ولادت شریف اور حلیہ مبارکہ :عام روایات کے مطابق ۱۲ربیع الاوّل عام الفیل کو آپﷺؐ نے شکمِ مادر سے تولد فرمایا۔ شمائلِ ترمذی حلیہ مبارکہ بیان کرنے کا سب سے مستند و جامع ذریعہ ہے جس کو امام ترمذی رحم اللہ علیہ نے ذکر فرمایا ہے، آپﷺ ؐکا میانہ قد، سرخی مائل، سفید گورا رنگ، سرِ اقدس پر سیاہ ہلکے گھنگھریالے ریشم کی طرح ملائم انتہائی خوبصورت بال جو کبھی شانہ مبارک تک دراز ہوتے تو کبھی گردن تک اور کبھی کانوں کی لوتک رہتے تھے۔ رخِ انور اتنا حسین کہ ماہِ کامل کے مانند چمکتا تھا، سینہ مبارک چوڑا، چکلا کشادہ، جسم اطہر نہ دبلا نہ موٹا انتہائی سڈول چکنا ،کہیں داغ دھبہ نہیں، دونوں شانوں کے بیچ پشت پر مہرِ نبوت کبوتر کے انڈے کے برابر سرخی مائل اُبھری کہ دیکھنے میں بے حد بھلی لگتی ، پیشانی کشادہ بلند اور چمکدار، ابروئے مبارک کمان دار غیر پیوستہ، دہن شریف کشادہ، ہونٹ یاقوتی مسکراتے تو دندانِ مبارک موتی کے مانند چمکتے، دانتوں کے درمیان ہلکی ہلکی درازیں تھیں تکلم فرماتے تو پندونصائح کے خزانے کوسمیٹنے میں دامن تنگ نظرآتا، سینہ پر بالوں کی ہلکی لکیر ناف تک تھی باقی پیکر بالوں سے پاک تھا ۔صحابہؓ کا اتفاق ہے کہ آپؐ ﷺجیسا خوبصورت نہیں دیکھا گیا۔ حضڑت حسان بن ثابت ؓ فرماتے ہیں :آپ ﷺ سے حسین مرد میری آنکھوں نے کبھی نہیں دیکھااور آپ سے زیادہ خوبصورت مرد کسی عورت نے نہیں جنا، آپﷺ ہر قسم کے ظاہری وباطنی عیوب سے پاک پیدا ہوئے ،گویا آپ ﷺاپنی حسب مرضی پیداہوئے ہیں، نہ کبھی آپ چیخ کر بات کرتے تھے نہ قہقہہ لگاتے تھے نہ شور کرتے تھے نہ چلاکر بولتے تھے ،ہر لفظ واضح بولتے ،جب مجمع سے مخاطب ہوتے تو تین بار جملہ کو بالکل صاف صاف دہراتے تھے۔ اندازِ کلام باوقار، الفاظ میں حلاوت کہ بس سنتے رہنے کو دل مشتاق، لبوں پر ہمہ دم ہلکا سا تبسم جس سے لب مبارک اور رخِ انور کا حسن بڑھ جاتا تھا ،راہ چلتے تو رفتار ایسی ہوتی تھی گویا کسی بلند جگہ سے اتررہے ہوں نہ دائیں بائیں مڑمڑکر دیکھتے تھے نہ گردن کو آسمان کی طرف اٹھاکر چلتے تھے، تواضع کی باوقار مردانہ خوددارانہ رفتار ہوتی، قدمِ مبارک کو پوری طرح رکھ کر چلتے تھے کہ نعلین شریفین کی آواز نہیں آتی تھی ہاتھ اور قدم ریشم کی طرح ملائم گداز تھے، ذاتی معاملہ میں کبھی غصہ نہیں ہوتے تھے، اپنا کام خود کرنے میں تکلف نہ فرماتے تھے کہ کوئی مصافحہ کرتا تو اس کاہاتھ نہیں چھوڑتے تھے جب تک وہ الگ نہ کرلے ،آپؐﷺجس سے گفتگو فرماتے پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہوتے ،کوئی آپؐ سے بات کرتا تو پوری توجہ سے سماعت فرماتے تھے، پھر بھی ایسا رعب تھا کہ صحابہ ؓ کو گفتگو کی ہمت نہ ہوتی تھی۔ ہر فرد یہی تصور کرتا تھا کہ مجھ کو ہی سب سے زیادہ چاہتے ہیں۔
