سرینگر// سرکار کی طرف سے دسمبر2017میںجاری کئے گئے5ایس آر اوز متنازعہ ثابت ہوئے ہیں،اور ان پر اپوزیشن جماعتوں سے لیکر تجارتی و ملازمین انجمنوں نے احتجاج بھی کیا اور سیاست بھی ہوئی۔دسمبر میں مخلوط سرکار کی طرف سے جاری کئی’’ایس آر ائوز‘‘ پر اگر کچھ لوگوں نے خوشیاں منائیں،تاہم کچھ تذبذب کے شکار ہوگئے،جبکہ تاجروں،ملازمین اور اپوزیشن جماعتوں نے حکومت پر کھل کر نکتہ چینی کی۔21دسمبر کو حکومت نے عارضی ملازمین کو مستقل کرنے کیلئے با ضابطہ طور پر ایس آر او520جاری کیا،جس کے تحت ہنر مند و غیر ہند مند ورکروں کے لئے علیحدہ علیحدہ تنخواہوں کا اعلان کیا گیا۔سرکاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ ایس آر اومیں شامل ان قواعد و ضوابط کا اطلاق تمام کیجول،سیزنل و دیگر ورکرو ں،جنہیں تقرری کے احکامات یا دیگر ذریعہ سے محکمہ میں روزانہ اجرت پر سیزنل یا کیجول کام کرنے کیلئے31جنوری1994کے بعد تعینات کیا گیا ہو۔حکم نامے کے مطابق ان قوانین کا اطلاق 17مارچ2015 تک جاری رہے گا۔اس ایس آر اوپر ملازمین لیڈروں نے احتجاج کیااور کہا کہ اس میں ترقیوں کیلئے کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی ہے اور نہ ہی دیگر مراعات کو شامل کیا گیا ہے۔کیجول و ڈیلی ویجر ملازمین کے مشترکہ پلیٹ فارم کے چیئرمین سجاد احمد پرے نے ایس آر او520کو نا مکمل قرار دیتے ہوئے عارضی ملازمین کے گراف میں اضافہ پر خدشات ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس بات کی تحقیقات ہونی چاہے۔انہوں نے اگر چہ حکومت کے قدم کو خوش آئندہ قرار دیاتاہم کہا کہ ایس آر او مشروط ہے۔ادھر اس ایس آر او میں ایک کنال سے کم اراضی وقف کرنے والے زمین مالکان نے بھی احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ انہیں نظر انداز کیا گیا ہے،جبکہ اس بات کی بھی دھمکی دی کہ جن پروجیکٹوں کیلئے انہوں نے اپنی اراضی دی ہے وہ انہیں مقفل کرینگے۔دسمبر کی22 تاریخ کو ایک اور ایس آر او منظر عام پر آیا،جس کے تحت سابق وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید اور ریاستی مخلوط سرکار کی موجودہ سربراہ محبوبہ مفتی کے برادر تصدق حسین مفتی کو قانون ساز کونسل کا رکن نامزد کیا گیا۔ ایس آراو524 کی اجرائی پر ریاستی گورنر نے ریاستی آئین کے دفعہ50کی شق6کے تحت حاصل اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے تصدق حسین مفتی کو کونسل کی نشست دی۔بعد میں تصدق مفتی کو سیاحت کا وزیر بھی بنایا گیا۔ اپوزیشن جماعتوں بالخصوص نیشنل کانفرنس نے تصدق حسین مفتی کو وزیر بنانے پر پی ڈی پی کی خوب نکتہ چینی کی اور اس عمل کو خاندانی راج قرار دیا۔کانگریس کے ریاستی صدر غلام احمد میر نے بی جے پی کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انکی جماعت نے انتخابات کے دوران جموں کشمیر میں خاندانی راج ختم کر نے کی مہم چلائی تھی،اور اب انہوں نے کیوں کر خاموشی اختیار کی ۔ ریاستی محکمہ خزانہ نے گزشتہ برس دسمبر کی23تاریخ کو 2ایس آر او،519ور521 اجرا کئے۔جن میں کہا گیا کہ ریاست میں موجودہ اہل صنعتی یونیٹوں کو’ ریاستی حکومت کی طرف سے مرکزی اشیاء و خدمات ٹیکس میں42فیصد ٹیکس،اورمرکزی حکومت کی طرف سے58فیصد ٹیکس کی واپسی کی جائے گی‘‘۔اس فیصلے کے خلاف وادی کے صنعت کاروں نے سخت اعتراض کیا اور احتجاج کے دوران کہا کہ جموں میں بیرون ریاست سرمایہ داروں کو سرکار کی طرف سے مرکزی اشیاء و خدمات ٹیکس میں42فیصد واپسی،ریاستی خزانہ عامرہ پر ایک بوجھ ہے۔فیڈریشن چیمبر آف انڈسٹریزکشمیرنے کہا کہ ٹیکس کی واپسی کیلئے ریاست میں موجود60ہزار صنعتی اکائیوں میں صرف282کی نشاندہی کی گئی ہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ ایس آر او519اور521 کی اجرائی ریاستی انتظامیہ کی طرف سے مقامی صنعت کیلئے لاتعلق روئے کی عکاسی کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جن صنعتی یونیٹوں کو مرعات کی فہرست میںرکھا گیا ہے،ان میں سے90فیصد صنعتی یونٹ بیرون ریاست سرمایہ داروں نے جموں کے سامبا اور کھٹوعہ میں قائم کیں ہیں۔محکمہ انتظامی عمومی(جنرل ایڈمنسٹریشن محکمہ) کی طرف سے 26دسمبر کو ایک ایس آر او زیر نمبر525جاری کیا،جس میں سرکاری ملازمین کی طرف سے سوشل میڈیا استعمال نہ کرنے کی ہدایات کی گئی۔ جموں کشمیر گورنمنٹ ایمپلائز کنڈکٹ رول1971 میں کچھ ترامیم کی گئی،اور رول13کی شق3کے بعد شق چوتھی اس میں جوڑ دی گئی ،جس کی روء سے’’ کوئی بھی سرکاری ملازم سوشل میڈیا پربے ایمانہ، مجرمانہ،غیر اخلاقی،بدنام و شرمناک رویہ پیش نہ کریںجو حکومت کیلئے تعصب کا باعث بنیں‘‘۔ اس حکم نامہ میں مزید کہا گیا ہے’’کو ئی بھی سرکاری ملازم اپنا ذاتی سوشل میڈیا اکونٹ کسی بھی طرح کی سیاسی سرگرمی کیلئے استعمال میں نہیں لائے گا،یا کسی سیاسی لیڈر و شخصیت کے ٹویٹ،پوسٹ یا بلاگ کی توثیق کرے گا‘‘۔ اس ایس آر اوپر بھی ملازمین جماعتوں سے لیکر مزاحمتی جماعتوںاور مین اسٹریم سے لیکر بشری حقوق کی جماعتوں نے سخت احتجاج کرتے ہوئے ملازمین کی سوچ اور اظہار رائے پر پہرے بٹھانے کے مترادف قرار دیا۔بشری حقوق کارکن محمد احسن اونتو نے اس معاملے میں انسانی حقوق کے ریاستی کمیشن کا بھی دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ادھر سرکاری افسران نے بھی ایس آر او525 پر طنز کیا۔