جنوبی کشمیر کے ضلع کولگام کےریڈوانی علاقہ میں گزشتہ روز تلاشی آپریشن کے دوران فورسز اہلکاروں کی جانب سے کئی رہائشی مکانوں اور دیگر املاک کی توڑ پھوڑ کے واقعات دیکھ کر 1990کے دور کی وہ یادیں عود کر آتی ہیں ، جب اس نوعیت کی کاروائیاں وادی کے طو ل وعرض میں دیکھنے کو ملتی تھیں۔ تاہم بعد اذاں حکومت اور سیکورٹی اداروں کی جانب سے ایسی کاروائیوں کے منفی اثرات کا احساس کرکے اس طریقہ کار میں تبدیلی لائی گئی اور کافی عرصہ تک ایسی شکایات کا آنا تقریباً بند ہوگیا تھا۔ سال 2016کے دوران جنوبی کشمیر میں ہی اگر چہ ایسے کچھ واقعات پیش آئے تھے تاہم ریاستی پولیس کے سربراہ نے اُس وقت یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ سیکورٹی اداروں پر یہ باور کیا جائے گاکہ وہ کسی بھی قسم کی کاروائی کے دوران معیاری ضابطہ کار، جیسے عرف عام میںSOPکہاجاتا ہے ،کو مدنظر رکھا کریں۔ اگر چہ زمینی سطح پراسکے کچھ نہ کچھ اثرات ضرور دیکھنے کو ملے تھے، تاہم حالیہ ایام میں اس وباء نے پھر سر اُٹھانا شروع کر دیاہے۔چنانچہ ریڈوانی میں خبروں کے مطابق 36مکانات کی اور 10نجی گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کی گئی جبکہ ایک گھر کے باہر کھڑی موٹر سائیکل کوبھی نذر آتش کر دیا گیا۔ اس واقع کے تصویری شواہد سے یہ بات سامنےآئی ہے کہ فورسزاہلکاروں نے گھروں کے اندر استعمال کے سازو سامان کو نقصان پہنچانے کے علاوہ روز مرہ اشیاء کے اتلاف کا بھی ارتکاب کیا ہے۔ اس طرح کی کاروائی کسی بھی عنوان سے قانونی کام قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس میں شک نہیں کہ فورسز اہلکاروں کو اپنے فرائض کی ادائیگی کے سلسلہ میں جنگجوئوں کے ٹھکانوں پر کاروائی کرنے یا انہیں تلاش کرنے کا حق حاصل ہے اور اس سے اختلاف بھی نہیں کیا جاسکتا، لیکن تلاشی کاورائی کے نام پر انکے اہل خانہ یا ہمسائیہ گان کو نشانہ بنانا قانونی اعتبار سے درست نہیں ہے، کیونکہ اس طرح اُیسے لوگوں کے بنیادی اور انسانی حقوق تلف ہو جاتے ہیں ،جنکا کسی قسم کے تشدد کے ساتھ براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا اور انہیں جنگجوئوں کا رشتہ دار یا ہمسایہ ہونے کا خمیازہ اُٹھانا پڑتا ہے۔ایسی صورتحال طور پر سیاسی او ر سماجی حلقے برہمی کا اظہا ر کررہے ہیں۔خاص کر موسم سرماء کے ان ایام میں جب کہ لوگوں کےلئے گھر وں میں رکھے غذائی اجناس کے سٹاک زندگی اور موت کی اہمیت رکھتے ہیں۔ ریڈونی معاملہ پر کل ریاستی اسمبلی کے اندر بھی بحث و مباحثہ ہوا، جب ایک ممبرا سمبلی نے اس معاملےپر ایوان کی توجہ مبذول کرائی۔ اگر چہ حکومت کی طرف سے عام طور پر ایسے معاملات کی تحقیقات کرکے کاروائی کرنے کی ہمیشہ یقین دہانیاں کرائی جاتی ہیں لیکن ہر مرتبہ معاملہ کو ٹھنڈا ہو جانے کے بعد آیا گیا کر دیا جاتا ہے۔ ایسا بار بار کیوں ہو رہا ہے؟ ریاستی حکومت ، جو عوامی نمائندگی کے دعویدار ہے، کو اس کا جائزہ لیکر اس کے سدباب کے تلاش کےلئے متحرک ہونا چاہئے۔ وگر نہ اگر ایک جانب عوام الناس کو اپنےساتھ امن کی راہ پر چلانے کے دعوے کئے جائیں اور دوسری جانب عام لوگوں کو ہی ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے تو یہ دہرا معیار ٹھہرتا ہے۔ جنگجوئوں اور انکے معاونین کے خلاف کاورائیاں حکومت اعلاناً کرتی ہے لیکن اگر ان کاروائیوں کے دوران عام شہری ، جنکا تشدد کے ساتھ دور کا واسطہ بھی نہیں ہوتا،نشانہ بنیں تو اس کے لئے جواز تلاش کرنا مشکل ۔ انتظامیہ کی جانب سے بار بار یہ یقین دہانیاں کرائی جاتی ہیں کہ قانونی اختیارات سے تجاوز کرنےوالے اہلکاروں کےخلاف قرار واقعی کاروائی ہوگی، لیکن بالآخر کہیں ایسا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ اگر چہ ماضی میں چندمعاملات کو درخوراعتناء سمجھ کر قانونی کاروائی کی شروعات بھی کی گئی لیکن ان کا کوئی ایسا نتیجہ سامنے نہیں آیا، جن سے ایسے واقعات پر روک لگ جاتی ، فی الوقت نئی دہلی سے لیکر سرینگر تک حکومتیں یہ بارو کرانے کی کوششیں کی جارہی ہیںکہ حالات میں بہتری لانے کےلئے سماج کے ہر طبقے کو ساتھ لیکر چلنے کی کوشش کی جائے گی، جسکے حصول کےلئے ایک مرکزی مذاکرات کار کی تعیناتی بھی عمل میں لائی گئی اور جس نے ابھی تک کئی دورے بھی کئے ہیں۔ ایسے ماحول میں اگر شہریوں کی املاک کو اس عنوان سے نقصان پہنچایا جائے تو یقینی طور پر ایسی کوششوں کا بنیادی مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ حکومت قانونی اور آئینی اعتبار سے چونکہ عام شہریوں کے جان و مال کے حفاظت کی ذمہ دار ہے لہٰذا ریاستی سرکار کو اس صورتحال کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیکر اپنے فرائض کی انجام دہی کے لئے مؤثر طریقہ کار وضع کرنا چاہئے۔ وگرنہ اگر ایسے معاملات کو نظر انداز کر دیا جائے تو یقینی طور پر اس سے ایک ایسی فضاء کو پنپنے کا موقع ملیگا، جس میں صورتحال بہتر ہونے کے امکانات مزید معدوم ہونے کا اندیشہ ہے، جو ظاہر ہے کہ کسی کےمفاد میں نہ ہے۔ فی الوقت ریاستی انتظامیہ کو ریڈونی کے متاثرین کے نقصانات کا جائزہ لیکر ان کے نقصان کی بھر پائی کرنے میں کوئی تاخیر نہیں کرنی چاہئے نیز حکومت کو اس طریقہ ٔ کار کو ایک رجحان بننے سے روکنے کےلئے معاملہ متعلقہ اداروں کے ساتھ اُٹھا کر اپنا بنیادی فریضہ ادا کرنا چاہئے۔