بجٹ اجلاس۔ 2018-19
۔ 7000پرائیویٹ سکولوں کے فیس کا ڈھانچہ مرتب کرنے کی تجویز زیر غور
جی ایس ٹی کا نفاذ اور سنگبازوں کی باز آباد کاری اہم اقدامات
۔2019تک رجسٹرڈ بجلی صارفین کو بغیر خلل بجلی فراہم کرنے کا ٹارگٹ
۔2 کینسر انسٹی چیوٹ قائم کرنے کی منظوری دی جا چکی ہے
اشفاق سعید
جموں //ریاست کے گورنر این این ووہر انے منگل کو ریاستی قانون سازیہ کے بجٹ اجلاس۔2018 کے پہلے دن دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔گورنر نے نئے سال کے لئے نیک خواہشات پیش کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ2018 امن کے عہد کا نقیب بنے گا ۔این این ووہر انے کہا کہ2018 ء کے نئے سال کی اِس سحر کے طلوع پر یہ سُود مند ہو گا کہ ہمارے عوام اور ہماری ریاست کی نشو و نما اور ترقی میں پیش رفت کے لئے عزم و استقلال کا اعادہ کیا جائے۔ وزیر اعظم نے 15اگست کا خطاب ایک مثبت عکاس رہاکیونکہ بعد ازاں، مرکزی حکومت کی طرف سے تمام طبقہ ہائے فکر کے ساتھ مذاکرات کے لئے مرکزی سرکار کی طرف سے خصوصی نمائندے کا تقرر امن کے حلقے کو وسیع کرنے کے سروکار کو تسلیم کرتا ہے تاکہ اُ ن کو بھی اس عمل میں شامل کیا جا سکے جن کے متضاد نظریاتی عقائد ہو سکتے ہوں۔ انہوںنے کہا کہ اَمن ایک کثیرالمقاصد قوّت ہے، چونکہ تمام متعلقین کو شامل کرنے کی اہمیت قوی ہوتی جا رہی ہے ،اس سے حصولِ امن کی چاہت بڑھ جائے گی اور جب امن آئے گا تو یہ اپنے اثرات از خود مرتّب کرے گا۔گورنر نے کہا کہ حکومت امن کی برکتوں سے استفادہ کرنے کے لئے ممکنہ اِقدامات اُٹھانے کی وعدہ بند ہے،ساتھ ہی یکساں طور اس بات کو یقینی بنائے ہوئے ہے کہ ہماری زندگیوں کو پھر سے خلل انداز کرنے کے لئے تشدد کا دائرہ محدود سے وسیع پیمانے پر سرائیت نہ کر جائے۔ اس کے لئے ہمارے سیکورٹی فورسز کو سخت اور اہداف پر مرکوز کاروائیاں کرنے کی ضرورت ہے۔ گورنر نے کہا کہ ہم یہ عہد کریں کہ ہمارے نوجوانوں کے عدمِ تحفظ پر بہت جلد قابو پانے کے مطلوبہ اِقدامات اٹھائیں تاکہ وہ سرگرمیوں کے میدان میں مثبت طور مصروف ہو جائیں۔ این این ووہرا نے کہا کہ سماجی تانے بانے کے احیاء کے لئے ہمیں اخلاقی اتفاقِ رائے قائم کرنے کی خاطر ہاتھ ملانے کا عزم بھی کرنا چاہئے،جو اقدار کے ہمارے روائیتی نظام سے موافقت رکھتا ہے ۔ہمیں با آواز بلند یہ اعلان بھی کرنا چاہئے کہ تنازعات اور تشدّد کے خلاف ہم اکٹھے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں2016ء کے واقعات سے سبق سیکھنا چاہئے اور نظر اندازاور درکنار زمروں کے مفادات سے تعلق رکھنے والے معاملات پر اپنی توّجہ مرکوز کرنا چاہئے۔ایسی حساسیت حکومت کے حالیہ پالیسی اقدامات میں پہلے ہی سے عیاں ہے اور اُمید ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ مناسب پالیسیاں ریاست کو پائیدار اَمن اور ترقی کی راہ پر گامزن کریں گی۔