محمد مظفر پال سرینگر میں 1958 میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کرم الٰہی پال سرینگر کی معروف شخصیات میں سے تھے۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے بسکو اسکول میں حاصل کی لیکن کسی وجہ سے وہ تعلیم پوری نہ کرسکے جس کا انہیں ہمیشہ ملال رہا۔ ان کے برادر اکبر مر حوم افتخار پال تحریک کے اولین سپاہیوں میں سے تھے۔ اس کے علاوہ ان کے قریبی تعلقات وادی کے حریت پسند افراد سے تھے جن میں شبیر احمد شاہ صاحب، محمد اشرف گگی، غلام حسن کرانتی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ 1982 ء میں شراب مخالف مہم میں شرکت کی اور اسلام آباد میں اس تحریک کی زبردست کامیابی کے بعد انہوں نے سرینگر میں بھی ایسی ہی مہم چلانے کا ارادہ کیا۔ امیرا کدل کے کیلاش کیفٹریا میں ایک نششت کا انعقاد کیا گیا جس میں باقی ا فراد کے علاوہ شبیر شاہ نے بھی شرکت کی۔ نشست کے دوران ہی پولیس نے چھاپہ مارا اور ان سب شرکاء کو گر فتار کیا گیا۔ انٹرگیشن کے بعد انہیںسنٹرل جیل میں مقید رکھا گیااوریہ اسیری کافی لمبی چلی۔ رہا ہوتے ہی انہوں نے ازسر نو اپنی جدوجہد نئی سوچ اور نئے اپروچ کے ساتھ جاری رکھی۔ اس دوران حریت پسندوں کا یہ جھتا پولیس کی سخت نگرانی میں رہا۔1983-84 ء میں سرینگر میں 23 ؍دھماکے ہوئے جن سے حکام سخت پریشان ہوئے۔ ایک دھماکہ کافی ہاوس میں بھی ہوا جہاں سیاست دان، وکیل، تاجر اور سراغ رساں اداروں سے تعلق رکھنے والے افراد کی بھیڑ لگی رہتی۔ چناںچہ ایک بار پھر گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔ پال صاحب بھی زندان کی زینت بنے۔ اسی سال ماہ رمضان میں پال صاحب کے والد طویل علالت کے بعد واصل بحق ہوئے۔ چند با رسوخ افراد نے پال صاحب کی رہائی کو ممکن بنایا۔ انہوں نے والد صاحب کے جنازے میں شرکت کی اور کچھ وقت کے لئے اپنے کام میں لگ گئے۔ ان کے دوستوں کا کہنا ہے کہ وہ ہمیشہ تنظیم ( پیپلز لیگ) اور تحریک کے لئے پیش پیش رہے۔ مسلح جدوجہد شروع ہوئی تو پال صاحب اس سے دور نہ رہ پائے۔ انہوں نے بھر پور رول نبھایا ۔ وہ سوپور میں ایک چھاپے کے دوران گرفتار ہوئے۔ سخت ترین اور شرمناک انٹروگیشن کے بعد جب رہا ہوئے تو ان کے عزم و استقلال میں کوئی فرق نہ آیا تھا۔ انہوں نے اپنی مہم جاری رکھی ،ا لبتہ وہ اپنی قیادت سے نا خوش تھے اور بر ملا اس کا اظہار کرتے۔آخری ایام میں پال صا حب نے اپنے آپ کو تحریک کے لئے وقف کیا۔ وہ تحریک کے لئے چھوٹے سے چھوٹا کام کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہتے۔ دسمبر 2005 میں وہ دل کے عارضے میں مبتلا ہوئے۔ انہیںاسپتال لے جایا گیا جہاں انہوں نے 19؍ دسمبر کو وفات پائی۔ ان کو آبائی مقبرہ مگر مل باغ میں دفن کیا گیا۔
نوٹ : کالم نگار ’’گریٹر کشمیر‘‘ کے سینئر ایڈ یٹر ہیں ۔
فون نمبر9419009648