پاکستان کا شہر قصور سخن ور بھلے شاہ کی جنم بھومی اور آرام گاہ ہونے کی وجہ سے مشہور ہے مگر پچھلے دنوں جب سات سالہ معصوم کلی زینب کی عصمت ریزی اور قتل ِ عمدکا المیہ وہاں پیش آیا تو یہ شہر بدنامی کے گردوغبار میں اَٹ گیا۔ کہاجاتاہے کہ یہ سات سالہ معصومہ قرآن پڑھنے کے لئے اپنی ہمسائیگی میں جارہی تھی کہ کسی آدم خور درندے نے اسے راستے میں ہی دبوچ کر نوچا اور بھنھوڑا، پھرانسانیت کے ا س بد ترین مجرم نے اپنے ناقابل معافی جرم کی پردہ پوشی کے لئے ایک اور سنگین قدم اٹھاتے ہوئے زینب کو جان سے مارڈالا ۔ یوں وہی کہانی دہرائی گئی جو کبھی بد نام زماں رنگا اور بلا نے سنگدلی کی انتہا کر تے ہوئے دلی میں کم سن سنجے چوپڑاور گیتا چوپڑا کی موت کے عنوان سے لکھی یا جو کامنی کی آبروریزی اور مظلومانہ ہلاکت کی شکل میں دلی کو ہی نہیں بلکہ پورے انڈیا کو ہلاکر رکھ گئی۔ آج کل پاکستان میں زینب کے ساتھ پیش آیا سانحہ وہاں کے عوامی حلقوں میں موضوع ِ بحث بناہوا ہے ، بالکل اسی طرح جیسے یہاں چودہ برس کی معصوم کلی آروشی تلوار کو ساڑھے پانچ سال بعد سی بی آئی عدالت سے قتل ِعمد کے ناقابل برداشت جرم میں غازی آباد کی کم سن مقتولہ کے پتا ڈاکٹر راجیش تلوار اور ماتا نُپر تلوار کو آروشی اور گھریلو نوکر ہیمراج خون ِ ناحق کا مجرم ٹھہرا کر جیل میں ٹھونس دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ کچھ عرصہ قبل ہی قتل کے جرم سے بّری ہوکے دونوں میاں بیوی اب جیل سے رہا کئے گئے ہیں ۔ بہر کیف صنف ِنازک کے ساتھ اس طرح کے خون کھول دینے والے سانحات کا پیش آ نا جدید دنیا کے چہرے پر زناٹے دار طمانچہ ہے ۔ اور ان ناقابل برداشت واقعات کا تسلسل بتارہاہے کہ عالم ِدنیا سے انسانیت رخصت ہوچکی ہے ، سماجی قدروں کی شکست وریخت مکمل ہوچکی ہے، اخلاقی زوال اپنے بام ِ عروج پر پہنچا ہوا ہے ۔ غالباً اس کے بعد اب صرف قیامت کا بگل بجنا باقی رہاہے ۔ حق یہ ہے کہ زینب جیسے المیوں کی دُھوم اور دلدوز واقعات کی گونج انسانی دنیا میں اب ہرروز سنائی دیتی ہے۔اس پر اربابِ اقتدار crime against women میں ملوث مجرموں کی سرکوبی کی لاکھ قسمیں وعدے کرتے ہیں مگر لیکن اس کے باوجود صنف نازک کے خلاف جرائم کا سلسلہ روکے کیوں نہیں رُکتا ، یہ خود میں ایک چیستاں اور معمہ ہے ۔ کچھ سال قبل کی بات ہے جب میڈکل کی طالبہ دامنی کی چلتی گاڑی میں دامن ِ عصمت درندہ صفت مجرموں نے اجتماعی طور پامال کر کے اُسے زخمی حالت میں سر ارہ چھوڑدیا کہ بالآ خر وہ پر لوک سدھار گئی ۔ اس المیہ نے پورے ملک کو سر تا پا جنجھوڑ کے رکھ دیا ، فوراًسے پیشتر حقوق ِ نسواں کی آوازیں جا بجا اُبھریں ، حکومتی سطح پر بنت ِحوا کی محافظت کے لئے سخت قانون وضع کر ڈالے گئے مگر اس کے باوجود صنف ِنازک کاقتل ناحق ، عصمت ریزیاں ا ور جنسی استحصال کی داستانیں آسارام ، سائیں نارائن اور’’ تہلکہ‘‘ کے مدیر ترن تیج پال تک پھیلتی ر ہیں ۔ یہ شرمناک داستانیں عندیہ دے رہی ہیں کہ حوا کی بیٹیوں کے لئے معاملہ سدھرنے کی بجائے اور زیادہ بگڑ رہاہے کیونکہ اصل بات یہ ہے کہ انسانوں کے ضمیر خفتہ اور اخلاق کے سوتے خشک ہوچکے ہیں۔ اوروں کی کیا بات کریں، ہمارے یہاں بھی بنت حوا کے تعلق سے معاملہ ٹھیک ٹھاک نہیں ۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ وادی ٔ کشمیر کو یہ اختصاص و اعز از رہا ہے کہ یہاں زمانۂ قدیم سے ماں بہن بیٹی کی عزت وناموس کو ہر چیز پر فوقیت ملتی رہی ۔ آج بھلے ہی ماضی کی اچھائیاں ایک ایک کر کے ہم سے بچھڑ رہی ہوں مگرخرابی ٔ بسیارکے باوجود آج بھی عوامی سطح پر کسی فرد بشر یا کسی گھرانے اور خانوادے کے بارے میں شرا فت و تہذیب کا معیار یہ دیکھ کر متعین کیا جا تا ہے کہ آیااس کے یہاںبنت حواکی تکریم وتقدیس قائم ودائم ہے اور کیا گھر کے افراد میں بہو بیٹیوں کے لئے غیرت وحمیت موجود ہے۔ ہمہ گیر اخلاقی زوال کے باوجودسماج میں اب بھی رشتوں کے ردو قبول میں یہ دیکھا جا تا ہے کہ متعلقہ گھرانہ مستورات کے لئے شریفانہ رویہ اور نرم گوشہ رکھتاہے یا نہیں ۔ افسوس صد افسوس! اب آہستہ آہستہ زمانے کی ناہنجار یوں سے سب کچھ اُلٹ ہو نے لگا ہے کیونکہ معاشرے کی جھولی وصاف ِ حمیدہ سے بڑی تیزی سے تہی دامن ہو تی جا رہی ہے۔ اس ضمن میںپے درپے جنسی زیادتیوں کی شرم ناک کہانیاں اور دلخراش قصے بھی ہواکے رُخ کا پتہ دیتے ہیں۔ اس بارے میں بسااوقات ہمارے یہاں ایسی منحوس خبریں منظر عام پر آرہی ہیں جوانسانیت وشرافت کے منہ پر ایک زور دار تھپڑ قرار پاتی ہیں ۔ان خبروںسے یہ تلخ حقیقت اخفاء کے سو پردے چاک کر کے تا ثر یہ ملتاہے کہ کل تک جو چیز کشمیری سماج میں نا پید تھی وہ اب شیطان کے بہکاوے میں معمول کا قصہ بن رہی ہے ۔ مثلاً چند سال قبل بدنام زماں تابندہ غنی کاالمیہ وقوع پذیر ہواتو کشمیر کے ہر حساس دل انسان کیلئے یہ ناقابل مندل زخم اجتماعی درد کی ٹیسیں اُٹھاتا رہا ۔ آج برسوں بعد بھی اس مظلومہ کے والدین ، اہلِ خانہ ،سہیلیاں اور عام لوگ اس عبرت ناک وا قعہ پر اَنگشت بدنداں ہیں ۔ امر واقع یہ ہے کہ جس طرح زینب کے مجرم کو ( اگر وہ واقعی پکڑا جائے ) پھانسی دے کر بھی اس پھول چہرہ بچی سے اب اس کے لواحقین قیامت کو ہی ملیں گے ، یا دامنی کے مجرموں کو پھا نسی چڑھا نے سے وہ بچاری واپس نہیں آسکتی اورنہ تا بندہ کے ملزموں کو سزا ہو نے سے اس معصومہ کی زندگی واپس لوٹ سکتی ہے مگر کم ازکم ان کے غم زدہ اہل ِخانہ کو یہ تسلی ملے گی کہ ہم نے مقتولہ کے تئیں اپنی ذمہ داری پوری کی۔ حقیقت حال یہ ہے کہ یہ ایک زینب کی ہی سرگزشت نہیں بلکہ رومانہ جاوید اور صبرینہ فیاض وغیرہ جیسی معصوم مقتولہ بچیوں کے ساتھ بھی ابھی انصاف ہو نا باقی ہے۔ حقوق ِ نسواںکا احترام اس امر کا متقاضی ہے کہ جو لوگ کسی ماں بہن بیٹی کی سر چادر سے کھلواڑ کرنے کے مجرم قرار پائیں،اُ نہیں یہ سخت الفاظ میں وارننگ ملے کہ نہ صرف قانون بلکہ سماجی و مملکتی نظم ونسق چلانے پر مامور تمام افراد اور ادارے اس امر پر متفق علیہ ہیں کہ یہاں کسی بھی خاتون اور دشیزہ یا معصومہ کی عزت کو نیلا م کیا جا سکتا ہے اور نہ کسی کی عزت اور زندگی پر بلا روک ٹوک ڈاکہ ڈالا جاسکتا ہے ۔ سماج کے وسیع تر مفاد میں یہ امر لازم ہے کہ انصاف کے تمام تقاضوں کو ترجیحی بنیا دوں پر پورا کر کے بنت ِحوا کے خلاف تازہ اور پرانے کیسوں کو سریع الحر کت عدالتوں کے ذریعے نپٹایا جا ئے اور جرائم میں ملوثین کو جلدازجلد قانون کے عین منشا ء کے مطابق قرار واقعی سزا دی جا ئے تاکہ صنف نازک کی عزت و تکریم کو کسی گوشے سے بھی بھٹہ نہ لگے ۔بصورت دیگر ہمیں اور کئی زینبوں کو خدانخواستہ انسانی ہوس کے پنجوں میں بے موت مر تا دیکھنا پڑے گا ۔