قبلۂ اول کا تقدس اس کے نام سے ہی عیاں ہے اور اس کی تقدیم و تقدس کیلئے یہ امر کافی ہے کہ اسے مسلمانان عالم کے قبلہ اول ہونے کا شرف حاصل ہے، خدا کے اس مقدس گھر کی جانب رُخ کرکے سابقون لا ولالون مومنین نے امام المرسلین ؐ کی پیشوائی میں نمازیں ادا کیں۔ خداوند قدّوس نے اپنے محبوب ؐکو معراج پر لے جانے کیلئے روئے زمین پر اسی مقدس مقام کا انتخاب کیا۔ جب سے اس عظمت والے معبد کی بنیاد پڑی ہے، خاصان خدا بالخصوص پیغمبروں نے اس کی زیارت کو باعث افتخار جانا ہے۔ بیت المقدس بارگاہ خداوندی کے ان اولین سجدہ گزاروں اور توحید پرستوں کا مرکز اول ہے جن کے سجدوں نے انسانیت کو ہزار سجدے سے نجات دلادی لیکن افسوس صد افسوس کہ جو بیت المقدس مدت مدید سے بندگان ِ خداکے واسطے مہبط ہدایت ثابت ہوا، جس نے مومن وموحدین کو مجتمع کر کے انہیں مختلف الجہت سر فرازیوں سے نوازا، جس نے فرزندان ِ تو حید کی قوت ِ بندگی کو مرتکز و متحرک کر کے اسلام کی سربلندی کاسامان کیا،جس کی بنیاد خدا کے ایک برگزیدہ پیغمبر ؑنے رکھی اور نبی ٔ آخر الزماں ؐ جس کی جانب سر بسجود ہوئے ،و ہی قبلہ اول آج صیہونیت کے نرغے میں ماتم زدہ ہے اور بزبان حال دنیا کے تمام مسلمانوں سے اپنی بازیابی کا مطالبہ کررہا ہے۔ امر واقع یہ ہے کہ قدس ساتھ ہی ساتھ کلمہ خوانوں کی زبوں حالی، سر پھٹول اور رسہ کشی پر نوحہ کناں بھی ہے۔قبلہ او ل اس فتنہ پروراسرائیل کے قبضے میں ہے کہ جس کے لغوی معنی ہیں ’’خدا سے گتھم گتھا ہونے والا‘‘۔یہ معنی یہودیوں کی ایک معتبر کتا ب ( The Holy Sepulchre) میں بیان کئے گئے ہیں۔’’انسائیکلو پیڈیا آف ببلکل لٹریچر ‘‘کے مطابق ’’لفظ ِاسرائیل ‘‘ کے معنی ٰ’’ خدا کے ساتھ کشتی کرنے والا ‘‘ ہیں۔(بحوالہ ٔ یہودی پروٹوکولز از: وکٹر ای مارسڈن)۔اس بات سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیل کی بنیاد ہی خدا ستیزی کے تصور پر مبنی ہے۔
یقینا ہر باغیرت وباحمیت مسلمان کے دل میں یہ بات کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے کہ خدا کا یہ عظیم المر تبت گھر اسی خدا ستیز ریاست کے قبضے میں ہے۔ وہ اس کی جب چاہے بے حرمتی کا مرتکب ہوسکتی ہے اورکب سے اس تاک میں ہے کہ اسے حرم ثالث مسجد اقصیٰ کی مسماری کا موقع فراہم ہوجائے۔
ظاہر ہے کہ صہیونی حکومت اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے کہ عالم اسلام کے نزدیک بیت المقدس کامسئلہ کافی حساسیت کا حامل ہے۔ لہٰذا اس مکار وخون خوارحکومت نے بھی اپنی توسیع پسندی کے ایجنڈے میں یروشلم کو ہی مرکزی اہمیت کا حامل قرار دیا ہے، جس طرح عیسائی پادری اور حکمران صلیبی جنگوں سے قبل اور ان جنگوں کے دوران عیسائیوں کو غلط بیانی کے ذریعہ اُکساتے تھے کہ وہ اس مقدس شہر کے حقیقی وارث ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ اسی شہر میں حضرت عیسیٰ ؑ دوبارہ ظہور فرمائیں گے ،وہ ہرسال اپنے پیروکاروں سے کہتے تھے کہ اگلے سال حضرت عیسٰیؑ کا ظہور اسی شہر میں ہوگا۔ لہٰذا اس شہر کا ہمارے قبضے میں ہونا نہایت ہی اہم ہے۔ اسی فارمولے پر عمل کرتے ہوئے اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم ڈیوڈبن گوریان نے صہیونی ایجنڈے کی سنگ بنیاد اس بیان سے ڈالی تھی کہ "یروشلم یہودی ریاست اسرائیل کا جزولاینفک ہے"۔ حالانکہ اقوام متحدہ نے اس شہر کی بین الاقوامی حیثیت کے پیش نظریروشلم کو Corpus Separationیعنی "جدا گانہ شہر" قرار دیا تھا اور یہ بات بہ اتفاق رائے اقوام متحدہ میں طے پائی تھی کہ اس پر یہودی یا عرب حکمرانی کے بجائے اقوام متحدہ کے ماتحت ایک بین الاقوامی حکومت ہوگی لیکن اسرائیلی حکومت نے امریکہ اور برطانیہ کی پشت پناہی کے بل پر ابتدا سے ہی اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو درخوار اعتناء نہ جانا اور مسلسل خلاف ورزی کرتا آرہا ہے۔ اقوام متحدہ میں بھی رسما ًاسرائیل کے خلاف قرار دادوں کا سلسلہ جاری رکھا گیا، غالبا اسرائیل دنیا بھر میں واحد ریاست ہے کہ جس کے خلاف اقوام متحدہ میں سب سے زیادہ قرار دادیں پیش ہوئیں۔
بہر عنوان اسرائیل کی یہی کوشش رہی کہ یروشلم ان کے قبضہ ٔناجائز کے پرکار کا مرکزی نقطہ رہے۔ مسلمانوں کے مقاماتِ مقدسہ ان کے زیر نگین رہیں۔ اس سلسلے میں غاصب اسرائیلی حکومت نے یروشلم کے متعلق یہ تصور کیا کہ یہ شہر یہودی ریاست کا دارالحکومت ہوگا۔ چنانچہ ۱۹۴۸ ء سے قبل اسرائیل نامی ملک نام ونشان تک دنیا کے نقشے پر نہیں ملتا ہے اور عالمی طاغوت کی ایک منظم سازش کے تحت1948میں اس کاقیام عمل میں لایا گیاتھا۔ اسرائیل کو وجود بخشنے کے مغربی یروشلم کو اسرائیل پارلیمنٹ کے لئے منتخب کیا گیا ۔ 1967ء میں اسرائیل اور چند ایک عرب ممالک کے مابین جنگ ہوئی۔اسرائیل نے اپنے سرپرست ممالک بالخصوص امر یکہ وبرطانیہ کی حمایت اور ان کے بل بوتے پر اپنے دشمنوں کو شکت فاش دی جس سے وہ مزید جری ہو گیا اور اس نے مشرقی یروشلم پر بھی اپنا ناجائز قبضہ جما لیا۔پورے مشرقی یروشلم پر جبری قبضے کو آج تک عالمی برادری نے تسلیم نہیں کیالیکن اسرائیل نے عالمی برادری کے موقف کو کبھی بھی خاطر میں نہیں لایا۔
اسرائیل کے ایک سابقہ وزیر اعظم اسحاق رابن کے یہ ہیجان انگیز الفاظ قابل توجہ ہیں کہ "ہر یہودی چاہے وہ مذہبی ہو یا لادین (سیکولر)،اس کا عہد کرتا ہے کہ اے یروشلم!اگر میں تجھے بھول جاؤں تو میرا دایاں ہاتھ برباد ہو"۔ صہیونیوں نے بیان بازی پر ہی اکتفا نہیں کیا (عرب وعجم کے مسلم حکمرانوں کی طرح) بلکہ ایک منظم اور مستحکم پالیسی ترتیب دی جسے عملی شکل دینے کے سلسلے میں کئی ظالمانہ اور کٹھور اقدامات بھی کئے، قتل وغارت اوردجل و فریب کے تمام رسوا کن ہتھکنڈے استعمال کئے، فلسطینی مسلمانوں کو ملک بدر کرکے اس میں یہودیوں کو بڑے ہی شدو مد سے بسایا۔ وقتا ً فوقتا ًاس شہر میں اسلامی شعائر و آثار مٹانے کی کوشش کیں حتیٰ کہ مسجد اقصیٰ میں آگ بھی لگادی،بیت المقدس میں عبادت پر پابندی لگا دی،بارہا مسجد اقصیٰ کے فرش کو فلسطین کے نمازیوں کے خون سے رنگین کیا۔ ا سرائیل کی نیت اور مذموم کارروائیوں کے پیش نظر 1986 میں اقوام متحدہ کی قرار داد نمبر19 کے تحت اسرائیلی اقدامات کی شدید مذمت کی گئی جب مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کی توہین کی گئی تھی مگر دوسری جانب امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کی ایک خفیہ رپورٹ زیر نمبر 1948/11 مورخہ 31 مارچ 1948 کے مطابق عظیم اسرائیل کا جو خاکہ تیار ہوا تھا ،اس پر اسرائیلی صیہونیت اور عالمی سامراجیت مرحلہ وار عمل پیرا ہے اور اس سلسلے میں مسلم حکمران اپنے آقاوں کے ذلیل مقاصد کی آبیاری میں مشغول ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ جس شجرِ ملعونہ (گریٹراسرائیل)کی یہ دور ونزدیک کے حکمران آبیاری کررہے ہیں، اس کے مہیب سائے بشمول ان کے حکومتی ایوانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق گریٹر اسرائیل کے چند ایک درج ذیل اہداف مقرر ہوئے ہیں۔
’’۱۔ ابتدا میں فلسطین کے ایک حصے پر یہودی اقتدار
2۔ پھر فلسطین میں یہودیوں کا غیر محدود داخلہ(جو اب تک جاری ہے۔
3۔ پھر، پوری فلسطین پر یہودی اقتدار کی توسیع
4۔ اس کے بعد اردن، لبنان، شام (بلکہ اس کے آگے)ارضِ اسرائیل کی توسیع
5۔ پھر پورے شرقِ اوسط پر اسرائیل کو فوجی، سیاسی اور معاشی تسلط۔(بحوالہ مغرب اور عالم اسلام۔۔۔ ایک مطالعہ۔۔ از خرم مراد)
بہرحال اسرائیل آزادی ٔ قدس و فلسطین کے سر خیلوں کے ٹھکانے لگانے کے پلان پر عمل پیرا ہے اور آزادی پسند فلسطینیوں کا دائرہ حیات تنگ کر نے پر جنگ ، نسل کشی اور ڈپلومیسی کے میدانوں میں کمربستہ ہے۔اس کا زندہ ثبوت غزہ کا طویل مدتی محاصرہ ہے ۔محصور غزہ ایک عرصے سے بد ترین انسانی بحران سے دوچار ہے۔ڈیڑھ ملین نفوس پر مشتمل ایک انسانی بستی کھلی قید میں مقید ہے ، یہ خطہ بنیادی سہولیات سے محروم ہے ،پوری دنیا سے اس کے لئے تمام قسم کی ارتباطی راہیں مسدود ہیں۔بے سرو سامانی کے عالم میں اہالیانِ غزہ کا ایک ایک لمحہ بھاری ہے ۔یہ بھی ایک زندہ حقیقت ہے کہ اپنی انتھک لگن اور محنت کے بل بوتے پر صہیونیوں نے پو ری دنیا پر اپنا اثر و رسوخ قائم کیا ہوا ہے۔ اس چھوٹی سی قوم اور مصنوعی مملکت نے اقوام ِ عالم کو اپنے فریب کاریوں کے دام ہمر نگ ِزمین میں اسیر کر لیاہے،حتیٰ کہ امت ِ مسلمہ جیسی عظیم ملت بھی اس کی چال بازیوں کے سامنے فی الوقت بے بس دکھائی دے رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ چھوٹی سی قوم منظم و متحد اور متحرک وفعال ہے جب کہ بحیثیت ِ مجموعی زمین کے سینے پر امت ِ مسلمہ انتشار و افتراق اور بد عہدی اور باہم دگر کدورتوں میں اس وقت یگانہ ٔ روزگار ہے۔
