہوا کرتے کیونکہ آباد ہونے کے لیے آبادی کی ضرورت ہوتی رہتی ہے۔ سرسبز کھیتوں کو بھی بنجر زمین میں تبدیل کیا گیا ،جس سے یہاں کی کاشت کاری بے حد متاثر ہوئی ہے اور کاشت کاری کا پیشہ چھن جانے سے یہاں کے لوگ اقتصادی اور معاشی بحران کے شکار ہو گئے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہاں کی نوجوان نسل اور دیگر طبقہ سے تعلق رکھنے والے حضرات کو اپنے اہل و عیال کی کفالت کے لیے دیگر علاقوں یہاں تک کہ بیرونِ ریاست کارُخ کرنا پڑا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اپنے اسلاف کی طرح کھیتوں پر توجہ کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے ہیںاور اپنی معیشت کو بحال رکھنے کے لیے بیرون ِ ریاست قسمت آزمائی میں سرگرم نظر آتے ہیں۔یہ بات یہاں پر قلم بند کرنے کے لائق ہے کہ اس جھیل کو بحال رکھنے کے لئے کئی ایک بیرونی ممالک اور مرکزی سرکاری کی طرف سے اربوں کھربوں پر مشتمل رقومات مختص کئے جاتی رہی ہیں لیکن اُن کا استعمال ریاستی سرکاری کے منظورِ نظر دلالوں کے رہین منت ہوتی ہے ۔ یہ لوگ نااہل اور غیر متعلقہ افراد کو جھیل ڈل کی صفائی ستھرائی کا کا م سونپ دیتے ہیں، صفائی ستھرائی تو دور کی بات، اس اہم کام پر مامورر یہ نا اہل اور بد یانت افراد ڈل کی آلودگی میں مزید اضافے کا باعث بنتے رہتے ہیں۔ مقامِ افسوس ہے کہ یہاں کے باشندگان جو اس جھیل کی شان ِ رفتہ کو بحال کرنے میں کافی مہارت رکھتے ہیں،انہیں اس معاملے میں نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اگر اُن کے ذریعہ اس عمل کو انجام دیا جائے تو کسی حد تک اس جھیل کو تحفظ فراہم ہو گا۔ایک آفاقی اصول کے تحت اس امر سے چشم پوشی ممکن نہیں کہ ہرمخلوق اپنے پیشہ سے خوب واقفیت رکھتی ہے اور اس پیشہ کے تمام منفی و مثبت عناصر سے بخوبی آگاہ ہوتی ہے ۔ مثال کے طور پر سونے کی جانچ پرکھ سونار ہی جانتا ہے نہ کہ لوہار۔آخر پر یہ بات متعلقین کو گوش گزار کر نی ہے کہ اس جھیل کی اصلی ہیت کو پھر سے بحال رکھنے کے لئے یہاں کے مقامی باشندگان ہی ایک اہم رول ادا کر سکتے ہیں اور آیندہ اس جھیل کو بحال رکھنے میں اپنا بھرپور تعاون دے سکتے ہیں۔واضح رہے پہلے پہل جب کہ LAWDAکا وجود ہی نہ تھا ،اس وقت جھیل ڈل کا صاف و شفاف پانی اس کی دلکشی میں چار چاند لگاتا تھا۔ ان ایام میںجھیل سے ملحقہ علاقوں کے باشندوں کا پیشہ محض کاشت کاری تھا اور وہ اس جھیل کو ہمہ وقت صاف و شفاف رکھنے کے لئے تمام تر احتیاطی اقدامات پوری تندہی اور فرض شناسی کے ساتھ رو بہ عمل لاتے تھے ۔ مرکزی اور ریاستی سرکار نے مذکورہ علاقے کے باشندوں اپنے رہائشی مقامات سے کئی دیگر مقامات پر منتقل کرنے کا عمل بیسویں صدی کے اواخر میں شروع کیا جو ہنوز جاری ہے۔ اس عمل سے یہاں کی کاشتکاری بے حد متاثر ہوئی اور اس جھیل کو تباہ و برباد ہونے کے سارے عوامل اسی ایک غلط کارانہ اقدام میں پوشیدہ ہیںاور یہ سلسلہ موجودہ دور میں بھی جاری و ساری ہے ۔ اس سے جھیل ڈل کی حالت روزازنہ بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہے۔جھیل ڈل سے ملحقہ بستیوں کو دوسری جگہوں پرمنتقل کرنے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہونے والا ہے۔متعلقہ حکام کو کچھ ایسے کار گر اور معقول اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے جس سے ایک ایساقومی و قدرتی اثاثہ تباہی سے بچ جائے جس کا نعم البدل ڈھونڈے سے بھی کبھی نہیں مل سکتا ہے۔