بیت المقدس کے حوالے سے پہلے ٹرمپ کے احمقانہ ومکارانہ اعلان پر اوآئی سی کااجلاس طلب ہوااورپھراقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کااجلاس منعقد کروایاگیا،دونوں فورموں پرامریکہ کے خلاف علم بغاوت بلندہوئی،اس کی خودساختہ خدائی تسلیم ہونے سے صاف انکارہوا،اوراس کی دھونس رد کردی گئی،اقوامِ عالم بیک زبان اس کے مدمقابل آگئیںکہ امریکہ کوصدمہ بھی پہنچااوردھچکہ بھی۔ا س سے کسی حدتک روشن ضمیری کااظہارہواجس کی عالمی سطح توقع معدوم ہوتی جارہی تھی ۔21دسمبر2017 جمعرات کو ترکی ،پاکستان اوریمن کی درخواست پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 193 رکن ممالک خصوصی ہنگامی اجلاس بلایا گیا تھا۔اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے وہ قرارداد منظور کرلی جس میں امریکہ سے کہا گیا ہے کہ وہ مقبوضہ بیت المقدس یا مشرقی یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان واپس لے۔قرارداد کے حق میں 128 ممالک نے ووٹ دے کردنیانے بالعموم اورامریکہ کے کاسہ لیس ممالک تک نے بالخصوص امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکی کوجوتے کی نوک پررکھ کے اس کی بساط پلٹ کررکھ دی۔اس سے قبل گذشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دی تھی کہ مذکورہ قرارداد کے حق میں رائے دینے والوں کی مالی امداد بند کر دی جائے گی۔قرارداد کے متن میں کہا گیا ہے کہ مقدس شہر کی حیثیت کے بارے میں امریکی فیصلہ باطل اور کالعدم ہے اس لیے منسوخ کیا جائے۔اس قرارداد کے حق میں ووٹ دینے والے ممالک میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے دیگر چار مستقل ارکان چین، فرانس، روس اور برطانیہ شامل ہے جب کہ مزے کی بات یہ ہے کہ22؍امریکی اتحادیوں نے امریکہ کے خلاف ووٹ دیا۔اس طرح عالمی برادری نے امریکہ کو پیغام دیا ہے کہ وہ ایسے یک طرفہ فیصلے نہیں کر سکتاجن کامقصداہل فلسطین کوسرزمین فلسطین سے بے دخل کرناہو۔ایسے ایکشن کا صاف مطلب یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں امریکہ کاپہیہ الٹاگھومناشروع ہوگیاہے اورٹرمپ امریکہ کے لئے میخائل گورباچوف ثابت ہونے والا ہے۔واضح رہے کہ192میں سے 128ممالک نے امریکی اقدام کے خلاف ، نو نے اس قرارداد کی مخالفت کی جب کہ 35ممالک ووٹنگ میں شامل نہ ہوئے۔جن نوممالک نے امریکہ کے حق میں ووٹ ڈلے ان میں امریکہ، اسرائیل، کے علاوہ سب کے سب نہایت گمنام ممالک ہیں جن میںگوئٹیمالا، ہونڈیورس، دی مارشل آئسلینڈز، مائیکرونیشیا، نورو، پلا اور ٹوگو شامل ہیں۔ا س کارروائی سے محض تین یوم قبل 18دسمبرسوموارکو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے چار مستقل اور دس غیرمستقل ارکان نے بھی ایسی ہی ایک قرارداد کے حق میں ووٹ دیا تھا، تاہم چاروں مستقل اراکین کونسل امریکی ویٹو کی وجہ سے قرارداد منظور نہ کرسکے ۔ 