سرینگر //وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ریاست میں موجودہ حالات کو بہتر بنانے کیلئے سب کا تعاون مانگتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ’’ جموں وکشمیر کے مسائل کا حل اگر کسی ملک کے پاس ہے وہ بھارت ہے ۔انہوں نے کہا ’’جو بھی لوگ ہیں، چاہیے مین سٹریم اور آوٹ سائڈ مین سٹریم میں، انہیں اگر کچھ ملے گا تو وہ اسی ملک سے ملے گا ،چاہئے عزت وقار ہو ، خون خرابہ بند کر کے ڈائیلاگ کی بات ہو پا پھر آر پار راستے کھولنے کی بات ،یہ سب کچھ اسی ملک کو کرنا ہے ۔
عام معافی
قانون ساز اسمبلی میں گورنر کے خطبے پر شکریہ کی تحریک پر ہوئے بحث سمیٹتے ہوئیمحبوبہ مفتی نے کہا کہ ایک اہمیت والے بڑے فیصلے کے تحت 2016ء کے نامساعد حالات کے دوران مختلف کیسوںمیں ملوث نوجوانوں کے حق میں عام معافی کا اعلان کیا گیا۔انہوںنے ریاست اور ملک کے تمام مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ آ گے آکر ریاست کو موجودہ غیریقینیت اور خون خرابے سے باہر نکالنے میں تعاون دیں۔وزیر اعلیٰ نے کہاکہ انہوں نے حال ہی میں4327 نوجوانوں کے خلاف معاملات خارج کرنے کی ہدایت دی ۔اس کے علاوہ 2016کے دوران نوجوانوں کے خلاف درج معاملات کا جائزہ لینے کے لئے بھی کمیٹی تشکیل دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ’’ مجھے خوشی ہے ہم نے تقریباً 9ہزار نوجوانوں کو عام معافی دینے کا فیصلہ کیاہے‘‘۔ محبوبہ مفتی نے کہا کہ انہوں نے پولیس کو ہدایت دی ہے کہ عسکریت پسندوں کی صفوں میں داخل ہوئے نوجوانوں کو واپس اپنے گھروں اور دوستوں کے پاس لوٹنے میں مدد کر یں۔انہوں نے کہا’’ میں انہیں واپس لانے کے لئے کوشاں رہوں گی اور یہ یقینی بنائوں گی کہ کوئی انہیں ہراساں نہ کرے۔کئی واپس لوٹے ہیں تاہم سوشل میڈیا پر چند لوگوں کی جانب سے تشدد کی ستائش پر مجھے افسوس ہے ۔‘‘
دنیشور شرما کی تقرری
بات چیت ہی آگے جانے کے لئے واحد راستہ قرار دیتے ہوئے وزیرا علیٰ نے کہا کہ کابینہ سیکرٹری کے مرتبے کے افسر دنیشور شرما کی پچھلے برس مذاکرات کار کی حیثیت سے تعیناتی ریاست میں بات چیت کا عمل جاری رکھنے میں ایک بڑا فیصلہ تھا۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ مختلف طبقہ ہائے فکر شرما کی طرف سے شروع کئے گئے مشاورتی عمل میں حصہ لیں گے اور یہ عمل مثبت طریقے سے آگے بڑھے۔ چند حزب اختلاف ممبران کی طرف سے اُٹھائے گئے نکات کی وضاحت کرتے ہوئے محبوبہ مفتی نے کہا کہ جو منڈیٹ انہیں دیا گیا ہے وہ بالکل شفاف اور قطعی ہے اور شرما کی تعیناتی بات چیت کے عمل کو آگے لے جانے کے لئے کی گئی ہے ۔انہوںنے کہا کہ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم ریاست کو تشدد سے باہر نکالنے میں تمام تر اقدامات کریں۔ انہوں نے ریاست اور ملک کے تمام طبقہ ہائے فکر سے اپیل کی کہ وہ آگے آکر ریاست جموں وکشمیر کو غیر یقینیت اور خون خرابے سے باہر لانے میں اپنا رول ادا کریں۔
