Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

اور بھی غم ہیں

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: January 7, 2018 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
16 Min Read
SHARE
آج وہ پھر اپنے بابا کے سامنے کھڑی تھی۔ بھیگی ہوئی گُم سُم، پریشان اور بد حال سی۔ مانو سارے جہاں کا درد چہرے پر سمٹ آیا ہو۔ نا اُمیدی اور ناکامیوں کے گہرے اور گھنے سیاہ سائے اُس کے خوبصورت چہرے پر ترشح تھے اور آنکھوں میں ویرانی سی چھائی ہوئی تھی۔ پھر سسرال والوں کا قہر اُس پر ٹوٹا تھا اور پھر ڈرا دھمکا کر اور اذیتیں دے کر اُسے میکے روانہ کیا گیا تھا۔ ایک نئی کہانی کے ساتھ، ایک نئے تقاضے کے ساتھ اِس بار وہ تیس ہزار کی رقم کا مطالبہ کر رہے تھے اور حسبِ روائیت رقم ادا نہ کرنے کی صورت میں سنگین تنائج بھگتنے کی دھمکی بھی دے رہے تھے۔ وہ منکر ہوکر ڈٹ بھی گئی تھی۔ مگر اُنہوں نے پھر اُسے بڑی بے رحمی سے مارا تھا۔ دھکے مار کر اُسے گھر سے باہر نکالا تھا اور سر شام برستی بارش میں میکے روانہ کیا تھا۔
وہ جانتی تھی کہ بابا کے پاس اب سوائے دُعائوں کے کچھ بھی نہ تھا۔ وہ پہلے ہی اپنا سب کچھ اُس پر نچھاور کر چکا تھا۔ اب وہ مفلس تھا۔ ناتواں اور کمزور۔ وہ پوری طرح سے ٹوٹ چکا تھا اور ایک بیٹی کا باپ ہونے کا خمیازہ اُٹھا رہا تھا۔ پائوں قبر میں لٹکائے بیٹھا تھا اور دماغ تھا کہ اب بھی رخسار کی بھول بھلیوں میں الجھا ہوا تھا، جسے اُس نے بڑے ہی نازوں سے اپنے گھر سے وداع کیا تھا۔
گرتے سنبھلتے، بھیگتے بھاگتے رخُسار شام کو اپنے میکے پہنچی تھی۔ ہزار وسوسوں کے بیچ اُس نے برآمدے میں اپنا قدم رکھا تھا۔ دم سنبھالنے کی کوشش کی تھی۔ پھر دھیرے سے برآمدے کا دروازہ کھولا تھا اور دبے پائوں بابا کے کمرے کی طرف بڑھتی چلی گئی تھی۔ بابا کے کمرے کا دروازہ ادھ کُھلا تھا۔ اُس نے جھانک کر دیکھا۔ بجلی کا بلب روشن تھا۔ پھر جونہی اُس کی نگاہ بابا کی چار پائی کی طرف گئی تو وہ اچانک بوکھلا سی گئی تھی۔
بابا بڑی تکلیف میں تھا۔ وہ مسلسل کھانس رہا تھا اور ہاتھ میں لئے پیک دان کے اندر بلغم اگلنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اُس کا چہرہ درد کی شدت سے تمتما رہا تھا، ایسے کہ جیسے آگ اگل رہا ہو۔ دیدے سُرخ اور متورم تھے جو سیاہ حلقوں سے باہر کی طرف نکل آئے تھے۔ گلے کی نسیں اُبھر کر نمایاں ہوگئی تھیں اور سانسیں جیسے اٹک رہی تھیں۔ وہ مسلسل کھانس رہا تھا اور اپنا سینہ مسلتے ہوئے سنبھلنے کی کوشش بھی کر رہا تھا۔