21دسمبر2017 جمعرات کوامریکی چہرے پرجوکالک ملی گئی اس پراقوام متحدہ میں امریکہ کی مستقل نمائندہ نیکی ہیلی کا کہنا تھا کہ امریکہ اس دن کو یاد رکھے گا جب جنرل اسمبلی میں اسے نشانہ بنانے کے لیے منتخب کیا گیا اور وہ بھی اس کے اس عمل کے لیے جو بطور خودمختار قوم اس کا حق ہے۔آپے سے باہرہوکرنیکی ہیلی کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کہنا تھا کہ امریکہ اپنا سفارتخانہ یروشلم میں ہی بنائے گا۔ یہی امریکی عوام ہم سے چاہتے ہیں، اور یہی صحیح ہے۔ اقوام متحدہ میں کسی بھی ووٹ سے اس پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس دھمکی آمیز بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرارداد کی منظوری کے باوجود یہ مسئلہ پوری طرح حل نہیں ہوا۔ یہ واضح نہیں کہ اس دھمکی کے تحت اگر صدر ٹرمپ نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکی سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے کے لیے عملی اقدامات شروع کر دیے تو اس کا سدباب کیسے کیا جائے گا؟ کیا اس طرح ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو جائے گا؟ حالانکہ جنرل اسمبلی میں اس قرارداد پر بڑے پیمانے پر امریکہ مخالف ووٹ ڈال کر عالمی برادری نے امریکہ کو پیغام دیا کہ وہ ایسے یک طرفہ فیصلے نہیں کر سکتا۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس قراردادسے اب زمینی سطح پر ہوگاکیا؟ اس سے اسرائیل کے خلاف ایک مرتبہ پھرعالمی برادری یکجا نظر آئی ہے اور ایک مرتبہ پھر اسرائیل دنیا سے کٹ کر رہ گیا ہے۔ یہ قرارداد اسرائیل اور ڈونلڈ ٹرمپ دونوں کی ضرور ہار ہے مگر فلسطینیوں کی مکمل جیت بھی نہیں۔خیال رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ عالمی برادری نے بڑی سطح پر اقوام متحدہ میں امریکہ کی مخالفت کی ہے۔ اس سے پہلے بھی جب فلسطین کو’’ نان سٹیٹ ممبر‘‘ کا رتبہ دینے پر رائے شماری ہوئی تھی تو اس وقت امریکہ کی مخالفت ہوئی اور وہاں بھی امریکہ کی ہار ہوئی تھی۔بہر کیف جب تک اس مسئلے کودائمی طورپرحل کرنے کے لئے عالمی برادری اسی طرح ایکا نہ کرے جس طرح ایکا کرکے اس نے صدر ٹرمپ کی امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کی کوشش ناکام بنادی تو معاملہ محاورے کی زبان میں کنوئیں سے سو بالٹیاں نکالنے کے مترادف ہوگا۔اگر اس قر اردادکو عزم وہمت سے نافذالعمل نہ کیاگیااوراگراسی طرح پاک فلسطینی کاز کی قیمت پر ناپاک امریکہ اسرائیل گٹھ جوڑ جاری رہا تو یہ مسئلہ کبھی حل نہ ہو سکے گا۔
اس تاریخی حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل کا قیام جبری اورجارحانہ اقدام نہ تھا اور اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اس کے وجود کو جواز بخشنے کی نامراد کوشش کی گئی لیکن ٹرمپ کے خلاف عالمی ایکا صریح طورپرٹرمپ کی ناکامی ہے جس سے واضح ہو گیا کہ سات دہائیاں گزرنے کے باوجود اقوام عالم نے جبرکے اس فیصلے کو تسلیم نہیں کیا۔