چہار سو شور ہے پچھلا سال نکل گیا ،ا گلا برس تشریف لایا ۔بھائی لوگو! یہ سال تو آتے جاتے ہیں ۔اپنے لئے تو یہ ہندسے ہیں جن میں ہر سال اضافہ ہوتا ہے کبھی کوئی مبارک بادی کی بات لے کر نہیں آتے ۔یہ تو ان کے لئے مبارک باد ہوتے ہیں جن کے بینکوں میں ایف ڈی آر ہوں،یا جن کو کچن کیبنٹ میں سگِ دوران کی وساطت سے جگہ ملے ؎
ایک اور اینٹ گر گئی دیوار حیات سے
نادان کہہ رہے ہیں نیا سال مبارک
ہم نے تو سترہ میں بھی پانی کے لئے ایجی ٹیشن کیا تھا آگے بھی وہی کرنے کا خوف ہے۔سالہا سال سے بجلی کی فراہمی نہ ہونے کا رونا روئے مستقبل میں بھی بجلی کے ہاتھوں بجلی ہی گرنے کا اندیشہ لگتا ہے۔چلہ کلان اور اسکے خاندان کے ہاتھوں بلیک مارکیٹ نیشنلایز ہونے کا خطرہ ہے، آگے بھی رہے گا ؎
کرگیا دربار رخ جانبِ جموں دوستو
گھروں میں بجلی کی بندش مسلسل ہو گئی ہے
کیوں کر ونہ اعتراف کھل کے دوستو
چھپایا منہ اس نے پر، اجرا نئی بل ہو گئی ہے
جاتا کیسے نہیں کوئی خوشی سے تھوڑی جارہا ہے بلکہ اس کی جان کے لالے پڑے ہیں ۔کہیں وردی پوش پیچھے ہیں کہیں سنگباز ، کہیں تلاشی مہم کا شکار ہے تو کہیں کرفیو نما بندشوں کا۔ا سکی پیٹھ میں کتنے پیلٹ ہیں، منہ پر کتنے تالے ہیں، دماغ میں کتنے جھالے ہیں،بدن پر کتنی لاٹھیوں کے نشان ہیں،یعنی آدھا پریشان ہے اور آدھا پشیمان۔ایسی حالت میں بیچارہ جان بچا کر منہ چھپا کر جائے نہیں تو کیا کرے۔یہ اٹھارہ والا بھی لگتا ہے معصوم ہے ، نادان ہے چلا آیا سال بھر ڈیرہ ڈالنے ۔انجام سے بے خبر ۔اسے ابھی نہیں معلوم یہاں سب کچھ جان پہچان ، رشتہ داری اورذات برادری سے ہی چلتا ہے بھلے وہ سرکاری نوکری ہو یا سیاسی منصب ؎
وہ ساتھ بیٹھ جائیں تو رکشا بھی مرسڈیز
کرسی ہمیں عزیز ہے کرسی کو ہم عزیز
اسے کہتے ہیں جوتیوں میں دال بٹنا ۔حالانکہ ہمارے دونوں ہمسایوں نے سالہا سال پہلے اپنی انپی دال الگ پکاناشروع کردیا،چولہاچوکا الگ کردیا، پکانے والے برتنوں کا بٹوارہ کردیا ۔ دیگچی میں رکھ لوں پلیٹ تمہارے حصے۔ کڑچھی میری توا تیرا۔سنا ہے پھر چمچوں پر فساد کھڑا ہوا کیونکہ کوئی بھی سرکار چلانے کے لئے چمچوں کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔بڑے بھائی کی حیثیت سے بھارت ورش نے زیادہ چمچے اپنے پاس رکھے اور چند ایک ہی مملکت خداداد کو ملے۔لمبی کاٹھ کے چمچے بھارت ورش کی جھولی میں گر گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بیچ کی دیوار اتنی اونچی کردی کہ دھوپ بھی بانٹ ہی دی۔اور اس قدر سڑک سڑک کو لہو لہو کردیا کہ انسانیت شرما گئی۔پھر کیا تھا ایک دوسرے کو نمک مرچ کھلاتے رہے کہ زخم ہرے ہی رہے اور تیکھا پن بھی بر قرار رہا ۔اسی لئے کسی نہ کسی مسلے پر اب بھی جوتم پیزار کرنے پر اتر ہی آتے ہیں ۔ پھر اس قدر کیچڑ اچھال لیتے ہیں کہ چہرہ مہرہ لیپ میں گم ہوجاتا ہے۔دنیا دیکھتی رہہ جاتی ہے کہ نیو یارک، کیا جینوا کیا، تہران کیا ،استنبول کیا، بات ناڑے، ایزار، پاپوش تک پہنچ جاتی ہے۔ بیچ بیچ میں زرا معاملہ زیادہ بڑھ جاتا ہے تو دھمکی کو نیوکلیر کردیتے ہیں اور میزائل گننے لگتے ہیں۔ اور تو اور صحافت کے مچھلی بازار میں بھی نجانے کتنے لفاظی بنگولے داغ لیتے ہیں۔