دنیا بھر کے عالم، مفکر، دانشور اور ادیب اس بات پر متفق الرائے ہیں کہ قوموں کی ترقی کا انحصار نئی نسل پر ہے۔ صحیح ڈھنگ سے نئی نسل کی تربیت کرنا،علمی اور اخلاقی زیور سے مزین کرنا، اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ قوموں کی بہبود اور بہتری نئی نسل کے ہاتھوں سے ہی ممکن ہے۔شاعر مشرق علامہ اقبال نوجوان نسل کے ساتھ بے شمار اْمیدیں وابستہ رکھ کر ان کے لئے ہمیشہ دست بدْعا رہتے تھے ؎
جوانوں کو میری آہِ سحر دے
پھر ان شاہین بچوں کو بال و پر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے
میری نورِ بصیرت عام کردے
ایک اور جگہ فرماتے ہیں ؎
جوانوں کو سوزِ جگر بخش دے
مِرا عشق میری نظر بخش دے
مشاہیر عالم نے ہر دور میں نوخیز نسل کو ہی کسی قو م یا سماج کی تعمیر وتشکیل اور تاسیس وترفیع میں خشت اول قراردیاہے اور اگر تعلیم وتربیت کے حوالے سے خشت اول میں ہی کوئی کجی کوتاہی یا کوئی نقص درآئے توتہذیب کی ساری عمارت، نظام فکر، مزاج و منہج اور زندگی کی شاہراہ پر پوار سفر ڈانواں ڈول ہوکر ایک بے لنگر جہاز اور بے جہت کشمکش بن کر رہجاتی ہے ۔ بقول شاعر ؎
چوں شود خشت اول معمارکج
تاثریا می رود دیوار کج
قوموں کی تعمیر میں نوجوانوں کا مثبت کردار اپنی جگہ انتہائی اہم ہے لیکن زمانہ حال میں ان کے حرکات وسکنات ،عادت اور مشاغل سے نہ صرف سماج حیران وپریشان ہے بلکہ استاد اور والدین بھی انگشت بدندان ہیں۔ اکثر والدین دفتروں، گھروں، محفلوں اور گاڑیوں میںاپنے ہم خیال لوگوں اور مخاطبین سے بوقت گفتگو اس بات کا چار وناچاراعتراف کرتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں میںاخلاقی بگاڑ پیدا ہونے کے نتیجے میں بے حد پریشان اور پشیمان ہیں۔ یہ تو عام لوگوں کا حال ہے ۔ جہاں تک سماج کے حساس طبقات کا تعلق ہے وہ اس گھمبیر مسئلے اور اس کے ممکنہ اثرات وثمرات پر گویا ہمہ وقت واویلا کر تے ہیں ۔ چنانچہ اس بگڑتی صورتحال کے ا سباب ومحرکات پتہ لگانے اور اس کا تدارک کرنے کے لیے سماجی انجمنیں ، تعلیمی ادارے،اور مذہبی حلقے وقتاًفوقتاً سیمینار منعقد کر تے ہیں، سوچ بچار کی تمام توانیاں اس پر صرف کی جاتی ہیں، اخباروں اور رسائل میں مضامین لکھے جاتے ہیں اور ریڈیو وٹیلی ویڑن پر بحث مباحثے ہوتے رہتے ہیںمگر یہ وبا ہے کہ پھلتی ہی جاتی ہے۔ بعض لوگ اس مسئلے کے لئے گھریلو ماحول کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں،بعضوں کی نظر میں تعلیمی نصاب اس کے لیے ذمہ دار ہے اور کہیوں کاماننا ہے کہ اس کی ذمہ داری ذرائع ابلاغ پر آتی ہے جو بے راہ روی کو گلیمرائز کر کے پیش کر تے ہیں لیکن جہاں تک میرے ذاتی مشاہدات اور تجربوں کا تعلق ہے میں اس کے لئے زیادہ تروالدین کو ہی ذمہ دار ٹھہراتا ہوں۔ والدین کی تعلیم وتربیت بچے کے وجود اور شخصیت کے ساتھ مہد سے لحد تک چمٹی رہتی ہے۔