رخسار کے اوسان خطا ہوگئے۔ کلیجہ مُنہ کو آنے لگا۔ وہ تھر تھر کانپنے لگی اور پس و پیش میں پڑگئی کہ آگے جائے یا پھر اُلٹے پیروں واپس بھاگے ۔ کرے تو کیا کرے۔ اُس کا آنا بابا پر ہمیشہ بھاری گزرتا تھا۔ کیونکرنہ گزرتا ۔۔۔؟ وہ جب بھی آتی تھی، ایک نئی فرمائش اور نئے تقاضے کے ساتھ ہی آتی تھی۔ اگر چہ اس میں خود اُس کا کوئی قصور نہ تھا مگر بابا اُس کی آمد اور تقاضوں سے بہت پریشان ہوتا تھا۔ پر وہ کیا کرتی۔ اُس کے سسرال والوں نے دونوں کا جینا حرام کر رکھا تھا۔اچانک بابا کی کھانسی کچھ زیادہ ہی تیز ہوگئی تھی۔ وہ زور زور سے کھانسے لگا تھا اور پیک دان میں بلغم اُگلنے کی کوشش کرنے لگا تھا۔ جبھی رخسار نے دیکھاکہ بابا بڑی اذیت میں تھا اور بلغم کے ساتھ ساتھ خون بھی اُگل رہا تھا۔ رخسار کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا اور پائوں تلے سے فرش جیسے سرکنے لگا۔ تبھی وہ اپنی پوری قوت سے چیخی۔
’’بابا ۔۔۔‘‘ چیختی چلاتی وہ اپنے بابا سرور صدیقی کی طرف بھاگی۔
قریب پہنچتے ہی اُس نے بابا کو سینے سے لگالیا اور دیوانہ وار اُسے چومنے لگی۔
’’یہ کیا ہورہا ہے بابا۔۔۔ یہ کیا حالت بنارکھی ہے۔۔۔؟‘‘ وہ بابا کی چھاتی سہلانے لگی۔
’’اری رخسار۔۔۔ وہ پھر کھانسنے لگا۔‘‘ اخاہ۔۔۔ اخہ۔۔۔ اخہ ۔۔۔ ’’میری بچی۔۔۔‘‘
’’آپ کی طبعیت تو بہت خراب ہے بابا۔‘‘ رخسار تشویش ظاہر کرتی ہوئی بولی۔
’’اُوف ۔۔۔ اری بیٹی۔۔۔ یہ بڑھا پا۔۔۔‘‘ بابا بدقت بولا۔ وہ بدحال تھا اور اب ہانپ بھی رہا تھا۔ ’’یہ کمبخت۔۔۔ کھانسی ۔۔۔ اَخاہ۔۔۔ اَخاہ ۔۔۔آہہ۔‘‘
’’کیا حال بنا رکھا ہے۔۔۔‘‘ رخسار بولی ۔ وہ اُسے سنبھالنے کی کوشش کر رہی تھی۔
’’ٹھہرو بابا۔۔۔ میں آپ کو دوائی دیتی ہوں۔‘‘ رخسار کی حالت بھی اب غیر ہوتے جارہی تھی۔اُس نے بابا کو سیدھا کرتے ہوئے تکئے کے ساتھ ٹکا دیا۔ اور خود کھڑی ہوکر پاس لگی ہوئی ایک الماری کی طرف گئی اور اسے جھٹ سے کھولتے ہوئے اس میں سے دوائیاں تلاش کرنے لگی۔ ’’یہ کیا ۔۔۔‘‘ وہ بڑ بڑائی۔ الماری میں پڑی ہوئی دوائی کی بوتل اور دوائیوں کے کور (Cover) خالی پڑے تھے۔ وہ چکرا سی گئی۔ جسم میں جیسے سنسنی سی دوڑ گئی۔ سانسیں پھولنے لگیں اور زبان جیسے تالو سے چپک گئی۔
’’بابا ۔۔۔ دوائی۔۔۔ ؟‘‘ وہ افسردگی کے عالم میں استفہامیہ نگاہوں سے بابا کی طرف دیکھنے لگی۔
’’اری بیٹی ۔۔۔ کل ہی ختم ہوگئی ہے۔‘‘
’’مگر بابا۔۔۔؟‘‘
رُخسار کا دل کرچی کرچی ہو رہا تھا۔ وہ خزان رسیدہ چنار کے پتوں کی طرح ۔۔۔۔۔ زرد سی پڑگئی تھی اور اب بابا کے سامنے کھڑی اپنے ہاتھ مل رہی تھی۔
’’اری ۔۔۔ بھولا لے کر آئے گا۔‘‘ بابا رخسار کی حالت کو بھانپتے ہوئے بولا۔
’’بھولا ۔۔۔؟‘‘ رخسار بولی ۔ ’’کون بھولا‘‘؟۔
’’اری اپنا سرتاج۔۔۔ اہو۔۔۔ اہو۔۔۔ اہو۔۔۔ اخاہ۔۔۔‘‘ بابا پھر کھانسنے لگا۔
