فوجی سربراہ جنرل بپن راوت کو شبہ ہے کہ کشمیر کے تعلیمی نصاب میں بھارت کی تاریخ، ملک کے نقشہ، قومی ترانہ یا دیگر عناصر کی بجائے کشمیر کی تاریخ، یہاں کے نقشہ اور یہاں کی ثقافتی تاریخ کا غلبہ ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ مقامی روایات سے مانوس ہوکر کشمیری نوجوان بھارت سے جدا ایک علیٰحدہ شناخت کے خوگر ہوجاتے ہیں اور بتدریج وہ انتہاپسندی یا تشدد کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔
اس اعتراض کے تین پہلو ہیں۔ اول تو یہ کہ کیا واقعی ایسا ہوتا ہے ؟اور اگر ہورہا ہے تو مرکزی نصاب پڑھانے والے جواہر نودھیا ودھیالیہ سے فارغ ذاکر موسیٰ اور منان وانی کے ہاتھ میں بندوق نہ ہوتی۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ کیا کشمیری نظام تعلیم کے حکام نے جو کچھ کشمیریت کے نام پر نصاب میں شامل کیا ہے وہ تو نوجوانوں کو وادی کی ہندو تاریخ اور سنسکرت روایات سے جوڑتا ہے۔ اس میں نہ شاہ ہمدان کے کارناموں کا مفصل ذکر ہے نہ شیخ امام الدین کی لالچوک میں لڑی جنگ کا، نہ 1920کی دہائی میں مظلوم شالبافوں کی تحریک کا تذکرہ ہے اور نہ کہیں 1931کے قتل عام کا عندیہ، اس میں نہ سرکاری طور مسلط کی گئی قحط سالی کا اشارہ ہے اور نہ ڈوگرہ راج کے بیگار کا۔ پھر ایسا کیا ہے جس سے نوجوان ریڈکلائز ہورہا ہے؟ جنرل راوت کے بیان کا تیسرا پہلو یہ ہے : جب فوجی سربراہ تعلیمی نظام کو سیکورٹی پالیسی میں حائل رُکاوٹ کے طور پیش کرے تو ایسا لگتا ہے کہ تعلیم کو محض ایک کونٹر انسرجنسی پروجیکٹ کے طور دیکھا جارہا ہے اور اسی بنیاد پر اس کے حسن و قبح پر سیاسی قیادت نہیں بلکہ فوجی قیادت کلام کرتی ہے۔
وزیر تعلیم الطاف بخاری نے بجا طور پر اس بیان کو قابل اعتراض قرار دیا ہے۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ فوج سرحدوں کی حفاظت کرے ،ہم جانتے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔لیکن جنرل راوت کے بیان میں ایک نیا خدشہ پنہاں ہے۔ یہ خدشہ کشمیرمیں پنپ رہی ذیلی قوم پرستی (Subnationalism)سے متعلق ہے۔ اب مسلہ یہ ہے کہ کیا جموں کشمیر واحد ریاست ہے جہاں مقامی روایات، مقامی سیاسی اقدار اور مقامی شناخت یا مقامی تہذیب سے لوگ اُنس رکھتے ہیں۔ یہاں تو خیر بھارت نواز سیاست دان بھی خود کو بھارت نواز کہلانا پسند نہیں کرتے، کیونکہ بھارت کا اقتدار اعلیٰ کشمیر کے اجتماعی ضمیر نے قبول نہیں کیا ہے۔ ایسی ریاستیں بھی ہیں بھارت میں جہاں کے تعلیمی نظام ہی نہیں بلکہ سیاسی لہجے میں اُس بھارتیت کا شائبہ تک نہیں ملتا جس کا غلبہ جنرل صاحب ہمارے یہاں کے تعلیمی نظام میں چاہتے ہیں۔