دعوت و تبلیغ کا آغاز: تاجِ رسالت اور خلعت نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد آپﷺؐ نے ایک ایسے سماج ومعاشرہ کو ایمان و توحید کی دعوت دی جو گلے گلے تک شرک و کفر کی دلدل میں گرفتار تھا، ضلالت وجہالت کی شکار تھی، انسانیت، شرافت مفقود تھی، درندگی اور حیوانیت کا راج تھا ،ہر طاقتور فرعون ونمرود بنا ہوا تھا۔ قتل وغارت گری کی وبا ہر سو عام تھی نہ عزت محفوظ، نہ عصمت محفوظ، نہ عورتوں کا کوئی مقام، نہ غریبوں کے لیے کوئی پناہ، شراب پانی کی طرح بہائی جاتی تھی۔بے حیائی اپنے عروج پر تھی، روئے زمین پر وحدانیت حق کا کوئی تصور نہ تھا، خود غرضی، مطلب پرستی کا دور دورہ تھا، چوری، بدکاری اپنے عروج پر تھی اور ظلم وستم نا انصافی اپنے شباب پر تھی خدائے واحد کی پرستش کی جگہ معبودانِ باطل کے سامنے پیشانیاں جھکتی تھیں، نفرت وعداوت کی زہریلی فضا انسان کو انسان سے دور کرچکی تھی، انسانیت آخری سانس لے رہی تھی معاشرہ سے شرک کا تعفن اٹھ رہا تھا۔ کفر کی نجاست سے قلوب بدبودار ہوچکے تھے۔ اس دور کا انسان قرآن کریم کے مطابق جہنم کے کنارے کھڑا تھا، ہلاکت سے دوچار ہونے کے قریب کہ رحمت حق کو رحم آیا اور کوہِ صفا سے صدیوں بعد انسانیت کی بقا کا اعلان ہوا کہ اے لوگو ! پر ایمان لا ؤ،فلاح و صلاح سے ہمکنار رہوگے۔ یہ آواز نہیں تھی بلکہ ایوان باطل میں بجلی کا کڑکا تھا۔
وہ بجلی کڑکا تھا یا صوتِ ہادی عرب کی زمیں جس نے ساری ہلادی
آپؐ ﷺکی یہی آوازِ حق ایک عظیم الشان انقلاب کی ابتداء تھی جس نے دنیائے انسانیت کی تاریخ بدل دی یہ اعلان توحیدکی حیات نو کا پیغام تھا جس نے مردہ دل عربوں میں زندگی کی نئی روح پھونک دی اور پھر دنیا نے وہ منظر دیکھا جس کا تصور بھی نہ تھا کہ قاتل عادل بن گئے، بت پرست بن شکن بن گئے، ظلم وغضب کرنے والے حق پرست اور رحم دل بن گئے، سیکڑوں معبودانِ باطل کے سامنے جھکنے والی پیشانیاں خدائے واحد کے سامنے سرنگوں ہوگئیں، عورتوں کو جانور سے بدتر جاننے والے قطع رحمی اور کمزوروں پر ستم ڈھانے والے عورتوں کے محافظ، صلہ رحمی کے خوگر اور کمزوروں کا سہارا بن گئے، نفرت وعدوات کا آتش فشاں سرد ہوگیا ،محبت و اخوت کی فصلِ بہاراں آگئی، راہزن راہبر اور ظالم عدل وانصاف کے پیامبر بن گئے۔
جو نہ تھے خود راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا
پھر دنیا نے دیکھا کہ ایک امی لقب اعلی نسب رسول ﷺکے فداکاروں نے ایمان وتوحید کی تاریخ مرتب کرڈالی، عدل و نصاف کے لازوال نقوش چھوڑے، وحدت مساوات کی لافانی داستان رقم کردی، فتوحات کی انوکھی تاریخ لکھ دی ،جہانبانی وحکمرانی کے مثالی اصول مرتب کیے، عفت وپاکدامنی کاریکارڈ چھوڑ گئے، وفاداری، فداکاری کے انمٹ نقوش جر یدہ ٔ عالم کی پیشانی پر ثبت کئے ، عظمت ورفعت کی ان بلندیوں پر پہنچے کہ انبیا ومرسلین ؑ میں صرف آپ ؐ کو یہ اونچا مقام نصیب ہوا، ایسا انقلاب دنیا نے کب دیکھا تھا اور کہاں سنا تھا؟؟؟
صبرواستقامت : آپﷺؐ نے دعوت حق اوراعلانِ توحید کی راہ میں اپنے ہی لوگوں کے ایسے ایسے مصائب وآلام دیکھے کہ کوئی اور ہوتا تو ہمت ہار جاتا مگر آپؐ ﷺصبر واستقامت کے کوہِ گراں تھے، دشمنانِ اسلام نے قدم قدم پر آپﷺ کو ستایا، جھٹلایا، بہتان لگایا،کیاکیانہ کہا ،راستوں میں کانٹے بچھائے ،جسم اطہر پر غلاظت ڈالی، لالچ دیا، دھمکیاں دیں، اقتصادی ناکہ بندی کی ، سماجی مقاطعہ کیا، آپﷺ کے شیدائیوں پر ظلم وستم اور جبر واستبداد کے پہاڑ توڑے، نئے نئے لرزہ خیز عذاب کا جہنم کھول دیا کہ کسی طرح حق کا قافلہ رک جائے، حق کی آواز دب جائے، مگر دورِ انقلاب شروع ہوگیا تھا، توحید کا نعرہ بلند ہوچکا تھا، اس کو غالب آنا تھا۔