پاکستان میں قید م ’’را‘‘ سے مبینہ طور وابستہ بھارتی جاسوس کلبھوشن جادیو کی ۲۵؍دسمبر۷ ۱ء کو اپنی اہلیہ اور والدہ کے ساتھ نصف گھنٹہ طویل ملاقات پر انڈیا نے پاکستان کی تیکھی تنقیدکر کے اس انسانی عمل کو آناًفاناً متنازعہ بنا ڈالا ۔ پاکستان کا کہنا تھا کہ اس نے محض انسانی بنیادوں یہ ملاقات کروائی لیکن انڈیا نے اسے یہ الزام دیا کہ زیرحراست جاسوس کی اہلیہ کے زیورات ، جوتے اور اس کی والدہ کا منگل سُوترقبل ازملاقات’’ ضبط‘‘ کر کے اسلام آباد نے بھارتی ثقافت کارتی بھر احسا س نہ کیا ۔ پاکستان کا دعویٰ تھا کہ بیگم کلبھوشن کے جوتے میں کوئیchip نما شئے نصب کی گئی تھی۔ ظاہر ہے کہ الفاظ کی اس جنگ سے ایک نئی بحث ہی نہ چھیڑگئی بلکہ ہائی پروفائل ملاقات کے بعد بھارت پاک سفارتی تعلقات میں تناؤ اور کشیدگی کی کیفیت پیدا ہوگئی اور سرحدوں پر بھی دوطرفہ گولیوںکی گن گرج کا خونیںسماں پیدا ہوا ۔ دونوں ملک اس ملاقات کو لے کر اپنی تاویلات و توجیہات کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے پر الزام تراشیوں میں مصروف رہے جس سے یہ امید مزید مایوسی کے دلدل میں نابود ہوئی کہ طرفین میں کوئی نئی راہ رورسم پیدا ہو۔ البتہ یہ خبر کہ دونوں طرف کے سیکورٹی مشیروں نے دیار غیر میں قبل ازیں خفیہ ملاقات کی، یہ باور کراتی ہے کہ ابھی کشیدہ تعلقات کی نہج سدھرنے کی توقع مری نہیں ہے ۔
کلبھوشن جادیو کو مارچ 2016ء میں پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں جاسوسی اور سبوتاژ جیسے جرائم کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا۔ پاکستانی حکام کے مطابق مذکورہ شخص بھارتی انٹیلی جنس را(RAW)کا ایجنٹ اور بھارتی بحریہ کا حاضر سروس افسر ہے، جس کے ذمے پاکستان میں ریاست مخالف سازشیں رچانا اور دہشت گردانہ کارروائیاں کرانا تھا۔ جاسوسی کے علاوہ جادیو نے جنوبی پاکستان میں بم دھماکے، شورش برپا کرنے کی منصوبہ بندی اور دہشت گردوں کو پیسہ فراہم کرنے پر مشتمل ایک اعترافی بیان بھی ریکارڈ کروایا ، جس کی ویڈیو فوٹیج پاکستانی حکام نے میڈیا کے سامنے جاری کی ۔ پاکستان کے بقول کلبھوشن نے اپنی اصلیت چھپانے کے لئے ایک فرضی مسلم نام پر انڈین پاسپورٹ حاصل کیا تھا ۔ اعتراف ِجرم کی پاداش میں اسلام آباد کی ایک فوجی عدالت نے اپریل 2017ء میں کلبھوشن کو پھانسی کی سزا سنائی جسے بھارت نے عالمی عدالت انصاف میں چیلنج کردیا ۔اس کے نتیجے میں تاحکم ثانی سزائے موت پر انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے حکم ِامتناع صادر کیا ۔ بھارتی حکام اگرچہ اس بات سے انکاری ہیں کہ کلبھوشن جادیو بھارتی انٹیلی جنس کا افسر ہے ،تاہم وہ اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ مذکورہ شخص انڈین بحریہ کا ایک سابقہ آفیسررہا ہے اور یہ کہ اسے ایران جہاں وہ کاروباری سرگرمیوں میں مصروف تھا ،سے اغواء کر کے پاکستان میںقید کیا گیا ۔ بہر حال زیر حراست شخص کو بحریہ کا سابق آفسر قبول کر نے سے ہی مبصرین کو دال میں کچھ کالا نظر آتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ بھارتی بحریہ کا ایک حاضر سروس آفسرروایتی حریف ملک کی سرحد کے اندر جعلی دستاویزات سمیت دھر لیا جاتا ہے ، اور بعد میں وہ اعترافی بیان بھی دیتا ہے کہ وہ ’’را‘‘ سے وابستہ ہے ،، اس کے بعد مسئلے کی سنگینی سے انکار کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے۔ بہر صورت کلبھوشن جادیو کی پتنی اور والدہ نے اسلام آباد میں اس کے ساتھ 40منٹ پر مشتمل ملاقات کی تو ظاہر ہے دونوں طرف سے یہ چاہت رہی ہوگی کہ یہ ملاقات کیمروں کی نگاہ اور شیشے کی دیوار سے ماوراء ہو، یہ انسانی فطرت ہے مگرا یسی بے قید ملاقات کی اجازت تو جمہوریت اور حقوق البشر کے نام نہاد علمبر دار کہلانے والے امریکہ نے بھی پاکستان کی بے قصورمقید بیٹی عافیہ صدیقی کی بہن کو نہ دی ۔ کلبھوشن کے ساتھ ملاقات کا اہتمام ایک ایسے کمرے میں کیا گیا تھا جس میں کانچ کی دیوار ان کے بیچ کھڑی کی گئی تھی اور قیدی نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ انٹرکام پر کانچ کے دیوار کے پار رہ کر اپنی باتیں کیں اور ان سے بھی کچھ سنا۔ گوپاکستانی حکام ملاقات کے ڈانڈے انسانی اقدار سے ملاتے رہے مگر بھارتی وزیرخارجہ سشما سوراج اور دیگر حکام بشمول بھارتی میڈیا اس ملاقات کے حوالے سے عدم اطمینان کا اظہار کر تے رہے ۔ بھارتی میڈیا اور سرکاری عہدیداروں نے پاکستان پر کلبھوشن کے اہل خانہ کے ساتھ زیادتی کے دھڑا دھڑ الزامات لگائے اور اس ملاقات کو انسانیت سوز قرار دیا۔
تصویر کا ایک رُخ یہ ہے ،تصویر کا دوسرا رُخ بھی دیکھئے۔۔۔ جموں و کشمیر کے وہ لوگ جن کے عزیز واحباب بھارتی جیلوں اور تعذیب خانوں میںکسمپرسی کی حالت میں سالہا سال سے بند ہیں ،کلبھوشن جادیوکو بوجوہ خوش نصیب کہتے ہیں جب وہ اس کا موازنہ ریاست کے سیاسی قیدیوں سے کرتے ہیں۔ تندو تلخ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر حل کے لئے مصروف عمل سیاسی قیدی ہی نہیں بلکہ عام نوجوان بھی باوجودیکہ اس نے کوئی جرم انجام ہی نہ دیا ہو، جرم ِبے گناہی کی سزا کاٹ رہا ہے ۔ یہ اسیارن ِ زندان جیل مینول میں درج بنیادی مراعات سے بھی ا علانیہ طور محروم کئے جاتے ہیں۔ دنیا کے ہر قانون میں اور ہر آئین میں سیاسی قیدیوں بلکہ جنگی قیدیوں کے حقوق کی جزئیات وکلیات بھی درج کی جاتی ہیں تاکہ قیدیوں کے ساتھ زندان خانوں میں انسانی رویہ عملاً روا رکھاجائے ،ان کی جسمانی ، نفسیاتی او رروحانی ضروریات کا خاص خیال رکھاجائے ، انسانیت کے ناطے ا ُن کے تئیں ہمدردی کاسلوک اختیار کیا جائے، ان کے خوردونوش کا ہی اہتمام نہ ہو بلکہ ان کی طبی ضروریات بھی پوری کی جائیں مگر کشمیرکاز کے قیدیوں کو ان تمام ضروریات سے تہی دامن رکھنا،ان سے وحشیانہ انداز میں پیش آنا ، ان کے مذہبی جذبات مجروح کرنا ، ان کو غنڈے بدمعاشوں سے جیل کے اندر پٹوانا،ان کو معمولی پرسٹامول ٹیبلٹ تک کے لئے تڑپانا ، ان کے ملاقاتیوں کو ہراساں و پریشان کرنا ، ان کو عدالتی پیشیوںپر مختلف بہانوں سے عدل کے ایوان تک رسائی نہ دینا ، ان کو ناقص اور مضر صحت غذاؤں سے موت کے منہ میں دھکیل دینا اور طرح طرح کے مظالم سے دوچار کرنا گویا زخموں پر مر ہم مرہم کا ورد کرنے والے حکمرانوں کی جیل حکام کے نام غیر تحر یری احکامات و ہدایات ہیں ۔یہ یہاں کے مسلم قیدیوں کا ہی رونا نہیں بلکہ گونتانامہ بے ، ابوگریب اور بگرام ائر بیس افغانستان وغیرہ میں بھی اس طرح کی کر یہہ الصورت ظالمانہ داستانیں دنیا کے سامنے آئی ہیں۔ موجودہ نام نہاد مہذب دنیا جو انسانی حقوق کی ٹھیکیدار بنی ہوئی ہے ،سب سے زیادہ مسلم قیدیوں پر ظلم ڈھا رہی ہے اور اس ظلم اور جبر کی تاریک رات کی زندہ مثالیں ہمارے یہاں بھی بنتی ہیں۔ ہمارے یہاں کے قیدیوں کو پس دیوارِ زندان میں انسانیت کوجس درد و کرب سے گزارا جاتا ہے اس سے فرعون ونمرود کو بھی کراہت محسوس ہوتی ہوگی۔ لہٰذا کشمیری عوام یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ کلبھوشن ریاست جموں و کشمیر کے سیاسی قیدیوں سے حد درجہ خوش قسمت ہے کہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ کم ازکم ملاقات تو کر سکا، اپنی بیوی اور ماں کا درشن ملا۔ کلبھوشن اس لئے بھی خوش قسمت ہے کہ وہ کیچ اینڈ کل(Catch and Kill)جیسے کسی ظالمانہ آپرویشن کا شکار نہ ہوا ،اس لئے بھی خوش قسمت ہے کہ گرفتاری کے بعد زیر حراست غائب نہ کر دیا گیا، اس کوفرضی جھڑپ میں قتل کرکے کسی ایسے مقام پر اجتماعی قبر میں دفنایا نہ گیا جس کا کوئی اَتہ پتہ بھی نہ ہو۔ کلبھوشن خوش قسمت ہے کہ اس کے اہل خانہ کو اس کی گرفتاری اور قید وبند سے متعلق تمام تر تفصیلات معلوم ہوئیں نہ کہ اس کے گھروالوں کو کشمیر یوں کی طرح اپنے محبوس عزیز کے لئے فوسرزکیمپوں اور جیلوں کی خاک چھا ننا پڑی کہ اس کے بارے میں یہ جان سکیں کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہے ، کلبھوشن اس لئے بھی خوش قسمت ہے کہ اس کے اور اس کی والدہ اور بیوی کے درمیان محض ایک کانچ کی دیوار کھڑی کردی گئی تھی نہ کہ دریائے نیلم کی پر شور اور بپھری ہوئی لہریں اور بے رحم کنارے درمیان میں ایستادکر دی گئی کہ اسے گلا پھاڑ پھاڑ کر بات کرکے بھی یہ خلش دل میں کھٹکتی رہے کہ وہ سوائے اشک باری کے کچھ نہ کر سکا بلکہ اس کے سامنے اس کی ماتا جی اور پتنی تھیں جن کے پاس بات چیت کے لئے انٹرکام کی سہولت موجود تھی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ کلبھوشن اس لئے بھی خوش قسمت ہے کہ ایک ریاست اپنی پوری سفارتی ،سیاسی ، میڈیائی طاقت کو استعمال میں لاکر اس کو بچانے کے لئے میدان میں کود پڑی ۔اپنے ایک حاضر سروس افسراور شہری جو جاسوسی کے الزام میں پھانسی کی سزا کا منتظر ہے ،کے لئے عالمی عدالت انصاف کا دروازہ تک کھٹکھٹایا مگر بھارت ورش میں کشمیریوں قیدیوں کی حالت انتہائی ابتر ہے کہ اس کاقلم اظہار کر نے قاصر ہے۔
ریاست جموں و کشمیر آج تک میں جاری سیاسی جدوجہد کے دوران ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو گرفتار کر کے پابند سلاسل کیا گیا۔ اس وقت بھی ریاست جموں و کشمیر کے ہزاروں باشندگان قیدو بند کی زندگی گزار رہے ہیں۔ جرم بے گناہی کی سزاکاٹ رہے ہر عمر اور جنسں کے ان قیدیوں کی زندگیاں اجیرن بنی ہوئی ہیں، ۸۰ سالہ بزرگوں سے لے کر دس بارہ سال کے بچوں تک کو انتقاماًگرفتار کیا جاتاہے اور پھر انتہائی قبیحہ تشدد اور تعذیب سے گزارکر اُنہیں نیم مردہ حالت اور موذی بیماریوں میں مبتلاکر دیا جاتا ہے۔تحریکی کاز کے ساتھ وابستہ لوگوں کو قید کے دوران انتہائی سخت تشدد سے گزارا جاتا ہے تاکہ ان کے اندر خوف و ہراس کی وہ کیفیت پیدا ہوجائے کہ ناحق کے سامنے سر نگوں ہوجائیں۔ کڑوا سچ یہ بھی ہے کہ حراست کے دوران نوجوانوں پر بے تحاشہ تشدد کی وجہ سے ہی بیشتر نوجوان پھر عسکریت کی راہ کو اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف طلباء کو بار بار تھانوں میں طلب کئے جانے سے ان میں جان بوجھ کر خوف اور ڈر کے سائے میں جینے کی عادت ڈالی جاتی ہے ، ان کے ساتھ بلا وجہ انتہائی ذلت آمیز سلوک کیا جاتا ہے، ان کے والدین کی بات بات پر بے عزتی کی جاتی ہے اور انتہائی نازیبا زبان میں ڈرا دھمکاکر ان کو ناکردہ گناہوں کی سزادی جاتی ہے،ا سی طرح جھوٹے کیسز میں پھنسا کر اور عدالتی کارروائیوں کے چکر میں مصروف رکھ کر ان کا تعلیمی کیرئر جان بوجھ کر تباہ کیا جاتا ہے اور قیدیوں کی سالوں تک کوئی شنوائی نہ ہونے دنیا جیل حکام کی اذیت پسندی کا اچھوتا نمونہ ہوتا ہے تاکہ دہائیوں تک جرم بے گناہی کی سزا کاٹنے والے ان کم نصیب افراد کو رہا ئی ملے تو ان کی زندگیوں کا قیمتی ترین حصہ جیلوں کی نذر ہو چکا ہو اور وہ کسی کام کے نہ رہیں ۔لاقانونیت اور ظلم کی انتہا یہ ہے کہ حال ہی میں سوپور سرینگر سے تعلق رکھنے والے ایک ۸۰؍ سالہ بزرگ شیخ محمد یوسف پر چوتھی بار پی ایس اے عائد کیا گیا، حریت کانفرنس کے معروف لیڈر مسرت عالم بٹ پر نومبر ۱۷ء میں 36ویں بار PSAعائد کیا گیا۔ واضح رہے کہ مسرت عالم پر2010ء سے مسلسل ہر چھ ماہ بعد اس قانون کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ تحریک مزاحمت کے بزرگ ترین قائد سید علی شاہ گیلانی 2010ء سے مسلسل خانہ نظر بند ہیں،ان کی ساری سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد ہے اور پچھلے آٹھ سال سے وہ اپنے گھر میں ہی مقید ہیں۔ دینی فرائض کی انجام دہی خصوصاً جمعہ کی ادائیگی سے ان کو کئی سالوں سے روکا جارہا ہے۔ بھلا اس سے بڑھ کر انسانیت کی مٹی پلید اور کیا ہوسکتی ہے کہ دنیا کی بڑی جمہوریت کہلانے والی مملکت کلبھوشن کی اپنی پتنی اور ماتا جی کے ساتھ ملاقات کو دھڑلے سے’’ انسانیت سوز‘‘ قرار دیتی ہے مگر کشمیر اور نارتھ ایسٹ میں جن دلخراشیوں کی تاریخ رقم کر رہی ہے، وہ انسانیت کے منہ زناٹے دار طمانچہ ہے۔ اس نے جب مقبول بٹ اور افضل گورو کو پھانسی کی سزا دے کر قانون و انصاف کی گردن مروڑ ی تو اس وقت اس کے دل وجگر میں کوئی رگ ِ انسانیت کیوں نہ پھڑکی؟ انہیں اپنے اجتماعی ضمیر کی تشفی کا سامان بناتے ہوئے پھانسی پر چڑھانے سے پہلے ان کے اہل خانہ کو ان کے ساتھ ملنے کا موقع دیا گیا؟ افضل گورو کا معصوم بیٹاغالب گورو ، اس کی بین و ماتم کرتی ہوئی بیوی اورضعیف ماں کو پھانسی سے قبل آخری ملاقات کا قانوی حق بھی نہ دیا گیا۔ ملاقات تو دور کی بات ان کو تو پھانسی دینے کے وقت سے بھی بے خبر رکھا گیا۔ مقبول بٹ اور افضل گورو کی لاشیں بھی ان کے گھر والوں کو فراہم نہیں کی گئیں۔ اس سے بڑھ کر قیدیوں کے حقوق کے ساتھ کیا کھلواڑ کیا ہوسکتا ہے؟ حق یہ ہے کہ مسلم قیدیوں سے بد تر سے بدتر سلوک کیا جانا اس کاایک اہم اصول ِ ریاست و سیاست بنا ہوا ہے ، جب کہ کلبھوشن کے ساتھ پاکستان کی نرمی اسے’’ زیادتی‘‘ نظر آ رہی ہے۔ کیا اسے کبھی ریاستی قیدیوں کی کسمپرسی اور حالت ِزار کا احسا س بھی ہوگا؟ یہ سوال ایسا ہی ہے جیسے کوئی پتھر سے دووھ مانگے اور مر چوں کو چینی میں ڈھلنے کی احمقانہ استدعائیں کرتاپھر ے۔ ���