این این ووہرا نے کہا کہ گزشتہ کئی مہینوں سے ہمارے سیکورٹی فورسز نے دہشت گرد مخالف چنندہ کاروائیاں کامیابی کے ساتھ انجام دی ہیں۔جس وقت ایسی کاروائیاں سر انجام دینامطلوب ہوں،اُمید کی جاتی ہے کہ بے قصور لوگوں کے جان و مال کا کم سے کم ممکنہ نقصان یقینی بنایا جائے گا۔گورنر نے اس موقعے پر فوج ،مرکزی نیم فوجی دستوں اور جموں وکشمیر پولیس کے بہادر اہلکاروں کو سلام پیش کیاجو بہت ہی مشکل حالات میںاپنی کاروائیاں انجام دے رہے ہیں اور دہشت اور تشدّد کے خلاف بر سرِ پیکار ہو کر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔ریاستی گورنر نے کہا کہ حکومت ،ہمارے طالب علموں کی بڑھتی اُمنگوں سے آگاہ ہے، جن میںسے بعض نے درس و تدریس،کھیل کود اور دیگر بہت سے شعبہ جات میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں ۔جہاں تک اُن نوجوانوں کا تعلق ہے جن کو راہِ راست سے ہٹا کر گمراہ کیا گیا،حکومت اُن کو تشدّد کی گرفت سے آزاد کرانے کی وعدہ بند ہے۔لہذا ،اصل جنگ گلی کوچوں میں نہیں ہے بلکہ ہماری نوجوان پود کو معاشرے سے وارثت میں ملے اقدار سے الگ تھلگ کرنے کے خلاف معرکہ آرائی اورمقابلہ کرنا ہے۔حکومت، نوجوانوں کو صبر و تحمل سے سننے کی وعدہ بند ہے اور ہر وہ کوشش کرنے کے لئے تیار ہے جو اُنہیںاپنی ڈگر پر واپس لا سکے۔ گورنر نے کہا کہ بدقسمتی سے 2016ء میں رونما دو رُخی واقعات ،گلی کوچوں میں سنگ باز ہجوموں اور اُن لوگوں کی تصاویر سے متعلق ہیں جو پیلٹ سے زخمی ہوئے ہیں۔شکر ہے کہ ہمارے بچے پہلے ہی وہاں واپس چلے گئے ہیں جہاں سے وہ سروکار رکھتے ہیں ، یعنی سکول اور کالج ، اور اب وہ درس و تدریس میں اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کر رہے ہیں۔ انہوںنے کہا کہ حالیہ برسوں کے دوران بہت سارے طلبا کے خلاف سنگبازی کے مقدمات درج کئے گئے ۔خیر سگالی کے جذبے کے طور حکومت نے اُن نوجوانوں کو معمول کی زندگی میںمراجعت کے لئے عام معافی کی ایک سکیم کاا علان کیا ہے۔جو پہلی مرتبہ قانون شکنی کے مرتکب پائے گئے۔ اس سکیم کے ایک جُز کے طور متعلقہ عدالتوں کی اجازت سے مقدمات واپس لینے کے عمل کا آغاز پہلے ہی کیا جا چکا ہے۔گورنر نے کہا کہ وادی میں بار بار کے خلفشار سے سب سے زیادہ متاثرین میں خواتین اور بچے شامل ہیں ۔ صدمے سے متاثر ہ بچوں کی باز آبادکاری کی ذمہ داریوں کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت نے اُن کی ہمہ رُخی نشو و نما کا فیصلہ کیا ہے اور اس کوشش کے ایک حصے کے طور ہارون اور آر ایس پورہ میں Juvenile Homes کا درجہ بڑھایا جا رہا ہے تاکہ متاثرہ بچوں کو باز آبادکاری کی سہولیات بہم کی جا سکیں ۔ حکومت نے ریاست کے تمام اضلاع میں کمسنوں کے لئے 22اصلاحی پولیس اکائیاں قائم کی ہیں ۔رواں سال کے دوران آٹھ اضلاع میںآٹھ Juvenile Justice Boards اور آٹھ Observation Homes قائم کئے جا رہے ہیں ۔