سرحدی علاقوں اور ایل او سی کے قریب رہنے والے عوام کو جہاں دیگر کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہے وہیں فائرنگ اور گولہ باری کی زد میں آکر لقمہ اجل بن جانے والے افراد کے لواحقین کے ساتھ انصاف بھی نہیں ہوپاتا ۔ اگرچہ حکومت نے اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ پچھلے تین سال میں متاثر ہوئے افراد میں سے 10کو ایس آر او 43کے تحت فائدہ دیا گیا ہے لیکن متاثرین کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے اور زمینی حالات سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ متاثرہ کنبوں کو یا تو انصاف ملتا ہی نہیں یا پھر اس کی فراہمی میں بہت زیادہ تاخیر ہوتی ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ سال 2017 کے دوران حد متارکہ پر 12 عام شہری ہلاک ہوئے جبکہ اس سے پہلے کے برسوں میں اس سے بھی زیادہ تعداد میں شہری ہلاکتیں ہوئی ہیں اور اس کشیدگی کی وجہ سے کئی کنبے اجڑ چکے ہیں۔ جس طرح سے ایس آر او 43 کے تحت ملی ٹینسی متاثرہ خاندانوں کو وقت پر انصاف نہیں مل سکا اسی طرح حد متارکہ کے متاثرین بھی انصاف کیلئے دربدر ہیں۔ حقیقی معنوں میں سرحدی متاثرین کیلئے حکومت کے پاس کوئی واضح پالیسی نہیں اور نہ ہی ان مصیبت زدہ لوگوں کی کسی کو پرواہ ہے۔ دیکھا جائے تو انتخابات کے وقت ان لوگوں سے ووٹ حاصل کرنے کی غرض سے ان کے ساتھ بڑے بڑے وعدے کئے جاتے ہیں اور یقین دہانیاں کرائی جاتی ہیں مگر انتخابات کا دور ختم ہوتے ہی سارے وعدے فراموش کر دیئے جاتے ہیں اور مشکلات حل کرنے کے بجائے لوگوں کو انکی قسمت کے حال پرچھوڑ دیا جاتا ہے۔پھر اگلے انتخابات تک یہ سرحدی متاثرین ہوتے ہیں اور ہندوپاک افواج کی گولیاں ۔سرحدی مکین کئی برسوںسے اس بات کا مطالبہ کررہے ہیں کہ ان علاقوں میں پختہ بنکر بناکر دیئے جائیں جہاں وہ کشیدگی کے دنوں قیام کرسکیں مگر یہ بنکر بھی تجرباتی طور پر کچھ علاقوں میں ہی تعمیر کئے جارہے ہیں اور ان کو محفوظ مقامات پر زمین کی فراہمی کا وعدہ بھی ایفا نہیں ہوا۔ غرض ان لوگوں کے ساتھ ہر سطح پر ناانصافی ہورہی ہے اور زخمیوں کے علاج سے لیکر متاثرین کی باز آبادکاری تک کے سبھی معاملات محض اعلانات تک محدود ہیں جن پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔ صورتحال کا تقاضہ ہے کہ ان پریشان حال لوگوں کی داد رسی کی جائے اور ان کو وہ سبھی حقوق دیئے جائیں جن کا یہ حق رکھتے ہیں۔ بار بار وعدے اور اعلانات و یقین دہانیاں ان کی راحت رسانی کا باعث نہیں بن سکتے بلکہ ان کے مسائل جبھی حل ہوں گے جب حقیقی معنوں میں اقدامات کئے جائیں گے۔ سب سے بڑھ کر ان لوگوں کیلئے انصاف یہی ہوگا کہ اگر دونوں ممالک کی سیاسی او رفوجی قیادت آپس میں سبھی مسائل بات چیت کے ذریعہ حل کرے اور سرحدوں پر امن قائم ہوتوپھر نہ ہی ایسے ایس آروز کی ضرورت پڑے گی اور نہ ہی کسی کا ہاتھ حکومت کی طرف امداد کیلئے بڑھے گا ۔اس لئے سرحدی کشیدگی کے خاتمے کیلئے بات چیت کی راہ اختیار کی جانی چاہئے اور لوگوں کو امن و چین کی زندگی بسرکرنے کا موقعہ فراہم کرناچاہئے ۔