عالمی ادب میں اپنی صالح وتعمیری فکر ونظر کی بدولت غیر معمولی اہمیت کے حامل روسی ادیب میکسم گورکی کہا کرتا تھا کہ ایک زوال پذیر قوم کی نشانی یہ ہے کہ وہ اپنی معاشرتی برائیوں پر نگاہ نہیں رکھتی اور خود غرضی کی شکار ہو جاتی ہے ۔اس نے یہ بھی کہا تھا کہ سماج میں جب برے لوگوں کی اہمیت بڑھنے لگے تو سمجھ لیجئے کہ اس سماج کا زوال شروع ہو چکا ہے۔گورکی کی یہ باتیں میرے ذہن میں برسوں سے کوند رہی ہیں۔ میں اکثر اپنے کالموں میں اصلاحی موضوعات پر اظہارِ خیال کرتا رہا ہوں لیکن مسلم معاشرے کے تعلق سے جب کبھی لکھنے کی کوشش کی تو یہ اندیشہ لاحق رہا کہ شاید میری فکر کسی کے لئے باعثِ ناگواری نہ ثابت ہوکیوں کہ ہم جس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں اس میں گورکی کی مذکورہ دونوں باتیں عام ہیں۔ہم اپنے معاشرتی بگاڑ کے لئے نہ سنجیدہ ہیں اور نہ روز بروز بڑھتی سماجی برائیوںکے خلاف متحد ہیں ۔ لیکن مقامِ شکر ہے کہ گذشتہ دن ہندی کے ایک اخبار میں یہ خبر پڑھنے کو ملی کہ ’’جہیز لیا تو نکاح نہیں پڑھائیں گے امام‘‘ یہ سرخی میرے لئے باعثِ مسرت بھی تھی اور باعثِ حیرت بھی۔ کیوں کہ تعلیمی شعبے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے اکثر وبیشتر سماجی تقاریب اور شادی بیاہ جیسے مذہبی مبارک مجلسوں میں شامل ہوتا رہتا ہوں اور میری آنکھیں گواہ ہیں کہ ایسے لوگوں نے بھی جہیزجیسی لعنت کو سماج میں فروغ دیا ہے جس پر نہ صرف سماجی بلکہ مذہبی ذمہ داری عائد تھی کہ اس کی مخالفت کریں۔مجھے ایک واقعہ یاد آیا کہ ایک صاحب جو نہ صرف صوم و صلوٰۃکے پابند ہیں بلکہ تبلیغی مزاج کی وجہ سے اپنی شناخت بھی رکھتے ہیں لیکن جب ان کے صاحبزادے کے نکاح کا وقت آیا تو مجلس میں اس بات پر بدنظمی پیدا ہوگئی کہ لڑکی والے مہر کی رقم ایک لاکھ اکاون ہزار رکھنا چاہتے تھے جب کہ لڑکا کے والد صرف سات ہزار سات سو چھیاسی روپے رکھنے کی وکالت کر رہے تھے۔لڑکی والوں کو یہ کسی طرح بھی قبول نہیں تھا ۔ راقم الحروف نے جب لڑکی کے والد سے یہ بات کہی کہ جب لڑکا والے مہر کی رقم کو لے کر تیار نہیں ہیں تو پھر آپ اس مبارک جشن میں تاخیر کیوں کر رہے ہیں۔ انہو ںنے بھری مجلس میں یہ انکشاف کیا کہ جس وقت میں نے ساڑھے تین لاکھ روپے دئے تھے اس وقت یہ بات طئے پائی تھی کہ ایک لاکھ اکاون ہزار مہر ہوگی۔چوں کہ یہ بات بھری مجلس میں کہی جا رہی تھی اس لئے وہ جناب خاموش نہیں رہے اور یہ کہا کہ یہ رقم تو لڑکے کو دی گئی تھی۔ غرض کہ وہ جناب لڑکے کو دی جانے والی رقم کو غیر شرعی نہیںسمجھ رہے تھے یا پھر سمجھ کرمصنوعی طورپر سات ہزار سات سو چھیاسی روپیہ مہر طئے کر یہ دکھانا چاہتے تھے کہ یہ شادی شرعی ہے۔ یہ مثال میں ان لوگوں کی دل آزاری کے لئے نہیں لکھ رہا ہوں بلکہ یہ عام روش ہے اور اس سماجی برائی نے ہمارے معاشرے کو کس قدر کھوکھلا کر رکھا ہے اس سے ہر وہ شخص واقف ہے جو آج کی تاریخ میں لڑکی کا والد ہے ۔