بچوں کے تئیں والدین کی لاپروائی ان کی زندگی میں خلفشار پیدا کرتی ہے اور ان کی نازیبا حرکات وسکنات اور عادات بھی بچوں پر انمٹ نقوش چھوڑ دیتے ہیں۔ جب یہ نقوش احساسِ ذمہ داری سے عبارت نہ ہوں تو بچہ بھی بڑھ کر اپنی ذمہ داریوں سے بھاگ کھڑا ہوتاہے ۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ بیرونی ممالک میں روزگار حاصل کرنے والے اپنے نوجوان اپنے بزر گ والدین کو اجنبیوں یاحالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔ نوکر یا دایہ کو ماہانہ تنخواہ دے کر اپنے والدین کی خدمت پر مامور کرنا اور خود ان سے ودررہنا ای بات کا ثمرہ ہے۔ کشمیر کے مقامی اخباروں میں بسا اوقات ایسے اشتہار ات بھی اب پڑھنے کو ملتے ہیں جن میں بزرگ والدین کی خدمت اور دیکھ بھال کے لئے نوکر یا دایہ مطلوب ہوتی ہیں۔ والدین کی طرف اس بے رُخی اور سردمہری( مانتاہوں کہ کہیں کہیں اس میں حالات کا دباؤ بھی کارفرما ہوتاہے مثلاً جب مقامی سطح پر روزگار کے مواقع عنقا ہوں یاملاز متوں کا حصول رشتوں اور سفارشوںکے دروازے سے ہی ممکن ہو تو بڑے بڑے تعلیم یافتہ لوگوں کو نہ چاہتے ہوئے بھی اپنا وطن چھوڑ نے پہ مجبور ہوناپڑتاہے ) کا حال احوال ان کے اپنے بچے بخوبی محسوس کرتے رہتے ہیں اور وہ بھی غیر شعوری طور پر شروع سے ہی اپنے والدین کو تنخواہ کے عوض نوکروں کے حوالے کرنے میں وقت آنے پر کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے ہیں۔ اس پورے ماحول کو جنم دینے والے والدین بچوں کی نافرمانی اور حکم عدولی پر ان سے ناراض اور نالاں کیوں ہوتے ہیں؟ دفتری امور یا تجارتی کام کاج میں مصروف لوگ اپنے معصوم بچوں کی نگہداشت کے لئے نوکر یا دایہ کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ یہ عمل بھی بچوں کے مستقبل پر بْرے اثرات ڈالتا رہتا ہے کیونکہ دونوں کے درمیان تہذیب، رہن سہن، اور عادات کے لحاظ سے نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔ اصولی طور دنیا کی کوئی بھی چیز والدین کی نعم البدل نہیں ہوسکتی ہے۔ پدرانہ شفقت اور مادرانہ محبت بڑی سے بڑی رقم خرچ کرکے بھی حاصل نہیں ہوسکتی ہے۔ لہٰذا ایک کوکھ سے جنم لینے والے بچے دوسروں کی گود میں پلنے بڑھنے کے نتیجے میں پدرانہ شفقت اور مادرانہ محبت جیسی عظیم نعمتوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔ بچوں کی اسی غیر فطری دیکھ ریکھ کے نتیجے میں والدین اور بچوں کے درمیان ایک ایسی خلیج پیدا ہوجاتی ہے جو پھر آگے مستقبل میں محسوس کی جاتی ہے۔ کشمیری خاتون کی کوکھ سے پیدا ہونے والا بچہ بہاری یا نیپالی دایہ کی نگہداشت میں بیڑی نوشی یا گھٹکا خوری کے عادات سے کیسے محفوظ رہ سکتا ہے؟ یونان کے عظیم مفکر ارسطو کے مطابق انسان بچپن سے ہی نقال ہوتا ہے ،اسی لیے وہ نقل کرنے میںکافی دلچسپی لیتا ہے۔ لہٰذا معصوم بچہ دایہ کی عادات قبول کرنے سے کیونکر پرہیز کرسکتا ہے؟
