سرینگر// فوجی سربراہ جنرل بپن راوت کی طرف سے ریاست میں محکمہ تعلیم کے نظام پر اٹھائے گئے سوال کا سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے وزیر تعلیم سید الطاف بخاری نے دوٹوک الفاظ میں کہا‘‘ فوج شعبہ تعلیم میں مداخلت نہ کریں،اور برعکس اس کے اپنے کام پر توجہ دیں‘‘۔ سرینگر کے ایس پی ہائر اسکینڈری اسکول میں محکمہ تعلیم کی طرف سے2روزہ کتابی نمائش کے حاشیہ پر نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے تعلیم کے ریاستی وزیر نے فوج کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے کام پر توجہ دیں۔ وزیر تعلیم نے نام لئے بغیر کہا کہ فوج اپنے کام پر توجہ دیں اور شعبہ تعلیم میں مداخلت نہ کریں۔انہوں نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہر ایک شعبہ تعلیم پر اب تبصرے کرتا ہے،جو کہ نا قابل قبول ہے۔ان کا کہنا تھا’’یہاں تک ان لوگوں کا،جن کا شعبہ تعلیم سے کوئی بھی واسطہ نہیں ہے، شعبہ تعلیم پر تبصرے کرتے ہیں۔ وزیر تعلیم نے سخت لہجہ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ یہ تعلیم شعبے کا کام ہے،اور وہ جانتے ہیں،کہ اس کو کس طرح چلانا ہے۔ بخاری نے کہا’’غالباً جو لوگ اس بات پر تبصرے کر رہے ہیں کہ ہم کس طرح شعبہ تعلیم کو چلائیں،اپنا کام اچھی طرح سے نہیں کر رہے ہیں،اور اس لئے ہمیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا ’’فوجی سربراہ اس ملک کے ایک متحرم اور معزز عہدیدار ہیں، وہ ایک پیشہ ور افسر ہیں،مجھے ان کی پیشہ ورانہ صلاحیت پر کوئی شک نہیں ہے،لیکن مجھے نہیں لگتا کہ وہ ایک ماہر تعلیم ہیں کہ تعلیم پر خطبات دیں ‘‘۔ انہوں نے کہا ’کوئی بھی سماج غیرتعلیمی ماہرین کی جانب سے تعلیم پر دیے جانے والے خطبات قبول نہیں کرے گا۔ بخاری نے کہا’’مجھے نہیں معلوم کہ وہ (فوجی سربراہ) جانتے ہیں یا نہیں،تعلیم کنکورنٹ لسٹ میں نہیں آتا ہے، یہ ریاست کے ڈومین میں ہے، ہم جانتے ہیں کہ ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو کیسے چلانا ہے‘‘۔ وزیر تعلیم نے کہاکہ ریاست کے اسکولی بچے انتہا پسندی کی طرف نہیں جارہے ہیں،فوجی سربراہ کاکام ہے سرحدوں کی حفاظت یقینی بنانا ، سرحدوں کی حفاظت ہوگی تو تشدد کے واقعات میں کمی آئے گی ،ہمارے تعلیمی نظام میں کوئی خامی نہیں ہے ۔بخاری نے کہا کہ بھارت ایک جمہوری ملک ہے جہاں فوج کا کسی چیز پر کنٹرول نہیں ہے، شاہد انہیں معلوم ہے اور مجھے یہ بہت ہی اچھی طرح سے معلوم ہے۔ ان کا کہنا تھا ’ہماری فوج ایک اچھا کام کررہی ہے ،جو ان کا کام ہے، انہیں وہ کام کرنا چاہیے، جو بحیثیت وزیر تعلیم میرا کام ہے، میں وہ کروں گا، میرا کام ہے بچوں کو تعلیم فراہم کروانا، میں بچوں کو بہت اچھی تعلیم فراہم کرا رہا ہوں، میرے استاد بہت ہی ذہین ہیں، ہمارے بچے بہت اچھے ہیں، ہم اگر کسی کے خطبات پر عمل کریں گے تو وزیر اعلیٰ ہیں‘۔ انہوں نے مزید کہا ’ہمارے پاس دو جھنڈے ہیں، ہمارے پاس اپنا ریاستی آئین ہے، ہر ایک ریاست کا اپنا نقشہ ہے۔،ہر ایک ریاست کے ہر ایک اسکول میں اپنی ریاست کا بھی نقشہ ہوتا ہے، اگر فوج اپنا کام صحیح سے انجام دے گی تو علیحدگی پسندی کہیں جنم نہیں لے گی، اگر وہ اپنا کام صحیح سے کریں گے تو تمام مسائل حل ہوں گے‘۔واضح رہے کہ جنرل بپن راوت نے کہا کہ ریاست کے اساتذہ سکولوں میں طلاب کو دو نقشے سکھا رہے ہیں ، ایک بھارت کا اور ایک جموں و کشمیر کا۔فوجی سربراہ نے کہا کہ ریاست کیلئے دو نقشوں کی ضرورت نہیں ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ریاست کے ہر ایک سکول میں جموں و کشمیر کا الگ نقشہ موجود ہے، اسکے ساتھ ساتھ بھارت کا نقشہ بھی ہے،ایسا ہونے سے بچوں کے ذہنوں میں الگ شناخت ہونے کے بیچ بوئے جانے کا تاثر پیدا کیا جاتا ہے۔راوت نے کہا ’’ اگر آپ کشمیر کے کسی بھی سکول میں جائیں گے تو دو نقشے دیکھیں گے،کیوں جموں و کشمیر کا الگ نقشہ رکھا جائے،اگر آپ ریاست کا نقشہ رکھیں گے تو ملک کی تمام ریاستوں کے نقشے بھی رکھیں، کیوں آپ ملک کا نقشہ رکھیں اور ساتھ ہی بچوں کو بتادیں کہ ہماری الگ شناخت بھی ہے،لہٰذا مسئلہ کی بنیاد زمینی سطح پر ہے کہ کس طرح سکولوں میں تعلیمی نظام کو کورپٹ کیا گیا ہے‘‘۔