’’اچھ۔۔۔ چھا۔۔۔ اچھا۔۔۔ سمجھ گئی۔ عزیز چاچے کا سرتاج‘‘۔رخسار سمجھ گئی۔ ’’اری میرے قریب آجا۔۔۔ اُوف ۔۔۔اُہو۔۔۔ اُہو۔۔۔ یہ کھانسی‘‘ بابا پھر بولنے کی کوشش کرنے لگا ’’اری وہی تو ۔۔۔ پڑوسی عزیزے کا لڑکا۔ حاجی کا لڑکا‘‘۔ کہتے ہوئے بابا سرتاج کو دعائیں دینے لگا، اللہ بھلا کرے۔ میرے سب کام ۔۔کرتا ہے۔ کھانا بنانا ۔۔۔ کپڑے دھونا۔۔۔ بازار جانا وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ اہو۔۔۔ اہو۔۔۔ اخاہ۔۔۔‘‘ بابا سنبھلنے کی کوشش کرنے لگا۔
’’بس بابا۔۔۔ زیادہ باتیں نہیں ۔۔۔ میں سمجھ گئی‘‘۔ رخسار بابا کے مُنہ پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولی۔
بابا اب پہلے سے بہت کمزور پڑگیا تھا۔ اُس کی آنکھوں کے گرد حلقے کالے پڑ گئے تھے۔ چہرے پر مرُدنی سی چھائی ہوئی تھی۔ ہاتھ پیر کانپ رہے تھے اور پورے بدن پر جیسے کپکپی سی طاری تھی۔ وہ بابا کی چھاتی سہلا رہی تھی، جو دُھنکی کی طرح بج رہی تھی۔ بابا کتنے صحت مند اور خوب صورت تھے۔ ہنس مکھ اور سڈول۔ وہ سوچ رہی تھی اور من ہی من مری جارہی تھی۔ جبھی اُس کا آنچل سرک گیا اور اچانک بابا کی نظر اُس کی کنپٹی سے گزرتی ہوئی اُسکی گردن پر گئی، جہاں نیل کے داغوں کے ساتھ ساتھ کچھ خون بھی جما ہوا نظر آرہا تھا۔
’’اری یہ کیا ۔۔۔‘‘؟ بابا ایسے اُچھل پڑا جیسے کسی نے ڈنک ماردیا ہو۔
وہ درد کی شدت سے کراہ اُٹھا تھا۔ کلیجہ جیسے پھٹ سا گیا تھا۔ آنکھوں میں اندھرا سا چھا گیا تھا۔ اُس نے رخسار کی گردن اور کنپٹی پر پڑے ہوئے نیل کے دھبوں اور زخم پر اپنا لرزتا ہوا ہاتھ پھیرا۔ تبھی ایک لمبی سی آہ بھرتے ہوئے رخسار تلملا اُٹھی۔ وہ جلدی جلدی اپنا آنچل بھی درست کرنے لگی۔ اُسے بہت درد ہوا تھا اور وہ تڑپ اُٹھی تھی۔
’’بابا۔۔۔‘‘ وہ بلبلا اُٹھی اور اپنے بابا سے لپٹ پڑی۔
اب کے صبر کا باندھ ٹوٹ گیا اور آنکھوں سے ایک دریا کی طرح بہنے لگا۔ وہ کسی زخمی پر ندے کی طرح پھڑ پھڑاتی ہوئی بابا سے چپک گئی اور زار و قطار رونے لگی۔
’’میری بچی۔۔۔‘‘ بابا ماہی بے آب کی طرح تڑپ اُٹھا اور اپنا درد چھپانے کی کوشش کرتا ہوا رخسار کے شانے تھپتھپانے لگا۔
’’ظالموں نے ۔۔۔ اُنہہ۔۔۔ انہہ۔۔۔‘‘ باباکی آواز لڑکھڑانے لگی’’ پھر تمہاری مارپیٹ کی‘‘۔
’’ہاں بابا۔۔۔‘‘
’’اللہ غارت کرے۔۔۔ ‘‘ بابا نے بد دُعا دی۔
’’ ہاں بابا۔۔۔ اب کے وہ تیس ہزار روپے مانگ رہے ہیں۔‘‘
’’ت۔۔۔ ی۔۔۔ س۔۔۔ ہزار ‘‘۔ بابا کا منہ کُھلا کا کُھلا رہ گیا۔
’’ میں نے نا۔۔۔ رخسار جو اََ با کچھ کہتے کہتے رک گئی۔
’’ہاں ہاں ۔۔۔ کہو میری بچی‘‘۔ بابانے اُسے حوصلہ دیا۔
’’ میں نے بابا صاف انکار کر دیا مگر۔۔۔‘‘ رخسار کی ہچکی بندھ گئی۔
