ریاستی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ایک بار پھر بھارت اور پاکستان کے درمیان مفاہمت پر زور دیتے ہوئے اپنے روایتی موقف کا اعادہ کیا کہ تشدد یا بندوق کسی مسئلہ کا حل نہیں اور بات چیت سے ہی مسائل حل کئے جاسکتے ہیں۔اپنے والد کی برسی پر ایک تعزیتی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے محبوبہ مفتی کا کہناتھا کہ جس طرح وادی کے اندر اور سرحدوں پر انسانی خون ارزاں ہورہا ہے ،وہ اس بات کا متقاضی ہے کہ دونوں ممالک کے وزرائے اعظم بات چیت کا راستہ اپنائیں کیونکہ مخاصمت اور تشدد سے موت و تباہی کے سوا کچھ نہیں ملتا ہے ۔یہ کوئی پہلا موقعہ نہیں ہے جب محبوبہ مفتی نے مفامتی لہجہ اپنایا ہو بلکہ اس جماعت کا نعرہ ہی ہندوپاک مفاہمت اور آرپار اعتماد سازی رہا ہے تاہم زمینی صورتحال یکسر مختلف ہے ۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ تشدد کسی مسئلہ کا حل نہیں اور بات چیت سے ہی مسائل حل کئے جاسکتے ہیں تاہم اُن عوامل پر غور و فکر لازمی ہے جو تشدد کو تقویت پہنچا رہے ہیں ۔محبوبہ مفتی فی الوقت بی جے پی کی حمایت سے ریاست میں مسند اقتدار سنبھالے ہوئے ہے جبکہ مرکز میں بھی بی جے پی کی ہی حکومت ہے ۔اگر وزیراعلیٰ کو واقعی امن ومفاہمت کی اتنی ہی فکر ہے تو انہیں بھاجپا کی مرکزی قیادت کو اس بات کیلئے قائل کرنا چاہئے کہ وہ پاکستان کے ساتھ بنا کسی مزید تاخیر کے ساتھ بات چیت شروع کریں تاہم ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔موجودہ مرکزی حکومت کے دور اقتدار میں اسلام آباد کےساتھ نئی دہلی کے تعلقات لمحہ بہ لمحہ پُر تنائو ہوتے گئے ہیں۔کانگریس کے اپنے سیاسی مفادات ہوسکتے ہیں تاہم سابق مرکزی وزیر داخلہ اور سینئر کانگریس رہنما پی چدمبرم کا گزشتہ روز کا ٹویٹ موجودہ حالات کا آئینہ دار ہے ۔انہوں نے اپنے سلسلہ وار ٹویٹس میں جس طرح جموں وکشمیر کے موجودہ حالات کی منظر کشی کی ہے ،وہ یقینی طور پر مرکزی اکابرین کو غور وفکر کی دعوت دیتا ہے ۔گزشتہ تین برسوں میں مفاہمت کے دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آئے بلکہ یہ عرصہ کشمیر کے حوالے سے سخت گیر اور جارحانہ پالیسی سے عبارت رہا ۔صورتحال کا المناک پہلو یہ ہے کہ اس عرصہ کے دوران اگر چہ عسکریت اور مزاحمت کو ختم کرنے کیلئے آپریشن آل آئوٹ اور این آئی اے کا سہارا لیاگیا تاہم نتائج اس کے برعکس نکلے ۔نہ صرف اس مدت میں عسکری گراف میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا بلکہ ہلاکتوں کی تعداد گزشتہ برسوں کے مقابلے میں تقریباً دو گنا ہوگئی ۔مزاحمتی سیاست کی مکانیت مسدود کردی گئی ہے اور عملی طور ایمر جنسی جیسی صورتحال ہے جہاں حکومت کے خلاف کسی بھی قسم کی بات کرنا گناہ ہی نہیں جرم ٹھہرا ہے ۔