بچوں کے تئیں والدین کی بے حسی فی زمانناایک بڑا معاشرتی مسئلہ بناہوا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ والدین بچوںکی تعلیم اور صحت کے بارے میںفکرمند رہتے ہیں لیکن والدین کی اکثر تعداد بچوں کی اخلاقی وذہنی نشوونما کے سلسلے میں حددرجہ لاپرواہی برت لیتے ہیں جس سے برآمد ہونے والے منفی نتائج وہ اس وقت محسوس کرتے ہیں جب تیر کمان سے نکل چکا ہوتا ہے۔ چند سال قبل اس وقت ساری انسانیت انگشت بدندان ہوکر رہ گئی جب سرینگر میں اکلوتے بیٹے نے ایک آٹو ڈرائیو کی خدمات حاصل کرکے اپنے کروڑپتی تاجرباپ کو بڑی بے رحمی کے ساتھ قتل کیا اور اس کی لاش کو بوری میں بند کرکے سڑک کے کنارے بے کسی کے عالم میں پھینک دیا۔ اس دردناک واقعہ کے پس منظر میں یہی بات اخذ کی جاسکتی ہے کہ سرمایہ دار والدین نے بچے کی ہر چھوٹی بڑی فرمائش پورا کرنے میں دلچسپی ضرور لی ہوگی لیکن اْس کی حرکات وسکنات اور فطرت وعادات کا جائزہ لینے میں لاپروائی سے کام لیا ہو، یہاں تک کہ وہ جوانی کے اْس موڑ پر پہنچ گیا جہاںاْس پر اچانک قدغن لگانے والا باپ ایک خوف ناک دشمن کے روپ میں دکھائی دیا اور اسی منفی احساس نے روگردان ونافرمان بیٹے کو ایک غیر انسانی قدم اٹھانے کے لیے آمادہ کیا۔ یہ واقعہ ہمارے سماج کے لئے چشم کشا ہی نہیں بلکہ اس پر زناٹے دار تھپڑ بھی ہے ۔
علاوہ ازیںفیشن پرستی کے اس اندھے دور میں سبقت لینے کے لیے لڑکے اور لڑکیاں کافی وقت اور روپے صرف کرتے ہیں۔ وہ غیر موزوں لباس پہننے اور نامناسب گفتگو کرنے میں بڑی دلچسپی لیتے ہیں۔ماہرین نفسیات کے مطابق انسان کا لباس اور طر زگفتگوکافی حد تک اس کی اندرونی دنیا کے بارے میں معلومات فراہم کرتا ہے۔ گویا ناموزون لباس انسان کے ناموزون خیالات کی نمائندگی کرتا ہے۔ والدین اولاد کے ملبوسات اور انداز گفتگو کی طرف متوجہ کیوں نہیں ہوتے ہیں؟ وہ اپنی نوخیز بچیوں کو بھوئیں تراشنے سے منع کیوں نہیں کرتے ہیں؟ وہ اپنے لاڈلے بچوں کو لوہے کے کڑے، زنجیریں اور بالیاں پہننے سے روکتے کیوں نہیں ہیں؟ والدین بچوں کے اْس جسم نمالباس پر اعتراض کیوں نہیں کرتے ہیں جس میںسے ان کی عریانیت اور ننگاپن ٹپکتا ہے؟ پانچ سال قبل میں اپنی شریک حیات کے ہمراہ ٹنڈل بسکو میلنسن اسکول سرینگر کی ایک تقریب میں حصہ لینے کے لیے بخشی اسٹیڈیم سرینگر میں داخل ہوا جہاں والدین کی بہت بڑی تعداد اپنے بچوں کے کرتب دیکھنے کے لیے تشریف لائی تھی۔ اسی اثناء میں میاںبیوی کا جوڑا زرق وبرق لباس میں ملبوس ہال میں داخل ہوا اور ہمارے بالکل سامنے بیٹھ گیا۔ ساتھ میں ان کی دو جوان بیٹیاں بھی تھیں۔ یقین کریں دونوں بیٹیاں اس قدر قابل اعتراض لباس میں ملبوس تھیں کہ جسم گویا برہنہ تھا ۔ یہ ناقابل برداشت منظر دیکھ کر میری اہلیہ نے جگہ بدلنے کی تاکید کی اور ہم جگہ بدلنے کے لئے مجبور ہوگئے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ناقابل برداشت منظر والدین کے لئے قابل برداشت کیونکر تھا؟ آخر یہ لباس خریدنے کے لئے پیسہ تو والدین کی جیب سے ہی نکلا ہوا ہوگانا۔ والدین بیٹیوں سے موبائل پر گھنٹوں اوورں کے ساتھ محو گفتگو ہونے کی وجہ دریافت کیوں نہیں کرتے ہیں؟موبائل پر خرچ ہونے والی بے تحاشہ رقم کا حساب کیوں نہیں لیتے ہیں؟ زیادہ زمانہ نہ گزرا ہوگا کہ والدین پل پل اور پائی پائی کا حساب بچوں سے لیا کرتے تھے لیکن آج کے والدین بچوں کے گھنٹوں، دنوں اور راتوں غائب رہنے پر بھی مْنہ نہیں کھولتے ہیں۔ وہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بھی اَن دیکھی کیوں کرتے ہیں؟ دس بیس سال قبل تک والدین جیب خرچے سے لے کر تمام دوسرے مصارف کا بچوں سے دمڑی دمڑی حساب لیا کرتے تھے لیکن آج ہزاروں کا بھی حساب وکتاب نہیں ہے۔۔۔۔ ایساکیوں ؟ کیا معاشرے میں بلا محنت روپیہ کمانے کی لت اور حلال وحرام کی تمیز مٹ جانے سے یہ سب ہورہاہے ؟ سن بلوغیت کو پہنچے بچوںکو الگ کمروں میں رکھنا بڑی حد تک دُرست ہے تاکہ وہ بغیر کسی مداخلت کے لکھنے پڑھنے کا کام جاری رکھ سکیں لیکن افراد خانہ خصوصاً والدین کا ان کمروں میں جانے سے پرہیز کرنا انتہائی نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ عمر کے اس موڑ پر بچوں کی حرکات وسکنات اور عادت واطوار پر کڑی نگاہ رکھنا بہت ضروری ہے۔ بچوں کو اندر سے دروازہ بند کرکے بیٹھنے کی اجازت دینا اور جانے کے وقت باہر سے تالا چڑھانا کئی برائیوں کو جنم دے سکتا ہے۔ بچوں کو اس بات کا بہ شدت ت احساس ہونا چاہیے کہ افراد خانہ خاص طور پر والدین کسی بھی وقت کمرے کا جانچ کرسکتے ہیں۔ بصورتِ دیگر وہ خدانہ کرے سگریٹ نوشی یا ڈرگ خوری جیسی بدترین عادات کے شکار ہوسکتے ہیں یا جدید مواصلاتی میڈیا کا غلط استعمال کرکے ننگا ناچ یا بدکاری جیسے افعال کا مشاہدہ کرنے کی عادت میں بھی پڑ سکتے ہیں، کچھ نہیں تو کم ازکم اپنا قیمتی وقت ضایع کرسکتے ہیں۔ بچوں کو کھْلی چھوٹ اور بے حساب سہولیات فراہم کرنے والے والدین ان کی زندگی میں انتشار پھیلانے اور اخلاق میںگراوٹ پیدا کرنے کے لیے ذمہ دار ہیں۔ بچوں کو پیار دیجئے ،ا ن سے دلار کیجئے ،انہیں زمانے کے مطابق اچھی مگر صحت مند سہولیات بھی فراہم کریں مگر یہ کیا کہ وہ دن پھر قیمتی موبائیل ہاتھ میں لئے ، کانوں میں مائیکرو فون ٹھونسے دنیاومافہیا سے بے خبر راستوں پر ایسی مٹر گشتی کریں کہ انہیں دیکھ کر مستانوں اور دیوانوں کا تصورذہن میں جاگزیں ہو ۔ یہ کونسا کلچر ہے؟ کونسی شرافت ہے ، کونسی روش ہے؟ کونسی ادا ہے ؟ اس سوال کے کئی جواب ہوسکتے ہیں مگر سب میں یہ نقطہ ضرور مرکزیت کاحامل ہے کہ یہ سما جی انحطاط اور اخلاقی زوال کا شاخسانہ ہے ۔ ا س سے پہلے یہ زوال و انحطاط مزید اپنے پر پھیلائے ، آیئے اپنے اس سماج کو اس حد تک بدل ڈالیں کہ ہماری قدریں محفوظ رہیں ، ہماری شناخت اور پہچان اپنی روح کے ساتھ قائم ودائم رہے اور ہماری منفر دتہذیب کا احیائے نو ہو۔ یہی اقبالؒ کی نوربصیرت اور زمانے کی ناگزیر ضرورت ہے ۔
موبائیل 9419022648