آپؐ نے لڑکی کی پیدائش کو رحمت قرار دیا تھا لیکن کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج مسلم معاشرہ پیدائشِ بنت کو باعثِ پریشانی سمجھنے لگا ہے ۔الّا ماشاء اللہ ایسے لوگ ہیں جن کے لئے لڑکی باعثِ پریشانی نہیں ہے۔ خصوصی طورپر متوسط طبقے کے لئے لڑکی کی پیدائش مستقل فکر مندی بن گئی ہے کیوں کہ اعلیٰ طبقے کے لئے تو ہر راستہ ہموار کرنے کا ذریعہ موجود ہے اور وہ طبقہ جس کی زندگی دربدری کی ہے اس کے لئے بھی شاید لڑکیوں کی شادی بڑا مسئلہ نہیں ہے کیوں کہ میرے کالج کے پڑوس میں برسوں سے خانہ بدوش کا ڈیرہ ہے اور ان کے یہاں جس سادگی سے شادی کی رسم پوری ہوتی ہے اس سے تو ایسا لگتا ہے کہ آج کی تاریخ میں سچ معنوں میں وہی پیروکارِ سنتِ نبوی ؐہیں۔کیوں کہ سماج میں وہ لوگ جو مصنوعی چہرہ لئے گھوم رہے ہیں اور دعویٰٔ اطاعتِ اسلام کر رہے ہیں ان کے ذریعہ ہی جہیز جیسی لعنت کو فروغ ملا ہے۔کیوں کہ ان کے لئے یہ لعنت معاشرتی شان وشوکت بن گئی ہے۔ لینے والے اور دینے والے دونوں اس میں شامل ہیں۔
بہر کیف گفتگو اس خبر کی ہو رہی تھی جس نے مجھے یہ کالم لکھنے پر مجبور کیا ہے ۔ خبر کے مطابق بہار شریف کے قاضی مولانا منصور عالم نے یہ حکم جاری کیا ہے کہ جس شادی میں لڑکے والے جہیز کا مطالبہ کریں گے اس کا وہ نکاح نہیں پڑھائیں گے۔ چوں کہ مولانا کا تعلق امارت شرعیہ سے ہے اور وہ مقامی دارالقضاء کے ذمہ دار ہیں اور قاضی کی حیثیت سے یہ حکم دیا ہے جس کی حمایت وہاں کے ائمہ مساجد نے کی ہے۔خبر کے مطابق فی الوقت قاضی مولانا منصور عالم بہار شریف میں اس کا نفاذ کریں گے اور آنے والے دنوں میں نوادہ وشیخپورہ کے ائمہ مساجد سے مل کر جہیز جیسی لعنت کو دور کرنے کی مہم چلائیں گے۔اگر واقعی یہ مہم ہمارے ائمہ مساجد کے ذریعہ چلائی جاتی ہے تو اس کا نہ صرف خاطر خواہ اثر ہوگا بلکہ اس غیر شرعی بیماری کو ختم بھی کیا جا سکتا ہے ۔مہتمم ادارہ شرعیہ ، پٹنہ مولانا غلام رسول بلیاوی نے بھی اس مہم کا خیر مقدم کیا ہے ۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ آواز چہار طرف پھیلنی چاہئے کیوں کہ جہیز جیسی لعنت نے ایک ایسی سماجی برائی کو جنم دیا ہے جس کی وجہ سے آج معاشرے میں کئی طرح کی بیماریاں پیدا ہوئی ہیں۔ظاہر ہے ازدواجی زندگی انسان کے فطری تقاضے ہیں اور اگر وہ متعینہ وقت پر نہیں ہوتے تو انسان جنسی توازن کھو بیٹھتا ہے اور وہ بے راہ روی کا شکار ہو جاتا ہے جس کے اثرات نہ صرف اس معاشرے کی شناخت کو مسخ کرتے ہیں بلکہ اس قوم کی پہچان کو بھی مٹا دیتے ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کی جس قوم نے وقت رہتے اپنی معاشرتی برائیوں کو دور نہیں کیا ہے اس کا وجود نہ صرف غیر مستحکم ہوا ہے بلکہ اس کے نام ونشاں بھی مٹ گئے ہیں ۔ مگر افسوس صد افسوس کہ جس نظامِ زندگی نے پوری دنیا کو اسباقِ زیست سکھایا آج وہی امتِ محمدیہ ؐ نہ صرف جہیز جیسی غیر شرعی لعنت کی شکار ہے بلکہ اس کے اعمال وکردار نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اس سے بہتر تو وہ ہیں جن پر پابندیٔ سنتِ رسول نہیں ہے ۔