’’ہاں بیٹی۔۔۔ اہہ۔۔۔ اہہ۔۔۔ اُوف ۔۔۔ آہ!‘‘ بابا اپنے آپ کو سنبھالنے لگا۔
’’ انہوں نے مجھے بہت مارا۔۔۔‘‘ رُخسار روتے ہوئی بولی۔
’’ اے مولا۔۔۔‘‘ بابا زور سے چیخا اور کمرے کی چھت کی طرف دیکھنے لگا، ایسے کہ جیسے آسمان کی طرف دیکھ رہا ہو اور اللہ سے شکوہ کررہا ہو۔
’’ کیا ایک بیٹی کا باپ ہونا کوئی بڑا گناہ ہے۔‘‘ وہ پھر اونچی آواز میں بولا۔
اس کے بعد سکوت سا چھا گیا۔ بابا ٹکٹکی باندھے آسمان کی طرف دیکھتا رہا۔ اُسے جیسے اپنے سوال کے جواب کی تلاش تھی۔ جبھی اچانک بجلی کڑکنے کی خوفناک آواز سنائی دی۔ ایک جھما کا سا ہوا اور بجلی کی چکا چوند کھڑکی کے شیشوں کو چیرتے ہوئے کمرے کے چہار سو پھیل گئی۔ رخسار سہم سی گئی۔
’’ با۔۔۔ با۔۔۔‘‘ وہ چیخی۔
’’ٹھہرو بیٹی۔۔۔‘‘ بابا رندھی ہوئی آواز میں بولا اور اُٹھنے کی کوشش کرنے لگا۔
جبھی رخسار نے اُسے سہارا دیا اور کھڑا ہونے میں مدد دی۔ اُس کے ہاتھ میں اُس کی چھڑی تھمادی اور استفہامیہ نگاہوں سے اُسے دیکھنے لگی۔
بابا تھوڑے سے تو قف کے بعد اپنی چھڑی ٹیکتا ہوا کمرے میں چہل قدمی کرنے لگا۔ وہ پیہم کچھ سوچ رہا تھا۔ بڑے غُصے میں تھا اور درد و کرب کی وجہ سے جیسے انگاروں پر لوٹ رہا تھا۔تھوڑی دیر وہ کمرے میں ٹہلتا رہا اور سوچتا رہا۔
پھر اچانک وہ کمرے میں لگی ایک الماری کی طرف بڑھنے لگا۔ الماری کے نزدیک پہنچتے ہی اُس نے الماری کے پٹ کھولے اور کچھ تلاش کرنے لگا۔ تھوڑی سی تاک جھانک کے بعد ہی اُسے شاید وہ چیز مل بھی گئی کہ جس کی اُسے تلاش تھی اور جس کے لئے وہ اس الماری تک گیا تھا۔ وہ الماری بند کرتا ہوا گھوما تو اُس کے ایک ہاتھ میں ایک پیکٹ تھما ہوا تھا۔ وہ برقت رخسار کی طرف پلٹ آیا اور اُسے بڑے غور سے دیکھنے لگا۔ تھوڑی سے توقف کے بعد اُس نے ایک سرد آہ بھرتے ہوئے اپنے ہاتھ میں تھاما ہوا پیکٹ رخسار کی طرف بڑھادیا۔
’’یہ لو بیٹی۔۔۔‘‘ وہ گھمبیر آواز میں تڑپ کر بولا۔
’’ یہ کیا ہے بابا؟۔‘‘ رخسار پیکٹ لیتے ہوئی بولی۔ وہ خوفزدہ اور سہمی ہوئی تھی۔
’’ میری آخری جائداد۔ اب میرے پاس یہی کچھ بچا ہے‘‘۔ بابا نے درد انگیز لہجے جواب دیا اُن کے الفاظ سے درد چھلک رہا تھا۔
’’بابا ۔۔۔‘‘ رخسار حیران تھی اور کچھ سمجھ نہ پائی تھی۔
وہ حیران نگاہوں سے پیکٹ کو اُلٹ پَلٹ کر دیکھنے لگی۔ تھوڑے سے توقف کے بعد اُس نے پیکٹ کھولا تو پیکٹ میں سے سفید رنگ کا ایک کپڑا برآمد ہوا۔ رخسار ششدر سی رہ گئی اور حیرت زدہ نگاہوں سے بابا کی طرف دیکھنے لگی۔
’’یہ کیا ہے بابا۔۔۔؟‘‘ وہ بولی۔
’’بیٹی ۔۔۔ کفن ہے میرا۔‘‘
’’کفن ۔۔۔‘‘ کفن کا نام سنتے ہی رخسار لرز سی گئی۔ اُس کے چہرے کا رنگ اُڑگیا۔ اُس نے ایک جھر جھری سی لی اور حیران و پریشان بابا کی طرف دیکھنے لگی۔
