تقریباً دو سو سال پہلے میرپور سے ایک خاندان ہجرت کر کے خانیار سرینگر میں قیا م پذیر ہوا۔ وہ شال دو شالوں کا کاروبار کرنے لگے اور جلد ہی سرینگر کے صاحب ثروت خاندانوں میں ان کا شمار ہونے لگا۔ اس خاندان کا ایک فرد قادر میر پانپور میں بس گیا ۔ صمد میر اسی خاندان کا فرد تھا۔ کم سنی میں ہی قرآن حفظ کیا اور ملکی حا لات سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ میر صاحب نے تحریک میں بھر پور حصہ لیا۔ وہ اپنے علاقے میں جلسے اور جلوسوں کا اہتمام کرتے۔ جلد ہی حکام کی نظروں میںآگئے۔ 1945ء میں ایک احتجاجی مظاہرے کے دوران دو افراد غلام نبی ڈار اور رحیم شیخ پولیس کی گولیوں سے شہید ہوئے ۔ میر صاحب نے زبردست احتجاج کیا اور گرفتار ہوئے۔ ان کو شدیدٹارچر کے شرمناک مراحل سے گزارا گیا۔ میر صاحب کو لو گ بہت پسند کرتے تھے ۔ ان کی عزت کے لئے جان لٹانے کے لئے ہمیشہ تیار رہتے۔ چناںچہ لوگوں نے زبردست احتجاج کیا اور مہاراجہ اور پولیس کے خلاف نعرے بلند کئے۔ مجبوراً پولیس کو انہیں رہا کرنا پڑا۔ میر صاحب نے 1945ء کے شہدا کے لواحقین کی کفالت اپنے ذمے لی اور زندگی کے آخری دم تک اس فرض کو بخوبی نبھایا۔1946 میں شیخ محمد عبداللہ نے کشمیر چھوڑ دو کا نعرہ لگا کر کشمیر میں ہلچل پیدا کی۔ لوگ جوق در جوق اس تحریک میں شریک ہوئے۔ میر صاحب نے بھی اس میں کلیدی رول نبھایا۔ جلسے جلوسوں کے علاوہ وہ گر فتار شدگان کے لواحقین کی دیکھ بال بھی کرتے۔1947 میں جب بھارتی فو ج کشمیر میں وارد ہوئی تو میر صاحب کو سخت ملال ہوا۔ انہوں نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں اور آخر وہ دن بھی آیا جب شیخ محمد عبداللہ نے اُن کی گرفتاری کا حکم دیا لیکن بخشی غلام محمد جو اس وقت وزیر داخلہ تھے، نے ان کی رہائی کے احکام جاری کردئے۔ شیخ محمد عبداللہ نے ان پر پاکستانی ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا۔
جب مرزا محمد افضل بیگ نے محاذ رائے شماری کا قیام عمل میں لایا تو میر صاحب عمر رسیدہ ہونے کے علاوہ کمزور بھی لگنے لگے تھے لیکن اس کے باوجود بھی انہوں نے اس تحریک میں ذوق وشوق سے شرکت کی۔ حسب معمول وہ گر فتار ہونے والوں کے گھر والوں کی معاونت کرتے اور انہیں دلاسہ دیتے۔ میر صاحب 1966 ء واصل بحق ہوئے اور پانپور میں ہی دفن ہوئے۔ ان کے بیٹے عبدلسلام میر عرف مجروع بھی محاذ کے سرگرم ممبر تھے لیکن انہوںنے اپنے والد کے نام پر منظور ہونے والا فریڈم فائٹر الاونس لینے سے انکار کر دیا۔ میر صاحب نے اپنی پوری زندگی میں فوٹو نہیں کھینچوایا ۔ وہ اس کو خلاف شریعت سمجھتے تھے۔
نوٹ : کالم نگار ’’گریٹر کشمیر‘‘ کے سینئر ایڈ یٹر ہیں ۔
فون نمبر9419009648