ا س سے یہ بات بھی الم نشرح ہوئی کہ اس سارے عرصے میں اگر امریکہ اور اس کے حواری ممالک کی جانب سے اسرائیل کی بے جا اورناجائزحمایت نہ کی جاتی رہتی اور اسے طاقت بخشنے کے لیے جانبدارانہ اورغیر منصفانہ فیصلے نہ کیے جاتے تو اسرائیل کی غیر قانونی اورجبری ریاست کبھی اس خطے میں اپنے پائوں نہ جما سکتی۔ افسوس کہ امریکہ کی جانب سے نہ صرف جانبدارانہ اورغیر منصفانہ فیصلے بدستوراب بھی جاری ہیں بلکہ دھونس کا شرمناک سلسلہ آج بھی جاری ہے۔یہ الگ بات ہے کہ اب دھونس اوردبائو کادورنہیں لیکن اس کے باوجود قراردادِ استراد کی منظوری سے ایک روز قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دی تھی کہ مذکورہ قرارداد کے حق میں رائے دینے والوں کی مالی امداد بند کر دی جائے گی لیکن یہ مضحکہ خیز دھمکی کارگر ثابت نہ ہوئی اور قرارداد منظور کر لی گئی اور امریکہ عالمی برادری میں یکہ و تنہا پڑ گیا۔تاریخ عالم گواہ ہے کہ جس ملک کے مقدر میں کاتب تقدیر تباہی لکھتاہے اس پر ایسے مجہول اوراندھے حکمران مسلط ہو جاتے ہیں جو’’ ہمچوما دیگرے نیست ‘‘کے مصداق خود کو مختار کل خیال کرنے لگتے ہیں۔ عصر حاضر میں ایسی متعدد مثالوں میں سے ایک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہیں جو امریکہ ہی نہیں دنیا پر بصورت عذاب نازل ہواہے ۔ ٹرمپ کے صدرامریکہ بن جانے کے بعد امریکی مفکرین جن میں نوم چومسکی جیسے قدآور دانشور بھی شامل ہیں، نے برحق کہا کہ امریکی عروج کا سورج ڈوبنے کو ہے، البتہ اس میں کچھ وقت لگے گا۔ اگر یہ کہا جائے کہ دوسری عالمی جنگ کے ما بعد دنیا پر امریکی بالادستی کے خاتمے کا آغاز ٹرمپ کے ہاتھوں ہوگا تو غالباً مبالغہ آرائی نہ ہوگی۔۔ دوسری عالمی جنگ میں اتحادیوں کی فتح سے اس کی آب و تاب بڑھ گئی اور پھر یہ بڑھتی ہی چلی گئی۔ اس کے بعد اگرچہ امریکیوں نے بیسویں صدی کو امریکن سنچری قرار دینا شروع کردیا تاہم سوویت یونین کی موجودگی میں یہ دعویٰ باطل تھا۔ اس وقت تک دنیا بائی پولر ہی تھی اور امریکہ ویت نام میں بدترین شکست کے باوجود سوویت یونین سے براہ راست ٹکرلینے سے گریزاں تھا کیوںکہ حربی طورسوویت یونین بھی کم و بیش امریکہ کا ہم پلہ تھا۔ لہٰذا یہ عہد سرد جنگ تک مکتفی رہا۔اس عرصے میں دونوں سپر پاورز ایک دوسرے کے آمنے سامنے تو نہ آئیں البتہ ان کے اتحادی ممالک ایک دوسرے سے کشمکش میں مبتلا رہے، ان میں سے جن کے معاملات اقوام متحدہ میں آتے تو دونوں سپر پاورز اپنے اتحادی ممالک کی مدد کرتیں۔
1991میں سوویت یونین افغان جنگ میں شکست کے بعد تحلیل ہوگیا تو دنیا میں صرف ایک سپر پاور بچا اور وہ تھا امریکہ۔ اپنا کوئی حریف نہ ہونے کے باعث امریکہ نے دنیا بھر پر اپنی تھانیداری چلانے کی کوشش کی، دنیا بھر میں اپنے فوجی اڈے قائم کئے، نائن الیون کے بعد افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور عراق کو ملیامیٹ کیا ، افغانستان پرجارحیت اس غرض سے کی تا کہ بھارت کواپنے زیر نگراں خطے کاتھانیداربنادئے ،جب کہ عراق پر جنگ اورجارحیت ان ملکوں کی بربادی کا سامان تھا جو واشنگٹن کی ناجائز اولاد اسرائیل کے لئے خطرہ بن سکتے تھے، حالانکہ مشرق وسطیٰ کا سب سے بڑا خطرہ تو خود اسرائیل ہے جسے امریکہ جدید ترین ایٹمی اسلحہ سے لیس کر نے میں پیش پیش رہا۔ اس تناظر میں ٹرمپ کی صدارت کا بہ نظر اعماق جائزہ لیا جائے تویہ صرف اسی گریٹ گیم کا شاخسانہ دکھائی دیتی ہے جس کی گھٹی میںصرف مسلم دشمنی اور اسرائیل کی بے جا وکالت پڑی ہے۔ ٹرمپ کی صدارت کے شروع میں چھ مسلم ملکوں کے شہر یوں پر امر یکہ میں آمد ورفت پر پابندی ، پاکستان کے خلاف زبان درازی ، اسرائیل یاترا ، دیوار گریہ کے سامنے مودب کھڑے ہو کریہ کہنا:’’میں اسی مقدس سرزمین پر اپنے موقف و عزم کا اعادہ کرنے آیا ہوں‘‘ امر یکہ کی موجودہ سیاست وسفارت کے معیار پر کافی روشنی ڈالتی ہے۔ ٹرمپ نے اپنے اس’’ موقف و عزم‘‘ کو 6دسمبر2017 ء کو اس وقت سامنے آیا جب بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کے لئے گز بھر زبان نکالی۔ یہ اقدام مسلم اُمہ ہی کیا پوری دنیا کے لئے بات حیران کن بلکہ قابل نفرین تھی کہ امر یکہ دنیا میں اپنی آ مریت کا سکہ چلانا چاہتا ہے۔ چنانچہ سی پیک معاملے پر ٹرمپ کا بیان آج بھی ریکارڈ پر ہے کہ دنیا کسی اور کی نہیں امریکہ کی مرضی سے چلے گی۔ بہر صورت امریکہ کی اس من مرضی کے جواب میں اقوام متحدہ 193؍رُکنی جنرل اسمبلی میں 128؍ممالک نے ٹرمپ فیصلے کے خلاف زناٹے دا رطمانچہ مار دیا، 35ممالک ووٹنگ کے عمل سے غیر حاضر رہے۔ ان میں سے بھی کینیڈا سمیت بعض نے اپنے سفارت خانے بیت المقدس منتقل نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس ووٹنگ کی نگرانی کا عندیہ دیتے ہوئے امریکہ نے یہ تک کہا تھا کہ جس نے امریکی فیصلے کے خلاف ووٹ دیا اس کی امداد کم یا بند کر دی جائے گی۔ گویا امریکہ کی نظر میں دنیا محض ایک دوکان ہے جس کا امریکہ بنیایا ساہو کار ہے۔
اگرچہ جنرل اسمبلی نے امریکہ کو دن میں ہی تارے دکھائے مگر ڈھیٹ طبیعت کے مالک ٹرمپ سے یہ اُمیدکم ہی ہے کہ وہ جنرل اسمبلی میں اقوام عالم کی آواز پر کان دھرے گا کہ دنیا کے 128؍ممالک جن میں ہر مذہب، نسل، زبان، عقیدے اور علاقے کے لوگ شامل تھے، امریکہ کے مذکورہ فیصلے کو درست تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا خیال ووٹ کی صورت میں واضح ہے کہ دنیا کو اپنی مرضی سے چلانے کا امریکی فیصلہ درست نہیں اور نہ ہی ممکن۔ ٹرمپ کے فیصلے دنیا میں نفرت کے بیج بھی بو رہے ہیں اور دنیا کو جنگ کی راہ پر بھی لے جارہے ہیں، لاکھوں انسانوں کا خون ناحق امریکہ کی گردن پر ہے، دنیا میں امریکہ سے نفرت کے جذبات ہیں اور امریکی انتظامیہ کو اخلاقی اعتبار سے ہزیمت کا سامنا ہے۔ امریکی معیشت بھی اتنی مستحکم نہیں رہی، چین ہی نہیں جرمنی اور روس بھی معاشی میدان میں اس کے لئے چیلنج بن رہے ہیں۔ نیٹو کے مقابل شنگھائی تعاون تنظیم بھی وجود میں آچکی ہے، جس کے صرف دو ملکوں روس اور چین کے فوجیوں کی تعداد 3.1ملین ہے، لہٰذا اگر ٹرمپ کسی حماقت کا ارتکاب کرتاہے تو یہ دنیا کے لئے آفت کا سبب بنے گا۔
