حالیہ ایام میں وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے بار بار یہ دہائی دی ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے تعلقات میں بہتری لانے کےلئے بات چیت کا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔جبھی ریاست جموںوکشمیر میں حالات سدھرنے کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں اور یہاں کےعوام کو آتش و آہن کے اُس طوفان سے نجات مل سکتی ہے، جسکا وہ گزشتہ 28برسوں سے سامنا کرتے آرہے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے یہ باور کرانے کی واضح کوشش کی ہے کہ برصغیر کے دو نیوکلیائی ممالک کے درمیان تعلقات میں سدھار کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے دونوں ممالک سے سوالیہ انداز میں پوچھا کہ آخر کب تک ریاست کے لوگ اس آگ میںجھلستےرہے گے۔یہ پہلا موقع نہیں ہے جب وزیراعلیٰ نے یہ باتیں کہیں ہوں، لیکن ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ کہیں نہ کہیں ایسے حلقے ضرور ہیں، جنکے مفادات ایسے حالات سے وابستہ ہیں، جبھی تو وزیراعلیٰ ہی نہیں بلکہ برصغیر کے مثبت سوچ رکھنےوالے حلقوں کے اسی نوعیت کے خیالات کو نہ تو بھارت میں پذیرائی حاصل ہوتی ہےا ورنہ ہی پاکستان میں ۔حالیہ برسوں کے دوران اس حوالے سے ایک منضبط سلسلہ سامنے آیا ہے کہ جس میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ میڈیا کا ایک مخصوص حلقہ بھی پیش پیش رہا ہے، جو کشمیر کے حالات کو اپنا موضوع بنا کر اپنے سیاسی و مادی مفادات کی تکمیل کر رہا ہے، لیکن ا س کے توسط سے سب سے بڑا نقصان یہ رچایا جا رہا ہے کہ کشمیر، کشمیری عوام کی فطرت اور سوچ پرایسے بےبنیاد سوالیہ نشان لگائے جارہے ہیں جنکی وجہ سے بھارت بھر میں رائے عامہ کو گمراہ کرنے کوشش ہو رہی ہے اور ریاست کے باہر یہاں کے لوگوں، جن میں تاجر، طالب اور مسافروغیرہ شامل ہیںکو شدید مشکلات کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے۔ ایسےحالات میں یہاں کا سیکورٹی نظام بھی ان تعصبات سے پاک نہیں ہو رہا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو غالباً فوج کےسربراہ نےریاست کے تعلیمی نظام کو تنقید کا نشانہ بنا کر اسے انتہا پسندی کے فروغ کا ایک سبب جتلانے کی کوشش نہ کرتے ۔ حالانکہ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ جموںوکشمیر کی اپنی ایک تاریخ، جغرافیائی تحصیص اور فکر وکلچر رہا ہے۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ برصغیر کی تاریخ کی قدیم ترین تحریری دستاویزات کشمیر سےتعلق رکھتی ہیں۔ اب جہاں تک نظام تعلیم کا تعلق یہ اُسی نظام تعلیم کی ترقی یافتہ شکل ہے، جو برطانوی دور حکومت میں براہ راست برطانیہ کے کنڑول والے علاقوں اور راجواڑوں میں فروغ پذیرتھا اور وہی نظام آگے چل کر موجود نسل تک پہنچا ہے۔ اسکی تخصص کسی ایک ریاست یا خطے سے نہیں بلکہ ملک کی تمام ریاستوں میں مقامی ضروریات کے مطابق اسکی تشکیل ہوئی ۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے ریاست جموںوکشمیر نے 1947کے بعد ملک کے کئی نامور ماہرین تعلیم کی خدمات حاصل کرکے اس نظام کو بدلتے وقتوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ ایسے حالات میں اگر کشمیر کے اندر حالات کی خرابی کے لئے تعلیمی نظام کو ایک عنصر کے طور ٹھہراجائے تو یہ تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کے مترادف ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست میںدائیں بازو کی ہند توا نظریات کی حامی جماعتوں کے سوا تمام سیاسی جماعتوں و سماجی حلقوں نے اس بیان کو مسترد کر دیا ہے، یہاں تک کہ ریاستی اسمبلی میں بھی اس پر ہنگامہ ہوا، کیونکہ اس طرح ریاست کی آبادی کے ایک بڑےحصہ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ظاہر بات ہے کہ ایسا عمل کبھی بھی مثبت نتائج کا حامل نہیں ہوسکتا۔ جموںوکشمیر کی موجودہ صورتحال پر بات کرتے ہوئے برصغیر ہندوپاک کے ساتھ جُڑے اُن سارے حالات کو زیر نظر رکھنے کی ضرورت ہے، جواب تک دونوں ممالک کے درمیان تین بڑی جنگوں کا باعث بن گئے ہیں اور اب دبے لفظوں میں نیوکلیائی تصادم کے خطرات کااظہار بھی کیا جا رہا ہے۔ اگر خدانہ کرے ایسے حالات پیدا ہوئے تو برصغیر کے کروڑوں عوام پر اسکے اثرات کیا ہوسکتے ہیں، اسکے بارے میں تصور کرنا بھی ایک اعتبار سے گناہ کے مترادف ہے۔ لہٰذا حکومتوں کے ذمہ دار اداروں کو ایسے تمام کوائف کو زیر نظر رکھ کر اپنی پالیسیاں مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ ایل او اسی پر فی الوقت جو صورتحال بنی ہوئی ہے، اُس سے دونوں ممالک کی سرحد ی آبادیا ں تختہ مشق بنی ہوئی ہیں اور دونوں جانب سے ان علاقوں میں زیر زمین بنکر تعمیر کرنے کے منصوبے زیر ترتیب ہیں ظا ہر ہیں۔ ایسے منصوبوں پر ہزاروں کروڑ روپے کے اخراجات ہیں۔ اسی طرح تصادم آرائی کےحامل علاقوں میں کشیدگی سے نمٹنے کےلئے سیکورٹی انتظامات کو نئے تقاضوں اور نئی ضرورتوں سے ہم آہنگ کرنے کےلئے اخراجات کا عفریت ہمیشہ منہ کھولے عوامی مفادات کو نگلنے کے درپے رہتا ہے۔ اس اعتبار سے صورتحال کو دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی جائے تو یقینی طور پر ایک ایسی مثبت سوچ اور انداز فکر کو فروغ مل سکتا ہے، جو تصادم آرائیوں اور کشیدگیوں میں تحفیف کا سبب بن سکتا ہے۔ ریاست کی وزیراعلیٰ سیکورٹی اداروں کی متحدہ کمان کونسل کی سربراہ بھی ہیں، لہٰذا اُنہیں اُس مثبت انداز فکر کو آگے بڑھانے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کرنا چاہئے۔ جسکی وہ وکالت کرتی ہیں اور جسے وہ پی ڈی پی کی فکر ی بنیاد قرار دے رہی ہیں۔ حالیہ ایام میں مرکزی حکومت نے دنیشو شرما کو مذاکرات کار کے طور پر تعینات کرکے ایک عندیہ دینے کی کوشش کی ہے، لیکن انکا منڈیٹ کیا ہے، وہ کسی کو خبر نہیں۔ تازہ خبروں کے مطابق بھارت اور پاکستان میں خفیہ طور پرقومی سلامتی اداروں کی سطح پر مذاکراتی عمل چلایا جا رہا ہے تو پھر کھلم کھلا سیاسی سطح پر مذاکرات کا سلسلہ شروع کرنے میں کیا روکاوٹ ہے۔ یہ عوامی حلقوں کا سوال جسکا جواب حکومتی حلقوں کو دینا چاہئے۔