2004 میںمجھے جنوبی ہند کی ساحلی ریاست تمل ناڈوجانے کا اتفاق ہوا۔ ملک کے جنوب میں آخری سرے پر واقع ناگاپٹنم سے لوٹے تو چنئی ریلوے سٹیشن کے ریزرویشن کونٹر پر کچھ بھیڑ تھی، اور بعض لوگ شورشرابہ کررہے تھے۔قصہ یوں تھا کہ شمالی ہند سے تعلق رکھنے والا ایک مسافر ریزرویشن کا فارم ہندی میں بھر کرلایا۔کلرک نے کونڑ کے باہر لگی تختی کی طرف اشارہ کیا اور کہا ’’آنلی تمل آر انگلش‘‘ یعنی فارم کی عبارت صرف انگریزی یا تمل میں لکھو۔ اس پر مسافر بپھر اُٹھا ، اور راشٹر باشا ،راشٹرا باشا چلانے لگا۔ اس کا مطلب تھا کہ ہندی تو قومی زبان ہے، اور پھر چنئی بھی ہندوستان ہے۔ اس پر کلرک صاحب نے فارم لیا اور پھاڑ کر مسافر پر چلایا: ’’ناؤ آنلی تمل‘‘، یعنی اب صرف تمل میں ہی فارم لوں گا۔ ایک تمل صحافی ہمراہ تھے، میں نے استفسار کیا کہ تمل لوگ خود کو ہندوستانی نہیں سمجھتے؟ انہوں نے جواب دیا، جی سمجھتے ہیں، لیکن ہم پہلے تمل ہیں پھر ہندوستانی۔
اس نہایت سادہ لہجے میں تمل شناخت اور تمل علیحدگی پسندی کی کوئی صد سالہ تاریخ ملفوف تھی۔ ماضی قریب میں تمل ناڈو کے سی این
انادُورائے عرف’’ انا‘‘ اور ای وی راماسوامی نائیکر عرف ’’ایوی یار‘‘تمل ناڈو کی مقامی شناخت اور اس سے جڑی سیاست کے سُرخیل رہے ہیں۔دونوں نے دراوڑ منیترا کاگام یا ’’ڈی ایم کے‘‘ اور دراوڑ کاگام یا ’’ڈی کے‘‘ نام سے جو سیاسی تنظیمیں بنائیں انہوں نے آئین پر حلف اُٹھانے کے باوجود نئی دلی کی مسلط کردہ قوم پرستی کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔ آج بھی تمل ناڈو میں دراوڑیت کو بھارتیت پر ترجیح دی جاتی ہے۔ تمل ناڈو میں تو یوںکہیے کہ اٹانومی کے نعرے پر دو دہائیوں تک باقاعدہ تحریک چلی ہے، اور یہ وہ زمین ہے جہاں برہمن بالادستی کے خلاف اجتماعی سطح پرایک صدی پہلے عوامی مزاحمت اُبھری تھی۔
شمال مشرقی ریاستوں کے بارے میں ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں۔ آسام انگریزوں کے غلبے سے قبل ایک علیحدہ سلطنت تھی، برطانوی حکام نے انتظامی سہولت کے لئے بھارت کا حصہ بنادیا اور نتیجہ یہ کہ آسام ہی نہیں بلکہ شمال مشرق کی ساتوں ریاستوں میں ساٹھ سال سے مسلح مزاحمت جاری ہے۔ میزورم کے مزاحمتی رہنما لال ڈینگا خود کو جنرل لال ڈینگا کہتے تھے، اور انہوں نے اپنی ملیشیا لے کر دلی پر فوج کشی کا عہد باندھا تھا۔لیکن بعد میںوہ اسی ریاست کی مین سٹریم سیاست کے امام قرار پائے۔چونکہ ان ریاستوں کا ہمسایہ پاکستان نہیں ہے اور نہ پاکستان کی وہاں کوئی تذویراتی سٹیک ہے، لہذا وہاں کے حالات میڈیا کی سرخیوں میں جگہ نہیں پاتے۔خالصتان کی تحریک کو بھی اسی پس منظر میں دیکھئے، 1980کی دہائی کے دوران سکھوں اور برہمنوں کی تاریخی مخاصمت نے ذیلی وطن پرستی کی سوچ کو جنم دے کر جدید بھارت میں ایک نئی مزاحمت کو اُبھارا جسے بے تحاشا طاقت سے کچل دیا گیا۔ لیکن اب بھی پنجاب میں پنجابیت پر کوئی اعتراض نہیں کرتا۔مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سلطنت اور ان کے کارنامے وہاں کے سکولی نصاب کا اہم جزو ہیں۔