پھر لگتا ہے کہ ٹی وی اسکرین سے نکل کر ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوں گے اور چھینا جھپٹی میں گریبان پکڑ لیں گے یا بقول گبر سنگھ ٹینٹوا ہی دبائیں گے۔سرجیکل اسٹرائک کا شوشہ بھی چھوڑا ، مختصر جنگ کاکھیل بھی درمیان میں کھیلا گیا اور اس کے چلتے طنز کے تیر چلتے ہی رہتے ہیں ۔تیر بھی ایسے کہ زہر میں بجھے ضرور ہوتے ہیں۔ خیر ابھی جوتیوں میں دال بٹنے کی بات چلی تو پتہ چلا کہاں مملکت خداداد والوں نے انسانیت کا مظاہرہ کرکے کمانڈر کلبھوشن جادو کے اہل خانہ کو ملاقات کی سہولیت مہیا کی لیکن سنا ہے کہ سب کچھ تو ٹھیک تھا پر بات جوتی پر ُرک گئی جس کے بارے میں کہا گیا کہ اس میں برقی مشین کو لوہے کی چیز محسوس ہوئی ۔ایک طرف جوتی اتاری گئی تو دوسری طرف سے جوتی کا ناپ نمبر آسمان پر چڑھایا گیا پھر کیا تھا دونوں اطراف سے لوہا لینے کی بات چلی ۔شہر شہر ، دفتر دفتر جوتی کا معاملہ زیر بحث رہا ۔یہ انسانیت ہے ہی ایسی چیز کہ بر صغیر میں اس کا کافی چرچا ہے ۔ملک کشمیر میں بھی انسانیت کو شرمسار کیا گیا ۔وہیں اس کا اتنا چرچا کیا گیا کہ کشمیریت ایک طرف سے بھاگی اور جمہوریت دوسری طرف سے فرا ر ہوگئی۔ بات جوتی کی ہی ہوتی تو جوتی اتار کر ہی ختم کر لیتے مگر یہ تو کنگن اور زیور تک بھی پہنچی۔مانا کہ زیور عورت کا گہنہ ہوتا ہے لیکن غالب گورو کی ماں بھی تو صنف نازک تھی اسے بھی تختہ دار پر چڑھانے سے پہلے شوہر سے ملنے کا قانونی اور اخلاقی حق تھا لیکن اسے تو خط کے ذریعے اطلاع پہنچائی گئی جو اسے رسم چہارم کے روز ملا ۔یہ خط کوئی معمولی چیز نہیں سرحد پر ہو تو خاندانوں کو جدا کردیتا ہے بلکہ لہو لہو کردیتا ہے اور خونی لکیر بن جاتا ہے۔اہل کشمیر تو کہتے ہیں کہ ان کا خط ِتقدیر ہی منحنی ہے پھر بھلا دونوں ہمسایوں کے درمیان پھنسے ہونے کے سبب ان کا خطِ آزادی نہیں پہنچتا۔ ایسے میں خط ِافضل گھر کیسے وقت پر پہنچ پاتا؟اور اہل کاشمر تو جیلوں میں تشدد کا سامنا کرتے ہیں۔زخم پر زخم کھاتے ہیں۔طبی امداد سے مثتثنیٰ ہیں۔رشتہ داروں سے ملنے پر پابندی ہے۔اندروں ریاست جیلوں میں قید کرنے پر قدغن ہے۔ جوتی کنگن پر اعتراض کرنے والے اہل کاشمر سے معافی مانگنے سے آٹھ سال سے آنا کانی کر رہے ہیں۔اسے ملک کشمیر میں کہتے ہیں میرا گیا تیرا، تیرا گیا ٹہ ٹہ ٹیں۔
سب کا ساتھ سب کا وکاس والے مودی مہاراج تو بالکل یک طرفہ ہوگئے اور وہ جو کانگریس وغیرہ پر الزام لگاتے تھے کہ پاکستان اور مسلمانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوششیں کرتے ہیں اس کا خود بھی ثبوت دے دیا ۔ ایک طرف مملکت خداداد کے ساتھ جوتیوں میں دال بانٹ رہے ہیں دوسری طرف اپنے سکورٹی مشیر کو پاکستانی ہم منصب سے غیر ممالک میں بیٹھ کر گفت و شنید کرواتے ہیں ۔یہ تو وہی بات ہو گئی کہ کانگریس سرکار اگر پاکستان کو عشقیہ خطوط (لو لیٹر) لکھتی تھی مگر مودی سرکار تو ان کے ساتھ ڈیٹ پر جاتی ہے۔مسلم خواتین کی فکر جب ستانے لگی تو انہیں طاقتور بنانے کے لئے طلاق ثلاثہ کا بل لوک سبھا میں منظور کروایا ،کہا کہ مسلم خواتین کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے اور انہیں ان کے شوہر پائوں کی جوتی سمجھ کر زندگی سے تین لفظ کہہ کر نکال دیتے ہیں پھر وہ پریشان حال ماری ماری پھرتی ہیں ۔