دنیا کو آج مشترکہ مسائل کے مشترکہ حل کے لیے زیادہ موثر اور کارگر طریقہ کار اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا آج ایک دوراہے پر پہنچ گئی ہے اور اگر دنیا بھر کے ممالک کے سربراہان ِمملکت آج ایک سمجھوتے پر نہ پہنچ سکے تو تاریخ ان کے بارے میں انتہائی سخت فیصلہ صادر کرے گی، کوئی بھی قانون اور فیئر پلے سے بالاتر نہیں ۔ نیزاب یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے کہ اقوام متحدہ کا کردار ویٹو پاور کے حامل پانچ مغربی ممالک کی حاشیہ برداری کے سوا اور کچھ نہیں رہ گیا ہے،اورویٹو پاور کے نتیجے میں اقوام متحدہ اپنی افادیت کھو چکی ہے ، اس کا ویٹو پاور ترقی پذیر ممالک پر بوجھ ہے جس کا سروں سے اُتارا جانا ضروری ہے تاکہ عالمی عصبیت ، اندھے پن اوردادہ گیری سے دنیائے انسانیت کو نجات مل سکے۔سلامتی کونسل میںویٹو پاور کے خاتمے کی اس لیے بھی ضرورت ہے کہ فاتح اور مفتوح کا تقسیم ختم ہوکر دنیا میںظالم اورمظلوم کااصل چہرہ سامنے لایا جاسکے، اقوام متحدہ کی عزت و حرمت بحال ہوسکے، جوویٹوپاورکے امتیازی طرز عمل کے سبب مجروح ہوچکی ہے، اقوام عالم میں آزادی، خودمختاری اور وقار کے ساتھ زندہ رہنے کا حوصلہ پیدا ہوسکے، ویٹو کے خاتمے سے آمریت کو ختم کرکے دلیل اورحجت قائم کی جاسکے ۔اس سب کا لیکھاجوکھا یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے کرۂ ارض پر قوموں اور ملتوں کے مابین عدل و انصاف اور حریت ِ فکر کا ضامن بن سکے، ملکی مفادات کے حصول کے لیے جابرانہ اور جارحانہ کا وشوں کا خاتمہ ممکن ہوسکے اور اقوام متحدہ بغیر کسی امتیاز کے عالمی و علاقائی مسائل کا منصفانہ تصفیہ کرانے کا علمبردار بن سکے۔ جنگ برائے امن جیسے استحصالی نعرے کی آڑمیں عالمی ادارہ جارح کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکے ،خاص کر جن قوموں کو اُن کے پیدائشی حق ’حق خود ارادیت‘ سے بزور بازو محروم رکھا جارہاہے،انہیں اس ظلم وجبر سے گلو خلاصی دلائی جائے۔ ا عالم انسانیت کی ان تمام خواہشات اور خوابوں کو ملیامیٹ کرتے ہوئے بے شک عالمی امن کے ازلی دشمن امریکہ نے دنیا کاامن اورسکھ چین ہمیشہ تہہ و بالا کر کے رکھ دیا ۔ اس وقت ڈرون حملوں کی برسات اور جارحانہ حملوں کی بھرمار سے یہ مسلمانوں کی بستیوں میں کشت و خون کا ایسا کھیل رواں رکھے ہوئے ہے کہ الاماں والحفیظ۔ساری دنیاایک طرف،پانچ چوہدری ایک طرف۔ یہ غلط ہے۔ دنیا میں امریکہ بدمعاشی کا ہی نمونہ ہے کہ ایک طرف ایسٹ تیموراور ڈارفر کو نام نہاد ریفرنڈم کے ذریعے اپنے ملکوں سے الگ کیا گیااور دوسری طرف فلسطین اور کشمیر کی آزادی کی راہ میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں۔ وقت آیا ہے کہ جس طرح یروشلم کے معاملے میں عالمی برادری نے امر یکہ کو آٹے دال کے بھاؤ بتائے اسی طرح دیگر متنازعہ معاملات وحل طلب مسائل میں دنیا کی تمام قومیں امن وآدمیت کے حق میں ایکا کر کے احقاقِ ھق ابطالِ باطل کا فریضہ انجام دیں ۔