’’ہاں بیٹی۔ عزیز میاں میرے لئے لائے تھے‘‘۔
’’اری ہاں۔ پڑوسی عزیز میاں، جسے تم عزیز چاچا کہتی ہو، پچھلے سال حج پر گیا تھا نا۔وہیں سے میرے لئے لایا تھا‘‘۔ بابا نے جوابدیا۔
’’مگر۔۔۔ رخسار اس سے آگے کچھ نہ کہہ سکی۔
’’ بیٹی ۔۔۔‘‘ میرے پاس اب تمہیں دینے لے لئے کچھ بھی نہیں ہے، سوائے اس کفن کے۔ بلکہ میں تو ہر بیٹی کے مجبور باپ سے یہ کہوں گا کہ وہ اپنی بیٹیوں کو رخصت کرتے وقت اُن کے ہاتھوں میں ایسا ہی ایک ایک کفن تھما دیں‘‘۔ بابا کی آواز سے بے بسی اور لاچاری جھلک رہی تھی۔
ایک مجبور بے بس اور لاچار باپ کے یہ الفاظ رخسار پر ایک بم کی طرح گرپڑے۔ ایسا لگا جیسے کسی نے پگھلا ہوا گرم سیسہ اُس کے کانوںمیں اُتار دیا ہو۔ ایک ساتھ جیسے کئی بم پھٹے ہوں۔ زمین ہل گئی ہو اور ساتوں آسمان اُس پر ٹوٹ پڑے ہوں۔
’’ب۔۔۔ ا۔۔۔ با۔۔۔‘‘ رخسار اپنی پوری قوت سے چلائی اور بابا سے لپٹ پڑی۔ اب وہ زار و قطار رو رہی تھی۔
آواز اتنی تیز اور درد ناک تھی کہ درَ و دیوار ہل گئے۔ زمین ہل گئی اور مانو آسمان ہل گئے۔ بابا ساکت و سامت کھڑا رہا اور اُس کی آنکھوں سے آنسووں کی جھڑی لگ گئی۔ باہر طوفان اپنے جوبن پر آگیا تھا۔ بادل اپنی پورہ قوت سے گرج رہے تھے۔ بجلیاں کوند رہی تھیں اور تیز ہوائیں چل رہی تھیں۔ رخسار ایک خوفزدہ ہرنی کی طرح اپنے بابا سے لپٹی ہوئی تھی اور سسکیاں لے رہی تھی بابا کا دیا ہوا کفن اب بھی اُس کے ہاتھ میں تھما ہوا تھا اور وہ اسے مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھی۔ آنسووں کی رمِ جھم ِجاری تھی۔ آنسو تھے کہ بہے جارہے تے ۔ بہے جارہے تھے اور بس بہے جارہے تھے۔
رابط؛9622900678
اے ۔8 فرینڈس اینکلیو،نیو ائیر پورٹ سرینگر 190021 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

صدرِ جمہوریہ نے لداخ ایل جی کو ’گروپ اے‘سول سروس عہدوں پرتقرری کا اختیار دیا چیف سیکرٹری اور ڈی جی پی کی تقرری کے لیے مرکزی حکومت کی منظوری بدستور لازمی
تازہ ترین
پونچھ ضلع جیل میں جھگڑے میں  قیدی زخمی
پیر پنچال
جموں و کشمیر میں موسلا دھار بارشیں، محکمہ موسمیات نے الرٹ جاری کیا
تازہ ترین
جموں میں جعلی سیفائر ریکیٹ کا پردہ فاش: حیدرآباد متاثرہ کو 62 لاکھ روپے واپس: پولیس
تازہ ترین

Related

ادب نامافسانے

ابرار کی آنکھیں کھل گئیں افسانہ

June 28, 2025
ادب نامافسانے

جب نَفَس تھم جائے افسانہ

June 28, 2025
ادب نامافسانے

یہ تیرا گھر یہ میرا گھر کہانی

June 28, 2025

ایک کہانی بلا عنوان افسانہ

June 28, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?