ہندوپاک بات چیت
نیشنل سیکورٹی مشیروں کی حالیہ میٹنگ کی رپورٹوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے محبوبہ مفتی نے کہا کہ وہ دونوں ملکوں کے مابین رشتوں کی استوار ی اور ریاست کو دونوں کے مابین یقین و اعتماد کا پُل بنانے کی تمنارکھتی ہے۔انہوں نے کہا کہ جموں وکشمیر کا اسٹریجیک محل وقوع ہے جسے مثبت اور ثمر آور نتائج کے لئے بروئے کار لایا جانا چاہیے۔
شاہراہ ریشم کا حصہ
انہوں نے کہا ’’ ہم وسطہ ایشیاء کا دروازہ کیوںنہیں بن سکتے ؟ ہمیںشاہراہ ریشم کا حصہ ہونا چاہیے۔آئیے ہم تاشقند ، کاشغر اور ایران جو کہ تاریخی شاہراہیں رہی ہیں جن کے ذریعے اسلام کشمیر میں آیا ہے سے ایک بار پھر استفادہ کریں۔‘‘ ۔انہوں نے مزید کہا ’’ یہ روا دار اسلامی نظریہ ہی تھا جس نے ہمیں عقل اور انسانی خطوط پر سوچنے کے لئے اس وقت تیار کیا جب ہم 1947ء میں اپنی تقدیر کا فیصلہ کر رہے تھے ۔آئیے ہم اپنے ’’ راستوں ‘‘ کی جانب واپس لوٹیں۔‘‘
پیلٹ متاثرین
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ پیلٹ متاثرین، جن کی بصارت کو نقصان پہنچا ہے، کی امدا د کے لئے ہم نے نہ صرف انہیں مالی مدد فراہم کی بلکہ نوکریاں بھی دیں۔انہوںنے ایوان کو مطلع کیا کہ ایسا بدقسمت واقعہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ہم نے ان کی باز آبادکاری کے لئے کوششیں کیں اور ہم اب بھی اُن کو آباد کرنے کے عمل میں کوشاں ہیں ۔پیلٹ متاثرہ انشاء کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کے لئے گیس ایجنسی دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان افراد کو ایک مقامی ادارے کے اشتراک سے خصوصی تربیت فراہم کی گئی ہے تاکہ وہ تاحیات کسی پر منحصر نہ رہیں۔
فلاح و بہبود کے اقدامات
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ لوگوں کو بنیادی سطح پر بااختیار بنانے کے لئے ان کی حکومت پنچایتی اور بلدیاتی انتخابات منعقد کر رہی ہے تاکہ ریاست میں تین سطحی گورننس نظام قائم کیا جاسکے۔حزب اختلاف کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے وزیرا علیٰ نے کہا کہ گزشتہ تین برسوں کے دوران حکومت نے کافی کچھ کیا ہے لیکن اس کی بہتر تشہیر نہیں ہو سکی کیونکہ ریاست اور ملک پر ہمیشہ سیاسی صورتحال کا ہی غلبہ رہتا ہے۔انہوں نے کہاکہ ساٹھ ہزار ڈیلی ویجروں کی ملازمتوں کو باقاعدہ بنانا عوامی فلاح و بہبودکے لئے حالیہ وقتوں میں کسی بھی حکومت کی جانب سے اٹھایا گیا ایک بہت بڑا قدم ہے۔وزیر اعلیٰ نے کہا ’’ مجھے خوشی ہے کہ انہیں اپنے واجبات کو واگذار کرانے کے لئے زیادہ دوڑ دھوپ نہیں کرنی پڑے گی۔ ہم نے انہیں ایک باعزت اور محفوظ مرتبہ عطا کیا ہے حالانکہ ان لوگوں کو پچھلی حکومتوں نے غیر مستقل طور پر کام پر لگایا تھا۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ان ملازموں کی ملازمت کو باقاعدہ بنانا تمام بہبودی کے اقدامات میں سرفہرست ہے ۔محبوبہ مفتی کہا کہ انہیں اس بات پر بھی خوشی ہوئی کہ حز ب اختلاف کے رہنما نے 2002سے 2005 تک ان کی پارٹی کی طر ف سے کی گئی کاوشوں کی سراہنا کی۔ تعلیمی سیکٹر میں محبوبہ مفتی نے کہا کہ حکومت نے400 سکولوں کا درجہ بڑھایا اور سرکاری سکول بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں جو کل دسویں جماعت کے نتائج سے ظاہر ہوا۔ سرکاری سکولوں میں نہ صرف طلاب کی زیادہ تعداد کامیاب ہوئی بلکہ اُن کی Percentage میں بھی اضافہ ہوا۔محبوبہ مفتی نے کہا کہ حکومت نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ نوکریاں فراہم کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ایس سی اور ایس ایس آر بی کے ذریعے10 ہزار اسامیوں پُر کی گئیں،3000 رہبر کھیل اسامیوں معرض وجود میں لائی گئیں،500 رہبر جنگلات کی اسامیوں پر بھی متعلقہ نوجوانوں کو تعینات کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ معمول کے مطابق پولیس میں بھرتیاں جاری ہیں۔ اس سارے عمل میں اچھی بات یہ ہوئی کہ تمام اسامیوں کو پُر کرنے کا عمل شفاف رہا اور کسی بھی قسم کی مداخلت نہیں ہوئی۔ میں تمام ریکروٹنگ ایجنسیوں پر زور دیتی رہی کہ وہ اس عمل میں سرعت لائیں اور سلیکشن مقررہ وقت کے اندر انجام دیں۔
سرحدی علاقے
انہوں نے کہا کہ مجھے اس بات پر دکھ ہوتا ہے کہ جب ہم کہتے ہیں کہ ہم سرحدی علاقوں کیلئے 14ہزار مورچوں کی تعمیر کا کام ہاتھ میں لے رہے ہیں ہمیں سرحدی علاقوں کے لئے سکول ہسپتال اور دیگر بنیادی سہولیات فراہم کرنے کیلئے اقدمات کرنے چاہئیں ۔انہوں نے کہا کہ سرحدوں پرآج ہمارے لوگ اتنے ڈرے اور سہمے ہوئے کہ وہ بینکروں کی تعمیر کا مطالبہ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مورچے تو ہم اُن کی جان کی حفاظت کیلئے بنا دیں گے لیکن میں پوچھنا چاہتی ہوں کہ جو ہمارے بچوں کی تعلیم پر اثر پڑھ رہا ہے ہمارے بچے سرحدی علاقوں میں دردر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اُن کیلئے کہا اقدمات کئے جا رہے ہیں ۔
آئین اور جھنڈا
انہوں نے کہا کہ ریاست کے جو حالات میں اُس کو ٹھیک کرنے کیلئے سب کو مل جل کر کام کرنا ہے حالات کو تشدد اور مار دھاڑ سے حل نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کو بات چیت کے ذرائع حل کیا جائے گا ۔انہوں نے کہا کہ ریاستی اسمبلی میں کا وقار اتنا ہے کہ پورے ملک میں اتنی پاور فل اور کوئی بھی اسمبلی نہیں ہے جتنی ریاستی جموں وکشمیر کی اسمبلی ہے ۔انہوں نے کہا کہ جب جی ایس ٹی لاگو ہوئی وہ تب تک جموں وکشمیر میں لاگو نہیں ہو سکی جب تک اُسے ریاستی اسمبلی میں منطوری نہیں ملی ۔