جانے مودی مہاراج نے کیوں اس میں سب کا ساتھ نہیں مانگا، بھلا اتنابڑا’’ شبھ کاریہ‘‘ فقط مسلم خواتین کے لئے ہی کیوں؟ہندو مہیلاؤں کا اصرار ہے کہ انہیں بھی اس ’’وکاس‘‘ میں حصہ دار بنایا جائے بلکہ یشودا بن نے تو باقاعدہ سوال پوچھا کہ مجھے تو میرے پتی دیو نے طلاق کا ایک لفظ بھی نہ بولا تھا یعنی اگر مسلم مرد تین الفاظ کے ساتھ تین سال جیل میں گزاریں بھلا ایک بھی لفظ نہ بول کر کیسے کوئی وزیر اعظم بن سکتا ہے؟اس لئے ہم نے پوچھا کہ طلاق ثلاثہ بل کیوں؟بولے مرد لوگ ایسے ہی نکل جاتے ہیں ۔ہم نے پوچھا اور خواتین ؟ بولے وہ اپنا انتظام کرلیتی ہیں جیسے کہ یشودا بن نے کیا ؎
کٹے جو روز و شب ایسے پریشانی سے مرجاتے
ملے رسوائی تو کیا کرتے پشیمانی سے مر جاتے
انہیں تو وقت نے توڑا اور رشتہ داری میں
اگرچہ سخت جان تھے وہ، عقد ثانی سے مر جاتے
چلو، اب انصاف کی لاٹری نکل ہی گئی ہے سب کا ساتھ سب کو انصاف کے شور شرابے میں اب مسلم خواتین مزید انصاف مانگ رہی ہیں ۔ وہ جو ۲۰۰۲ میں گجرات فسادات میں زنا با لجبر اور اجتماعی عصمت دری کا شکار ہوئیں، جن کے خاندان زندہ جلائے گئے، جن کے پیٹ کاٹ کر مادر رحم سے بچے کھینچے گئے انہیں بھی انصاف ملنے کی توقع ہے ۔چلو مودی سرکار اب کی بار انصاف بانٹ ہی رہی ہے ،کون جانے انہیں بھی انصاف کی پوٹلی فراہم کی جائے؟ہم تو ممبئی کی عشرت جہاں کے لئے انصاف کی دہائی دے رہے ہیں، ادھر طلاق ثلاثہ کی عرضی گزار بنگال کی عشرت جہاں کنول بردار ہوگئی۔اب کی بار مودی سرکار فی
الحال اپنا کوئی کرشمہ نہ دکھا پائی ۔نہ وہ پندرہ پندرہ لاکھ کھاتوں میں جمع ہوئے نہ وہ بے ایمان سیاستدان ہی جیلوں میں ٹھونسے گئے ، البتہ جو کچھ آس پاس ہوتا ہے اس کا کریڈٹ لینے میں بالکل نہیں چوکتے۔کھلاڑی تمغہ جیتے تو بھاجپا سرکار سے، امتحان میں کامیابی تو بھاجپا سے، اب تو سعودی سرکار نے مسلم خواتین کو محرم کے بغیر حج پر آنے کی اجازت دی تو مودی سرکار یہ کریڈٹ بھی اپنے نام کرتی ہے ۔ ہو نہ ہو سعودی عرب کی مطلق العنان حکومت پر بھی اب کی بار مودی سرکار کا قبضہ ہوگیا ہے یعنی جو کھانا کھائے وہ مودی سرکار سے ،جو مارا جائے وہ اپنی بلا سے۔ بھائی لوگو! اپنے بیجے میں تین سوال دیر سے کھلبلی مچا ر ہے ہیں : اول کیا شاہان ِ سعود نے گجرات نرسنگار کے نامدار مودی سرکار کواپنے سوئیلین ایوارڈ سے اتنا زیادہ مذہب دار کیا کہ وہ طلاق ثلاثہ کو جیل کاکھیل اوربلا محرم حج کا طرف د ار ہو گیا ؟ دوم کیا شاہ سلمان نے ٹرمپ کو سونے کی تلوار دے کر قدس کا تھانیدار بنایا کہ وہ یروشلم میں اپنا گھر بار سجانے لگا َ؟ کیا تصدق مفتی کو سیروسیاحت کا منصب دار بناکر قلم دوات نے زخموں کی مرہم چھوڑے سیلف رول کا گھر سنساربسا یا؟ مجھے جواب کا انتظار ہے ۔رہی اپنی بے یار ومددگار جنتا ،اُن کے لئے مفت مشورہ ہے ؎
مالی مدد مل جائے گی آپ کے بیوی بچوں کو
آپ تسلی سے مر جائیں باقی کام ہمارا ہے
جاتے جاتے یہ دلچسپ خبر کہ کار سیوک بلبیر سنگھ جو بابری مسجد ڈھانے میں پیش پیش تھا، اسلام قبول کرنے کے بعد آج کل خستہ حال مساجد کی مرمت و آرائش میں مدد دینے میں مصروف ہے۔ چلئے کار جہاں دراز ہے۔۔۔۔
رابط[email protected]/9419009169