جموں // وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ ریاست کی تاریخ میں یہ سب سے بڑا جرات مندانہ فیصلہ تھا جب کشمیر کو بھارت کا حصہ بنایا گیا۔قانون ساز کونسل میں گورنر کے خطبے پر بحث سمیٹتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ مہاراجہ ہری سنگھ اور شیخ محمد عبداللہ نے بہت جرات کے ساتھ اس بات کا فیصلہ کیا تھا کہ ریاست کو بھارت کا حصہ بنایا جائے۔وزیر اعلیٰ نے ریاست اور ملک کے تمام طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ آگے آکر ریاست جموں وکشمیر کو غیر یقینیت اورخوب خرابے کے دورسے باہر نکالیں۔ انہوں نے کہا کہ کب تک ہم نوجوانوں کی لاشوں کو دیکھتے رہیں گے ۔انہوں نے کہا کہ تشدد کے اس دورکا خاتمہ ہونا چاہیے ۔انہوں نے اپیل کی کہ ہر ایک اس میں اپنا تعاون دیں ۔وزیر اعلیٰ نے ریاست کے تمام تواریخی راستوں کو دوبارہ سے کھولنے کی سختی سے وکالت کرتے ہوئے کہا کہ جموں وکشمیر اپنی پوزیشن کی بنا پر سینٹرل ایشیا کا گیٹ وے بن سکتا ہے۔وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ہم تواریخ نہیں بدل سکتے تاہم ہم جغرافیائی حالت کو بروئے کار لا کر ایک نئی تاریخ رقم کرسکتے ہیں۔وزیر اعلیٰ نے بھارت اور پاکستا ن کے درمیان مذاکرات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان منافرت کا خمیازہ ریاست کے لوگوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔
ہندو پاک تعلقات
محبوبہ مفتی نے کہا کہ مجھے اس بات کی خوشی ہے عمر عبداللہ نے اسمبلی میںگذشتہ 70برسوں میں مفتی محمد سعید کے تین سالہ دور کا تذکرہ کیا۔ہم مفتی صاحب کی لیڈرشپ کے داعی رہے ہیں کیونکہ انہوں نے ریاست کی صورتحال یکسر تبدیل کی۔انہوں نے ہندوپاک کے درمیان فائر بندی کو ممکن بنایا اور فائر بندی 10سال تک رہی۔2002سے2005تک مرکز اورریاستی سرکار ریاست کی صورتحال کے حوالے سے ایک ہی صف میں تھے۔مرکز اور ریاست کے درمیان خیالات میں مکمل ہم آہنگی رہی۔ہندو پاک کے درمیان تعلقات استوار ہوئے،آر پار تجارت بحال کی گئی،ہاں اس میں کچھ رکاوٹیں ہیں۔منقسم خاندانوں کے ملنے کیلئے نئے راستے تلاش کئے گئے اور سرینگر و مظفر آباد کے درمیان کاروان امن بس سروس کا آغاز کیا گیا۔
ملی ٹینسی
محبوبہ مفتی نے کہا کہ بد قسمتی سے نوجوانوں کی طرف سے ہتھیار اٹھانے کی ایک نئی لہر پیدا ہوئی۔تشدد کی نئی صورتحال پیدا ہوئی جوکہ قطعی طور پر بے مقصد اور نقصان دہ عمل ہے جو کہ کسی بھی طور مثبت نتائج بر آمد نہیں کرسکتی۔یہ کہنا کہ اتنے سارے جنگجوئوں کو ہلاک کیا گیا،کوئی معنی نہیں رکھتا۔ہم نے دو سو کو مارا تو پاکستان مزید دو سو بھیج دے گا اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔انکا کہنا تھا کہ ہم کب تک جنگجوئوں کو مارتے رہیں گے، یہ مار دھاڑ اور تشدد بن ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ مسئلہ تب حل ہوگا جب کشمیر بھارت اور وسطی ایشیاء بشمول پاکستان کیلئے ایک پل بن جائے گا۔
مذاکراتکار کی تقرری
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ہماری حکومت نے دنیشور شرما کی بطور مذاکراتکار تقرری کو ممکن بنایا ہے۔ ان سے قبل بہت سارے سنیئر سیاست دان جیسے سابق ویر اعظم منموہن سنگھ، یشونت سنہا، ڈی راجا اور یچوری علیحدگی پسندوں کے دروازوں پر دستک دینے گئے لیکن انکی طرف سے کوئی مثبت ردعمل نہیں دکھایا گیا۔انہوں نے کہا’’ ہم گھوڑے کو تالاب پر نہیں لیجا سکتے، اسے پانی پینے کیلئے مجبور نہیں کرسکتے‘‘۔
سماجی بہبود اقدامات
وزیرا علیٰ کہا کہ سماجی مربوط کاری کے تحت حکومت نے حکمرانی سنبھالتے ہی ایک اہم فیصلہ لیا اور سال 2008ء سے آگے نوجوانوں کے خلاف کیس واپس لینے کا عمل شروع کیا ۔ انہوں نے کہا کہ کام کاج سنبھالنے کے بعد ہی یہ عمل شروع کیا تاہم 2016ء کی شورش کی وجہ سے اس میں خلل پیدا ہوا۔ انہوں نے کہا کہ اب 2008ء سے لے کر 2017ء تک 9000سے زائد نوجوانوں کے کیس واپس لئے گئے ۔محبوبہ مفتی نے اپنی تقریر میں کہا کہ ان نوجوانوں کو معافی دینے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ یہ نوجوان واپس سماجی دائرے میں آکر اپنی زندگیاں از سر نو شرو ع کر سکیں۔وزیر اعلیٰ نے کہا کہ انہوں نے پولیس سے کہا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں جو مقامی نوجوان ملی ٹنٹ صفوں شامل ہوئے ہیں ان کی اپنے کنبوں اور دوستوں تک واپسی میں ان کی مدد کی جانی چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی کوشش یہ ہوگی کہ یہ نوجوان واپس آجائیں اور انہیں کسی بھی طرح ہراساں نہ کیا جائیں ۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ جن پیلٹ متاثرین کی 2016ء کے نا خوشگوار حالات کی وجہ سے بینائی متاثر ہیں انہیں مالی امداد دی گئی ہے اور ان کے سماجی تحفظ کے لئے نوکریاں بھی دی گئی ہیں۔وزیر اعلیٰ نے کہا کہ حکومت کی طرف سے کئے گئے حالیہ بہبودی اقدامات میں ساٹھ ہزار ڈیلی ویجروںکی نوکریوں کو باقاعدہ بنانے کا کام بھی شامل ہے ۔