جب سے پورے بھارت کو ایک ہی نظریاتی سانچے میں ڈھالنے کی کوششیں تیز ہوگئیں ہیں، تب سے ملک کے مختلف خطوں میں ذیلی قوم پرستی کا رجحان مزید تقویت پارہا ہے۔ تیلنگنا اور آندھرا پردیش ، اترپردیش، مہاراشڑا وغیرہ میں مقامی کلچر اور تاریخ کے بارے میں کوئی سمجھوتہ نہیں ہوتا۔ مہاراشٹرا میں تو تکیہ کلام ہی جے مہاراشٹرا ہے، نہ کہ جے ہند، اور مجال ہے کوئی ہندی کو مراٹھی پر برتری دے۔گزشتہ چند ماہ سے جنوبی ہند کی کرناٹک ریاست میں مقامی پرچم پر خوب بحث ہورہی ہے۔ وہاں کے وزیراعلیٰ نے علی الاعلان کہہ دیا ہے کہ بھارتی آئین میں ایسی کوئی ممانعت نہیں کہ کوئی ریاست اپنا علیحدہ پرچم نہیں رکھ سکتی ۔ انہوں نے سیکریٹریٹ پر ریاست کا اپنا پرچم لہرا دیا ہے۔پورے بھارت میں یہ سب کچھ ہورہا ہے، اور لے دے کے جنرل راوت کو کشمیر کی انفرادیت کھٹکنے لگی ہے۔ حالانکہ جموں کشمیر دیگر بھارتی ریاستوں کی طرح نہیں ہے، اس کا اپنا آئین، اپنا پرچم اور اپنے بعض قوانین ہیں۔ فوجداری کے مقدمے آج بھی رنبیر پینل کوڈ کے تحت درج ہوتے ہیں، انڈین پینل کوڈ کے تحت نہیں۔
وزیرتعلیم الطاف بخاری کا ردعمل بظاہر حق بجانب لگتا ہے، لیکن ریاستی بی جے پی نے اس کے جواب میں جو بیان دیا ہے اس میں وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کے اسمبلی میں دئے گئے بیان کا حوالہ دیا گیا جس میں محبوبہ نے کہا تھا کہ کشمیر کے نوجوان گمراہ کن مواد پڑھنے سے انتہاپسندی کی جانب مائل ہوتے ہیں۔
کالم نویس ترون وجے نے انڈین ایکسپریس میں شایع ایک مضمون میں جنرل راوت کی ستائش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کئی برس قبل وہ حکومت ہند کی وزارت برائے فروغِ انسانی وسائل (یعنی وزارت تعلیم)کے ایک جائزہ وفد کے ساتھ یہاں آئے تو انہوں نے تعلیم کے سیکریٹری سے کہا کہ یہاں کے نصاب میں علٰحدگی پسندی کے اجزاء ہیں۔ ترون لکھتے ہیں کہ افسر موصوف نے جواب دیا: ’’او کے سر! آپ ٹھیک کہتے ہیں، ہم اس معاملہ کو دیکھ لیں گے‘‘۔ یہی اعتراض جب آج فوجی سربراہ نے اُٹھا یا تو الطاف بخاری نے یہاں کی روایتی سیاست سے ہٹ کر جواب دیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ محبوبہ مفتی کی حکومت ’’ اوکے سر‘‘ سے آگے بڑھے گی ، یا روایت کا احیاء ہوگا۔
بشکریہ ہفت روزہ ’’ نوائے جہلم‘‘سرینگر