قابل ستائش بات یہ ہے کہ ایک جانب اگر بیت المقدس کے قریب و جوار میں ہمہ وقت بر سر پیکار اسرائیلی حکومت نے ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کیا تاکہ وہ شعائر اللہ کی تعظیم اور بیت المقدس کی بازیابی کے ارادے سے باز آجائیں ، دوسری جانب حضرت ابراہیم ؑکی سنت کی تقلید میں سینکڑوں فلسطینی والدین نے اپنے لخت ہائے جگر قبلہ اول کی تقدیس میں قربان کئے لیکن افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ ان کی عظیم قربانیاں رائیگان ہوتی دکھائی دیتی ہیں کیونکہ ما سوائے چند مسلم ممالک کے فلسطینی کاز نمائندگی اور حمایت کرنے سے کترارہے ہیں ۔ مسجد اقصیٰ کے درو دیوار مظلوم فلسطینیوںکی حالت زار پر لرزاں و ترساں ہیں اور زیادہ تر مسلم ملکوں کے سربراہان اپنے عشرت کدوں میں بے حس و حرکت پڑے ہیں۔ ان شعائر اللہ کا اغیار کے قبضے میں ہونا اور ان کی روزانہ توہین در اصل مسلمانانِ عالم کی لاچاری و محکومی کی کھلی دلیل ہے۔ جہاں تک مسجد اقصیٰ ٰکی بازیابی کا تعلق ہے یہ کسی خاص خطہ یا فرقہ کے مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے وابستہ نہیں ہے بلکہ مذہبی اور اخلاقی طو ر ہم سب پرفرض عین ہے کہ عالمی پیمانے پر حتی الوسع آزادی قدس کی تحریک کا اہتمام کریں۔ جو جذباتی وابستگی، روحانی تعلق اور قلبی احترام کعبہ شریف کے تئیں دنیا بھر کے مسلمانوں میں پایا جاتا ہے، وہی احترام و تقدیس جب قبلہ اول کے حوالے سے دل ِ مومن میں ہونا شرط ایمان ہے تو پھر اس طرح کے سوالات حقیقی مسلمان کے دل کو بے چین کیوں نہ کریں کہ بیت المقدس کی صیہونیت کے چنگل سے رہائی کے سلسلے میں عالمی پیمانے پر کوئی تحریک چلائی کیوں نہیں جاتی؟ کیوں اس مسئلے کو طاق نسیاں کے حوالے کیا گیا ہے؟ کیوں اس معاملے میں لگ بھگ تمام مسلم حکومتیں اور حکمران سرد مہری کے شکار ہوئے؟
یہ صورت حال ایک حساس مسلمان کا سکونِ قلب غارت کیوں کرنہ کرے کہ ایک طرف عہد حاضر کا ابرہہ کیل کانٹوں سے لیس ہوکر برسوں سے مرکز اول پرقابض ہے اور عالم اسلام کے لیڈر محض دعا کرتے ہیں کہ ربِ کعبہ ایک بار پھر سے لشکر ابابیل فضائے فلسطین میں بھیج دے؟ محض دعاؤں پر انحصار کرنے والے لیڈرانِ قوم کی یہ نفسیات پوشیدہ نہیں رہ پائی کہ وہ ایک غیر حقیقی طرز عمل اختیار کئے ہوئے ہیں ،بالفاظ دیگر وہ حرکت و عمل اور قربانی کیلئے آمادہ نہیں ہیں۔ اسی لئے محض ’’نیک خواہشات‘‘ سے کام چلا لیتے ہیں۔ واضح رہے کہ ربِ لامکان چاہے تو آج کے جدید دور میں بھی معجزۂ ابابیل دہرا کر اپنے گھر کو اسرائیلی غاصبوں کے قبضے سے آزاد کراسکتا ہے لیکن قابل توجہ بات یہ ہے کہ پھر قریبا 58ممالک پر مشتمل ایک ارب سے زائد مسلمانوں کا وظیفہ ٔ حیات کیا ہے؟ خانہ کعبہ پر ابرہہ کی فوج کشی کے زمانے کی صورت حال اور مسجد الاقصیٰ کے گردا گرد صہیونی حصار کا مسئلہ مختلف ہے۔ اس زمانے میں کوئی مسلم ریاست تھی نہ توحید پرستوں کی کوئی پہچان تھی، برعکس اس کے آج دنیا کے کونے کونے میں مسلمان قوم واحد یعنی امت مسلمہ سے منسلک ہیں اور اللہ کے گھر کی محافظت ان کی دینی ،شرعی اورملّی ذمہ داری ہے۔ یقینا اللہ مسلمانوں کا ناصر و مددگار ہے لیکن اس الہٰی قانون سے یہ ملت بھی مستثنیٰ نہیں ہے۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا
cell no :9596465551
email:[email protected]