اس گھمبیر صورتحال میں وزیراعلیٰ مفاہمت اور مذاکرات کی باتیں کرکے اپنی مقامی کانسٹی چیونسی سے مخاطب ہورہی ہیں اور یقینی طور پر ایسی باتیں صرف مقامی ووٹ بنک کو برقرار رکھنے کی سعی ہے ورنہ وہ خود بھی جانتی ہیں کہ فی الوقت مرکزی حکومت کے نزدیک مفاہمت یا مذاکرات کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔بھلے ہی وزیراعلیٰ کشمیر پر مذاکرات کیلئے حکومت ہند کے خصوصی نمائندے دنیشور شرما کی تعیناتی کو مفاہمتی عمل کے سمت میں ایک سنگ میل قرار دے تاہم حقائق اس کے برعکس ہیں ۔دنیشور شرما نے گزشتہ چند ماہ کے دوران ریاست کے کئی دورے کئے تاہم ابھی تک ان کا منڈیٹ سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ داخلی سطح پر بحالی امن و اعتماد کیلئے کچھ نوجوانوں کے خلاف کیس واپس لینے سے مفاہمت کی راہیں نہیں کھل سکتی ہیں بلکہ اس کیلئے سیاسی اقدامات ناگزیر ہیں اور ابھی تک سیاسی سطح پر اُس حلقہ کو ایڈرس یا انگیج کرنے کی کوئی ٹھوس کوشش ہی نہیں ہوئی جس حلقہ کو عوام کے ایک اچھے خاصے طبقے میں پذیرائی حاصل ہے ۔سرحدوںپر کشیدگی تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے اور متواتر طور دونوں اطراف کی بندوقیں آگ اگل رہی ہیں ۔ایسے میں آج مفاہمت کی باتیں کریں تو یہ بے وقت کی راگنی ہی لگتی ہے ۔مذاکرات اور مفاہمت کی باتیں کرنا اچھا ہے تاہم اس کیلئے عملی اقدامات ناگزیر ہیں ۔اگر وزیراعلیٰ کو ہندوپاک کے درمیان مفاہمت کی اتنی ہی فکر دامن گیر ہے اور وہ واقعی کشمیرکے اندر اور سرحدوں پر انسانی جانوںکا ضیاع روکنا چاہتی ہیں تو انہیں کشمیر میں مفاہمت کے نعرے دینے کی بجائے دلّی میں مودی حکومت کے ذمہ داروں سے براہ راست بات کرنی چاہئے اور انہیں اس بات کیلئے قائل کرنا چاہئے کہ وہ کشمیر میں خون خرابہ بند کرنے کیلئے پاکستا ن کے ساتھ بات چیت شروع کریں ۔خون خرابہ اور اس کشیدگی کے بنیادی عوامل تک پہنچ کر ہی اس کا کوئی سدباب کیا جاسکتا ہے ۔وزیراعلیٰ سے لیکر وزیراعظم تک سبھی اُن عوامل سے بخوبی باخبر ہیں جو کشمیر کے اندر اور سرحدوںپرکشیدگی کے باعث بن جاتے ہیں۔اگر اُن عوامل کو ایڈرس کیا جاتا ہے تو کشیدگی خود بخود ختم ہوسکتی ہے تاہم اس کیلئے جرأتمندانہ اقدامات کی ضرورت ہے اور جب تک قومی نوعیت کے فیصلے ووٹ بنک سیاست سے مشروط رہیں ،اُس وقت تک کسی بڑے اور دلیرانہ فیصلہ کی امید رکھنا ہی عبث ہے ۔فی الوقت یہی کہا جاسکتا ہے کہ ملکی سطح پر کشمیر کے حوالے سے جارحانہ مؤقف اپنا کر مودی حکومت ملکی سطح پر ووٹ بنک سیاست کررہی ہے اور مقامی سطح پر مفاہمت کی بولی بول کر وزیراعلیٰ یہاں وہی سیاست دہرا رہی ہیں ورنہ اگر خلوص اور سنجیدگی ہے تو کوئی مشکل نہیں کہ مفاہمت مخاصمت پر غالب آجائے اور امن و خوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہو۔