کفار چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور (ایمان واسلام)کو اپنی پھونکوں سے بجھادیں اور اللہ پورا کرنے والا ہے اپنے نور کو اگرچہ کفار اس کا ناپسند کریں۔ خودآپ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: ابتلاء وآزمائش میں جتنا مجھ کو ڈالاگیا کسی اور کو نہیں ڈالاگیا۔ اسی طرح آپﷺ کے صحابہؓ پر جتنے مظالم ڈھائے گئے کسی اورامت میں نہیں ڈھائے گئے۔
ہجرتِ مبارکہ: جب مکہ کی سرزمین آپﷺؐ اور آپؐ کے صحابہ کرام پر بالکل تنگ کردی گئی تب بحکم الٰہی آپؐ ﷺنے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی اور صحابہ کرام ؓنے اللہ کے لیے اپنے گھر بار ، آل و اولاد، زمین وجائداد سب کو چھوڑ چھاڑ کر حبشہ و مدینہ کا رُخ کیا ۔آپﷺ ؐکے حکم پرپہلی ہجرت صحابہ کے ایک گروہ نے حبشہ کی طرف کی تھی، پھر جب آپؐ ﷺ مدینہ تشریف لے گئے تو مدینہ اسلام کا مرکز بن گیا، ہجرت رسول کے بارے میں مفکر اسلام علی میاں ندوی کا یہ جامع اقتباس بہت ہی معنویت رکھتا ہے کہ ہجرت کس جذبہ کانام ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کتنی زبردست قربانی دی تھی۔
’’رسول اللہﷺکی اس ہجرت سے سب سے پہلی بات یہ ثابت ہوتی ہے کہ دعوت اور عقیدہ کی خاطر ہر عزیز اورہر مانوس و مرغوب شئے اور ہر اس چیز کو جس سے محبت کرنے، جس کو ترجیح دینے اور جس سے بہرصورت وابستہ رہنے کا جذبہ انسان کی فطرت سلیم میں داخل ہے،بے دریغ قربان کیا جاسکتا ہے لیکن ان دونوں اول الذکر چیزوں (دعوت وعقیدہ) کو ان میں سے کسی چیز کے لیے ترک نہیں کیا جاسکتا (نبی رحمت)اور ہجرت رسول ﷺ کا یہی پیغام آج بھی مسلمانوں کے سامنے ہے کہ ایمان وعقیدہ اور دعوت و تبلیغ کسی بھی صورت میں ترک کرنا گوارہ نہ کریں یہی دونوں تمام دنیوی و اخروی عزت وکامیابی کاسرچشمہ ہے‘‘۔
آپؐ کی سیرت مبارکہ کی یہ معمولی سی جھلک ہے سیر ت مبارکہ کا مطالعہ اس لیے ضروری ہے کہ اس کے بغیر آپؐ کو ایک مسلمان نمونہ کامل بنانے پر قادر نہیں ہوگا آپؐ جہاں داعی برحق ہیں تو وہیں انسانِ کامل بھی ہیں۔ آپؐ شوہر بھی ہیں آپؐ باپ بھی ہیں، آپؐ والد نسبتی بھی ہیںآ پؐ داماد بھی ہیں، آپؐ تاجر بھی ہیں آپؐ قائد بھی ہیں۔ آپؐ سپہ سالار بھی ہیں آپؐ مظلوم بھی ہیں، آپؐ مہاجر بھی ہیں آپؐ نے زخم بھی کھائے ،آپؐ نے مشقت بھی جھیلی، آپؐ نے بھوک بھی برداشت کی، آپؐ نے بکریاں بھی چرائیں، آپؐ نے سیادت بھی فرمائی۔ آپؐ نے معاملات بھی کئے، آپؐ نے لین دین بھی فرمایا، آپؐ نے قرض بھی لیا، آپؐ نے ایک انسان کی حیثیت سے معاشرہ کا ہر وہ کام کیا جو ایک انسان فطری طور پر کرتا ہے۔ اس لیے آپ ؐکو نمونہ بنائے بغیر نہ کوئی کامیاب باپ، شوہر، خسر، داماد، تاجر وسپہ سالار بن سکتا ہے اور نہ ہی حق تعالیٰ کی کماحقہ اپنی طاقت بھر اطاعت و عبادت کرسکتا ہے۔آپؐ کی سیرت طیبہ حیات انسانی کے ہر گوشہ کا کامل احاطہ کرتی ہے۔آپؐ سے محبت کاتقاضہ ہے کہ ان کے سینہ مبارک پرنازل ہونے والاسب سے بڑامعجزہ ’’قرآن کریم‘‘کوپاکستان جیسی معجزاتی ریاست میں فی الفورنافذکرنے کیلئے اپنی تمام کاوشیں بروئے کارلائیں۔