انہوں نے کہا کہ مفتی صاحب ہمیشہ کہتے تھے جو جموں وکشمیر کو ہمارے ملک سے ملا ہے چاہئے ہمارا آئین ہو جس کی ہم قسم اپنی ملک کی آئین کی طرح کھاتے ہیں یا پھر ہمارا جھنڈا ہو اُ یا پھر اختیارات اس کو سنبھالو، یہ بہت بڑی چیز ہمارے پاس ہے اگر ہم ان چیزوں کو سنبھال کر اس کا استعمال کرتے ہیں تو ہم واقعی ہی اس ملک کا تاج بن سکتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اگر ہم اُس کی بھی قدر نہیں کریں گے تو ہمارے پاس کیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اگرہم جموں وکشمیر اور ملک کے آئین کو نہیں مانتے ہیں تو پھر کس چیز کو مانتے ہیں ۔ پھر آپ کو ملنے والا کیا ہے کہاں سے کچھ ملے گا ۔انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا’’ جموں وکشمیر کے جو بھی لوگ ہیں مین سٹریم اور آوٹ سائڈ مین سٹریم جو ملے گا اسی ملک سے ملے گا اور کسی سے نہیں ملے گا ۔ چاہئے عزت وقار ہو ، خون خرابہ بند کر کے ڈائیلاگ کرنے کی بات ہو یا آر پار راستے کھولنے کی بات یہ سب کچھ اسی ملک کو کرنا ہے ۔انہوں نے کہا کہ جب امن ہوتا ہے تب تعمیر وترقی اور باقی چیزیں ہوتی ہیں جب امن میں کوئی نہ کوئی رخنہ ڈالنے کی کوشش کرے تو پھر اُس میں باقی باتیں نہیں ہوتیں ۔سب سے زیادہ سکیمیں اگرکسی سرکار میں لانچ ہوئی ہیں وہ ہماری سرکار کے دورمیں ہوئی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ میں نہیں جانتی کہ عمر عبدللہ اور اپوزیشن والے کیوں خفا ہیں ۔انہوں نے سوال کئے تھے لیکن جواب نہیں سنے ۔
الحاق
انہوں نے کہا کہ پچھلے دو برسوں سے جو حالات رہے اُس کا مجھے احساس ہے اور اب دھیرے دھیرے کسی حد تک ٹھیک ہو رہے ہیںاور اگر کہیں کچھ ہے توموجودہ صورتحال کو ہم اکیلے ٹھیک نہیں کر سکتے بلکہ اُس کو ہم سب کو مل جل کر ٹھیک کرنا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کو سیاست کے ذرائع حل کرنا چاہتے نہ کے تشدد سے ایسے حل نہیں ہوتے۔ محبوبہ مفتی نے 1947میں بھارت کے ساتھ ہوئے الحاق کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کے لوگوں نے 1947میں مذہبی بنیاد پر پاکستان کا ساتھ نہیں دیا اور بھارت کے ساتھ رہنے کو پسند کیا جہاں گنگا جمنا تہذیب چلتی ہے ،جیسے ہمارے یہاں مخدوم صاحب اور نیچے گردوارہ اور مندر ساتھ ساتھ ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہی تہذیب ہم نے دیکھی جس کے بعد لوگوں نے فیصلہ کیا کہ ہم مذہب کی بنیاد پر پاکستان کے ساتھ نہیں بلکہ بھائی چارے کی بنیاد پربھارت کا حصہ اور تاج بنیں گے ۔انہوں نے کہا کہ آج میں سوچتی ہوں کیا ہو گیا، گاندھی جی کو جو روشنی ہماری ریاست میں نظر آئی تھی ،وہ کیوں کر بجھی جبکہ 1947کی تقسیم کے بعد ہر جگہ حالات بگڑگئے تھے۔ لیکن جموں وکشمیر ایک ایسی ریاست تھی جہاں حالات ٹھیک رہے ۔