سرینگر//ملکی اور غیر ملکی سیلانیوں کی آمد کیلئے زمین کی جنت کہلائی جانی والی جگہ کشمیر میں ان دنوں سیاست سے جڑے ہزاروں افراد مایوسی کاشکار ہیں۔ سیاحوں کی آمد میں کمی کے باعث جھیل ڈل میں ہائوس بوٹ، ہوٹل، دکاندار ، ڈلگیٹ میں پھیری کرنے والے افراد مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔ 2014میں پہلے تباہ کن سیلاب نے سیاحتی ڈھانچے کے شیرازے کو بکھیر دیا اور جب کچھ حد تک اس کو سنبھالا گیااور اس کی بحالی کے آثار نظر آنے لگے تو2016کی عوامی ایجی ٹیشن کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر سیاحتی صنعت متاثر ہوئی۔ ملی و غیر ملکی سیاحوں کے نہ آنے سے ہوٹل ویران،ہاوس بوٹ و شکارہ خالی اور باغات و سیاحتی مقام صحرائی مناظر پیش کر رہے ہیںجس کی وجہ سے سیاحت سے جڑے کاروباری اور دیگر منسلک لوگوں کا نان شبینہ بھی اب خطرے میں پڑ گیاہے۔امسال بھی کھبی نامسائد حالات،تو کھبی این آئی کی چھاپہ ماری ، کبھی قومی میڈیا کا بڑھا چڑھاکر حالات کو ناموافق قرار دینے کا پروپگنڈہ اور کھبی خواتین کی پراسرار گیسو تراشی تو کھبی امرناتھ یاتریوں پر حملہ کی وجہ سے سیاحتی صنعت بحال نہ ہوسکی۔سیاحت سے جڑے افراد اگر چہ آنکھیں بچھائے مہمانوں کا استقبال کرنے کیلئے تیارہیں تاہم بیرون ریاستوں کے سیاحوں کی بہت کم تعداد نے جہاں وادی کا رخ کیاوہی غیر ملکی سیاح بھی نظر نہیں آئے۔وادی میں موسم خزان بھی سیاحوں کیلئے باعث کشش ہے خاص کر چناروںسے گرتے سنہرے پتوں کا دلفریب منظر، برف سے ڈھکے گلمرگ اور پہلگام کے میدان ہوتے ہیںجن کو دیکھنے کیلئے ہزاروں میل سے دور سیاح کشمیر کا رخ کرتے ہیں۔سیاحت سے جڑے کئی تاجروں کا کہنا ہے کہ وادی میں سیلانیوں کی آمد میں کمی،مرکزی حکومت اور میڈیا کی سخت پالیسی اور پرپگنڈہ کا نتیجہ ہے جو ہر چیز کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔اگر چہ ریاستی سرکار نے بھی سیلانیوں کی توجہ وادی کی جانب مبذول کرانے کیلئے کافی روڑ شوز کئے اور گایک لکی علی سے لیکر عدنان سمیع تک کو مدعو کیا گیاتاہم سب کچھ ٹائی ٹائی فش ثابت ہوا۔