موجودہ یتیم خانوں میں سہولیات کا درجہ بھی بڑھایا جا رہا ہے۔ گورنر نے کہا کہ بے چینی کے طویل برسوں نے ہمارے جمہوری اداروں پر بڑے نا موافق اثرات مرّتب کئے ہیں، خصوصاً زمینی سطح پر ۔منتخبہ بلدیاتی اداروں کی غیر موجودگی نے عوام کو نہ صرف ترقی اور دیگر معاملات سے متعلق اُن کی روز مرہ زندگی پر اثر انداز ہونے والے فیصلے لینے کے اختیار سے محروم کر دیا ہے بلکہ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی طرف سے تمام دیہی اور شہری بلدیاتی اداروں کی خاطر وسائل کی فراہمی کو بھی بُری طرح متاثر کیا ہے۔ حکومت نے فروری 2018ء کے دوران پنچائتی راج اداروں اور اس کے بعد شہری بلدیاتی اداروں کے انتخابات کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔این این ووہرانے کہا کہ وزیراعظم ترقیاتی پیکیج PMDP کا بڑا حصہ سڑک روابط بڑھانے کیلئے وقف ہے۔PMDP کے تحت منصوبوں پر عملدرآمد سے ریاست کے ترقیاتی ڈھانچے کے منظر نامہ میں انقلاب انگیز تبدیلی آجائے گی۔ حکومتِ ہند ، وزارتِ ٹرانسپورٹ و شاہراہ اوروزارتِ دفاع کی وساطت سے 42,668 کروڑ روپے کی وسیع سرمایہ کاری کر رہی ہے اور 19 پروجیکٹوں کو منظوری دی جاچکی ہے جس میں بڑے قومی شاہراہ منصوبے شامل ہیں۔ وزیر اعظم نے گزشتہ سال چنہنی ۔ناشری ٹنل کا افتتاح کیا ۔جمّوں۔ اُدہمپور شاہراہ کو مکمل کیا جاچکا ہے۔ پردھان منتری گرام سڑک یوجنا MGSY P کے تحت مارچ 2017ء تک 1400 سکیموں کو پورا کیا جا چکا ہے جس میں 7038 کلو میٹر سڑکوں کی تعمیر کے ساتھ 1873بستیوںکا احاطہ کیا جا چکا ہے ۔رواں مالی سال کے دوران اب تک 75 سکیموں کو پورا کیا جا چکا ہے جس میں 118 مزید بستیوں کا احاطہ کر کے مجموعی طور848 کلو میٹر سڑکیں تعمیر کی جا چکی ہیں ۔گورنر نے کہا کہ مجموعی طور 6434 کلو میٹر لمبائی کی سڑکوں پر میکڈم بچھایا گیا ہے جس میں رواں سال کے دوران Cities and Town Plan Macadamization Programme کے تحت تقریباً 3209کلو میٹر سڑکیں شامل ہیں ۔این این ووہر انے کہا کہ سرینگر اور جموں کے دارالحکومتی شہروں میں ٹریفک مسائل حکومت کی مسلسل اور تیزترتوجہ کا مرکز ہیں ۔جب تک نہ اِن دو دار الحکومتی شہروں کو موزوں اورمتبادل راستوں ، زیرِ زمین گزر گاہوں اور فلائی اوورس کی مدد سے غیر گنجان کیا جائے ، مسافر اِن ٹریفک مسائل کا سامنا کرتے رہیں گے۔جو کہ نا قابلِ قبول ہے۔گورنر نے کہا کہ حکومت ،مرکزی اعانتی/ فلیگ شِپ سکیموں کی موثر عملدرآمد کی وساطت سے تمام رجسٹرڈ صارفین اور بجلی کی فراہمی کے بغیر علاقوں کو 2019 ء تک 24×7 گھنٹے بجلی مہیّاکرنے کا اِرادہ رکھتی ہے۔انہوں نے کہا کہ بجلی سے محروم گھروں تک بجلی کی فراہمی اور31دسمبر 2018تک Universal Household Electrification ہدف حاصل کرنے کیلئے ’’پردھان منتری سہج بجلی ہر گھر یوجنا ‘‘(SAUBHAGYA)شروع کی گئی ہے۔ بجلی سے محروم باقی ماندہ گھروں میں بجلی پہنچانے کے مقصد سے تفصیلی پروجیکٹ رپورٹ مرتّب کرنے کے عمل کا پہلے ہی آغاز کیا جا چکا ہے اور تمام تر کوششیںکی جا رہی ہیں کہ 2018 ء کے مقرر کردہ اوقات سے قبل ہی تمام اہداف حاصل کئے جاسکیں۔ گورنر نے کہا کہ بجلی سے محروم گھروں کی خاطر بجلی کنکشنوں کے اندراج کے عمل میں سرعت لانے کیلئے پاور ڈیولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ نے Online Mobile Application ’’گرام جیوتی دوت‘‘ تیار کی ہے ۔ دُور دراز علاقوں میں نئے بجلی کنکشن حاصل کرنے کیلئے اِس Application میں مطلوبہ دستاویزات کی ایک آن لائن سہولیت بھی رکھی گئی ہے۔ گورنر نے کہا کہ PMDPکے تحت 306.50 میگا واٹ استعدادی صلاحیت کے 15چھوٹے پن بجلی پروجیکٹ عملدرآمد کے لئے در دست لئے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں ، بجلی پروجیکٹ، جیسے پکل ڈول،کیرو،کاور وغیرہ کو بھی PMDPکے تحت عملددرآمد کی خاطر دردست لیا جا رہاہے۔مزیدبرآں، 330میگا واٹ کشن گنگا پن بجلی پروجیکٹ سے متاثرہ 400کنبوں کیلئے باز آبادکاری، انہیںاز سرِ نو بسانے اور اُن کی مشکلات کا ازالہ کرنے کے منصوبے کوحتمی شکل دی گئی ہے ۔ JAKEDAبھی،PMDP کے تحت 10میگا واٹ صلاحیت کے 13 چھوٹے پن بجلی پروجیکٹوں کو عملا رہا ہے۔ گورنر نے کہا کہ 260بستیوں اور8 1.4لاکھ نفوس کا احاطہ کرنے والی پانی کی فراہمی کی متعدد سکیموں کو نافذ کیا گیا ہے۔گورنر نے کہاکہ حکومت نے ریاست کو ایک تجارتی مرکز کی شکل دینے کے مقصد سے حکومتِ ہند کی ایما ء پر 270تجارتی اصلاحات نافذ کی ہیں ۔اس سے ہماری بیّن ریاستی درجہ بندی میں بڑی حد تک بہتری آئی ہے۔ایک بڑی پیش رفت کے طور ریاست میں کسی بھی نئی صنعتی اکائی کا اندراج آن لائن کیا جارہا ہے۔گورنرنے کہا کہ گزشتہ دو برسوں کے دوران درمیانہ اور بڑے پیمانے کی 21 اکائیوںکے قیام کے لئے 3119کروڑ روپے کی سرمایہ کاری تجاویز کو منظور ی دی گئی ہے۔ ہدف یہ ہے کہ ہینڈی کرافٹ اور ہینڈ لوم مصنوعات کی برآمدات بڑھا کر سالانہ 1000کروڑ روپے تک کیا جائے۔راج باغ سلک فیکٹری اور وُولن ملز بمنہ کا احیائے نو اوردرجہ بڑھانے کے لئے پہلے ہی درِ دست لیا گیا ہے۔گورنر نے کہا کہ ریاست میں جی ایس ٹی کو 7 جولائی 2017ء سے نافذ کیا گیا ہے ۔ جی ایس ٹی کے نفاذ کے ما بعد معیشت کے مختلف شعبوں کو درپیش مسائل جی ایس ٹی کونسل کی میٹنگوں میں بہت ہی موثر انداز سے زیرِبحث لا کر اُن میں سے اکثر کو حل کر لیا گیا ہے۔جیسا کہ جی ایس ٹی نفاذ کو صرف 6 مہینے ہو گئے ہیں ، مستقبل میں بھی تجارت اور کاروبار کو درپیش مشکلات کا ازالہ کرنے کی خاطر ترجیحی بنیادوں پر انہیں کونسل میںزیرِ بحث لایا جائے گا۔ گورنر نے کہا کہ ہماری ریاست میں صنعتی اکائیوں کو فائدہ بخش بنانے کے لئے ویٹ ،سی ایس ٹی اور سینٹرل ایکسائز کے علاوہ اینٹری ٹیکس وغیرہ پر چھوٹ ملتی رہی ہے۔ حکومت نے اپنے بجٹ وسائل سے CGST کے 42فیصدکو واگزار کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ مرکزی حکومت نے ہماری صنعت کو CGST کا صرف 58فیصد ادا کرنے کی حامی بھرلی ہے۔اِسی طرح، حکومت نے تمام اہل صنعتی اکائیوں کو 100 فیصد SGST واگذار کرنے کا پہلے ہی اعلان کیا ہے۔گورنر نے کہا کہ حکومت کے اقدامات کے باعث دیگر ریاستوں کے انیترپرونیئروںکے 10لاکھ روپے کے تقابل میں جموں وکشمیر میں جی ایس ٹی نظام میں دستکاری کے سالانہ کاروبار کی ابتدائی حد20لاکھ روپے رکھی گئی ہے۔ اس فیصلے سے دستکاری کاروبارسے وابستہ چھوٹے تاجروں کو فائدہ ہو گا جو پیپر میشی اشیاء ، قالینوں اور شالوں وغیرہ کی تجارت کرتے ہیں۔ ریاستی حکومت کی استدعا پر GSTکونسل نے اخروٹوں،پیپر میشی اور شاخ سازی مصنوعات پر ٹیکس کی شرح 12 فیصد سے گھٹا کر 5 فیصد کی ہے۔این این ووہرا نے کہا کہ حکومت، جموں اور سرینگر دونوںشہروں کو Smart Cities کی حیثیت سے ترقی دینے کے لئے حکومتِ ہند کو آمادہ کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔دونوں شہروں کے لئے سمارٹ سٹی مِشن کو نافذ العمل کرنے کی Special Purpose Vehicles (SPVs) کو پہلے ہی قائم کیا گیا ہے۔ جنگلاتی اور غیر جنگلاتی اراضی کے شجر کاری کے اثاثوں کو قائم کرنے اور رکھ رکھاؤ کیلئے حکومت نے 500بے روزگار فارسٹ گریجویٹوں ،پوسٹ گریجویٹوں اور DDRتربیّت یافتہ نوجوانوں کو بحیثیت ِرہبرِ جنگلات تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ریاست کو ایک ہی سال میں اطفال کی شرحِ اموات میں 8نکتوں کی گراوٹ سے ملک بھر میں اوّل مقام حاصل ہوا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اِسے برقرار رکھا جائے اور اِس ضمن میں اب تک کی حصولیابیوں کو آگے بڑھایا جائے۔گورنر نے کہا کہ ریاست میں 5میڈیکل کالجوں کی منظوری دی گئی ہے۔ جموں ڈویژن میں کٹھوعہ، ڈوڈہ اور راجوری اور کشمیر ڈویژن میں بارہمولہ اور اننت ناگ ۔ جبکہ تین نئے میڈیکل کالجوں پر بھی کام سرعت سے جاری ہے۔ریاست میں دیگر دو میڈیکل کالجوں کے قیام کی شروعات کی گئی ہے۔تمام پانچ میڈیکل کالجوں کی خاطر عملے کیلئے منظوری دی جا چکی ہے اور توقع ہے کہ یہ میڈیکل کالج سال 2019تک صحت اور طبّی خدمات بہم پہنچانے کی شروعات کریں گے۔اس سے ایم بی بی ایس سیٹوں کی موجودہ تعداد500سے 1000ہو جائے گی۔ گورنر نے کہا کہ 120کروڑ روپے کی لاگت سے دو سٹیٹ کینسر انسٹی چیوٹ قائم کرنے کی منظوری دی جا چکی ہے۔ جن میںSKIMSصورہ ،سرینگر میں ایک اور GMC،جموں میں ایک شامل ہے۔ گورنر نے کہا کہ ڈرگ فوڈ کنٹرول آرگنائزیشن کو مضبوط بنایا گیا ہے اور ادویات اور خوراک کے تحفظاتی معیار کو یقینی بنانے کیلئے جموںاور سرینگر شہروں میں جدید ترین لیباٹریاں قائم کی گئی ہیں تاکہ ادویات اور خواک کے تحفظاتی معیار کو یقینی بنایا جا سکے۔ گورنر نے کہا کہ تعلیمی شعبے میں 28680 سکولوں کی GIS mapping کو مکمل کیا گیا ہے ،جس سے حکومت، ڈھانچہ جاتی سہولیات،سکولوں کا درجہ بڑھانے وغیرہ میں تفاوت کا تجزیہ کرنے کے اہل ہو گی۔گورنر نے کہا کہ درس و تدریس کا معیار بلند کرنے کے لئے برسرِ ملازمت غیر تربیت یافتہ گریجویٹ اَساتذہ کو بی۔گورنر نے کہا کہ نوجوانوں،خصوصا ً طالبات کی تعلیم تک رسائی کو یقینی بنانے کے لئے سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ ریاست میں موجودہ قواعدکے مطابق 200 مڈل سکولوں (100فی ڈویژن ) کا درجہ ہائی سکول سطح تک بڑھانے اور 200ہائی سکولوں (100فی ڈویژن )کا درجہ ہائیر سکینڈری سطح تک بڑھانے کا منصوبہ رکھتا ہے۔محکمے نے اَساتذہ کی 2154 اسامیوں کو معیاد بند طریقے سے بھرتی کے لئے سروس سلیکشن بورڈ (SSB)کو سونپ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 7000پرائیوٹ سکولوں کیلئے فیس کا ڈھانچہ ترتیب دیئے جانے پر غورہورہا ہے۔
۔27 سوائن فلو اموات
میاں الطاف کی حکومت سے وضاحت طلب
سرینگر //ممبر اسمبلی کنگن میاں الطاف احمد نے ریاستی سرکار سے جواب مانگا ہے کہ حکومت اس بات کی وضاحت کرے کہ این وان ایچ ون سے ہوئی 27اموات کے قصور واروں کے خلاف کیا کارروائی عمل میں لائی گئی ہے ۔قانون ساز اسمبلی میں موقعہ پاتے ہی ممبر اسمبلی کنگن بول پڑے اور حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سرکار کی غفلت شاری کے نتیجے میں وادی اور جموں میں درجنوں اموات رونما ہوئی ہیں اور ریاستی سرکار اُس کی روکتھام اور اس میں ملوث افراد کے خلاف کوئی بھی کاروائی کرنے میں ناکام ہے ۔
متوفی ارکان کے تئیں سپیکر،وزیر اعلیٰ سمیت سبھی ارکان کا خراج عقیدت
جموں//جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی نے بجٹ اجلاس 2018کے پہلے دِن پچھلے اجلاس سے اس اجلاس تک فوت ہوئے ارکان کو خراج عقیدت ادا کیا۔اسمبلی کے سپیکر کویندر گپتا نے اس حوالے سے ماتمی قرار داد پیش کی اور مکھن لال فوتیددار ، شیخ محمد مقبول ، صوفی غلام محی الدین ، مولوی عبدالرشید ، اوم صراف ، شبیر احمد سلاریہ ، سریندر کمار ابرول اور ڈاکٹر نصیر احمد شاہ کو خراج عقیدت ادا کیا۔سپیکر موصوف نے ان فوت ہوئے ارکان کی سیاسی اور سماجی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے ریاست کے سیاسی اور ترقیاتی منظرنامے میں ان کے رول کو اجاگر کیا۔ اس موقعے پروزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے سابق ارکانِ قانون سازیہ کو اپنے اپنے شعبوں کے ساتھ ساتھ ریاست کے سیاسی و عوامی منظر نامے میں اُن کے رول کیلئے اُنہیں خراجِ عقیدت ادا کیا ہے ۔ ایوانِ زیریں میں آج بجٹ اجلاس کے پہلے دن ماتمی قرار داد پر بولتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے فوت ہوئے ان ارکان کی ایمانداری اور اُن کے بے مثال ریکارڈ کیلئے اُن کی ستایش کرتے ہوئے کہا کہ ان ارکان نے عوام ک بہبودی کیلئے انتھک کام کیا ۔ وزیر اعلیٰ نے ایوان کے سامنے تجویز رکھی کہ ان سابق ارکان کے بچوں اور لواحقین کی باز آباد کاری اور انہیں مدد فراہم کرانے کیلئے طریقہ کار وضح کیا جانا چاہئیے ۔ وزیر اعلیٰ نے آنجہانی ایم ایل فوطیدار کو ایک ذہین سیاستدان قرار دیا جو اپنی محنت اور لگن کی بنا پر مرکزی وزیر کے عہدے پر پہنچے ۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ آنجہانی لیڈر نے سابق وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید کے ساتھ باہمی طور پر کام کیا اور ریاست کے عوام اُن کے عوام دوست کام کیلئے انہیں ہمیشہ یاد رکھیں گے ۔ محبوبہ مفتی نے سابق وزراء شیخ محمد مقبول اور صوفی محی الدین کو انتہائی ایماندار سیاستدان قرار دیا جن کی زندگیاں ہم سب کیلئے ایک مثال ہیں ۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اگرچہ یہ لیڈر سادگی سے اپنی زندگی گذارتے تھے تا ہم انہوں نے مختلف شعبوں میں جو بے مثال کردار ادا کیا اُسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔ وزیر اعلیٰ نے سابق ڈپٹی سپیکر مولوی عبدالرشید کو بھی خراجِ عقیدت ادا کیا جنہوں نے آخری سانس تک بانہال کے دور افتادہ علاقے کے لوگوں کی فلاح و بہبود کیلئے قابلِ فخر کام انجام دیا ۔ وزیر اعلیٰ نے سابق ممبر پارلیمنٹ شبیر سلاریہ کو خراجِ عقیدت ادا کرتے ہوئے انہیں ایک قابل وکیل اور سیاسی کارکن قرار دیا اور کہا کہ مرحوم نے وکیل کے پیشے اور پارلیمانی تبادلہ خیال میں کارہائے نمایاں انجام دئیے اسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔ محبوبہ مفتی نے آنجہانی او پی صراف کو ریاست کے عوامی منظر نامے اور صحافتی برادری کی ایک معروف آواز قرار دیا ۔ انہوں نے ڈاکٹر سید نصیر احمد شاہ کو خراجِ عقیدت ادا کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم نے ریاست میں طبی خدمات کو وسعت دینے میں ایک اہم رول ادا کیا اسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔ وزیر اعلیٰ نے آنجہانی ایس کے ابرال کو بھی زبردست خراجِ عقیدت ادا کیا ۔ وزیر اعلیٰ نے کوشک بقولہ کو بھی خراجِ عقیدت ادا کرتے ہوئے انہیں ماڈرن لداخ کا معمار قرار دیا اور کہا کہ انہوں نے خطے کو ترقیاتی بلندیوں تک لے جانے میں ایک اہم رول ادا کیا ۔ اس سے پہلے نائب وزیر اعلیٰ ڈاکٹر نرمل سنگھ ، ارکان اسمبلی ایم وائی تاریگامی ، محمد شفیع ، حکیم محمد یاسین ، نوانگ رگزن جورا ، ست شرما ، انجینئر رشید اور بشیر احمد ڈار نے بھی ماتمی قرار داد پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فوت شدہ لیڈران کو خراجِ عقیدت ادا کیا ۔ بعد میں ایوان میں ان لیڈروں کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی ۔