سرینگر// ریاستی حکومت کی طرف سے جنگجوئوں کی گھر واپسی کی کوششیں اگر چہ ابھی تک پوری طرح سے بارآور ثابت نہیں ہوئی ہیں،تاہم ریاستی پولیس اس محاذ پر کافی سرگرم ہے۔ سال گزشتہ میں ریاست میں سیکورٹی ایجنسیوں کی طرف سے آپریشن آل آوٹ کے اعلان کے بعد جہاں بڑی تعداد میں عسکریت پسند خونین جھڑپوں کے دوران جان بحق ہوئے اور سیکورٹی دعوئوں کے مطابق210کے قریب جنگجوئوں کو ہلاک کیا گیا،وہی سیکورٹی ایجنسیوں کیلئے یہ بات بھی باعث تشویش بنی کہ2017میں117مقامی نوجوانوں نے عسکری صفوں میں شمولیت کی۔ سال کے آخری روز پولیس سربراہ ڈاکٹر ایس پی وید نے کہا’’امسال جہاں206 عسکریت پسندوں کو جاں بحق کیا گیا وہیں75کو واپس بھی لایا گیا،جنہوں نے یا تو جنگجوئوں کے صفوں میں شمولیت اختیار کی تھی،یا کرنے والے تھے۔ ریاستی پولیس سربراہ نے مزید کہا’’اس کے علاوہ جن7 نوجوانوں نے بندوق اٹھائی تھی،انکے اہل خانہ کی حمایت اور تعاون سے انہیں واپس لایا گیا‘‘۔جنوبی ضلع اسلام آباد(اننت ناگ) سے تعلق رکھنے والے فٹ بال کھلاڑی کے جنگجوئوں کی صفوں میں شامل ہونے کے بعد گھر واپس آنے کے بعد سے ہی پولیس اور دیگر ایجنسیاں متحرک ہوئیںاور عسکری صفوں میں شامل ہونے والے نوجوانوں کے اہل خانہ سے انکے بچوں کو واپس لانے میں تعاون طلب کیا۔ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس منیر خان کا کہنا ہے کہ ابھی تک10نوجوانوں نے بندوق کو ترک کیا اور وہ گھر واپس آئے ہیں۔کشمیر عظمیٰ کے ساتھ بات کرتے ہوئے خان کا کہنا تھا کہ ان10نوجوانوں میںسے اس وقت4نوجوان پولیس کی حفاظتی حراست میں ہیںاور ان کی کونسلنگ کی جارہی ہے۔ ان کا کہنا ہے’’ہم چاہتے ہیں کہ یہ مسلح نوجوان واپس اپنے گھروں میں آئیں‘‘۔منیر خان کا کہنا ہے کہ اگر نوجوان چاہیں تو وہ پولیس کے سامنے سرنڈر کرنے کے بجائے بھی اپنے گھروں کو لوٹ سکتے ہیں۔ اگر چہ حکومت اور سیکورٹی ایجنسیوں نے بڑے پیمانے پر نوجوانوں کو گھر واپسی کی اپیل کی تھی کہ وہ گھر لوٹ آئے،اور کئی والدین نے بھی جذباتی انداز میں اپنے بچوں کو گھر واپس آنے کی اپیل کی تھی،تاہم ظاہری طور پر اس میں سیکورٹی ایجنسیوں کو زیادہ کامیابی نہیں ملی۔ پولیس کے صوبائی سربراہ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس منیر احمد خان کا بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ انہیں ہر کیس میں کامیابی نہیں ملی۔منیر احمد خان کا کہنا ہے’’ہم کئی جنگجوئوں کے اہل خانہ کے ساتھ رابطے میں ہیں،تاہم ہم نے ہر ایک کیس میں کامیابی حاصل نہیں کی۔ادھر کئی معرکہ آرائیوں کے دوران کچھ عسکریت پسندوں کو زندہ بھی گرفتار کیا گیا۔خان کا کہنا ہے کہ جنہیں زندہ گرفتار کیا گیا، انکی معقول انداز میں کونسلنگ کی جائے گی،تاہم انہوں نے واضح کیا کہ302کیسوں میں ملوث جنگجوئوں کو قانون کا سامنا تو کرنا ہی پڑے گا۔