قصور پاکستان میں سات سالہ معصوم بچی زینب کے ناقابل برداشت المیے کا زخم ابھی ہر اہی تھا کہ کھٹوعہ جموں میں آصفہ نامی ایک آٹھ سالہ معصوم بچی کے ساتھ وہی ناقابل ِمعافی جرم پیش آیا جس سے معصوم زینب کا پالا پڑاتھا ۔ اس اذیت ناک سانحہ نے ہر حسا س دل انسان کو چھلنی کر دیااور ہر با ضمیر انسان پر غم اور صدمے کے ہتھوڑے مار ے ۔ اس حقیقت سے انکار کی مجال نہیں ہوسکتی کہ اخلاقی گراوٹ اور انسانیت کی شکست وریخت سے لگتا ہے کہ آصفہ کا المیہ کسی بھی معنی میں اپنی نوعیت کا آخری سانحہ نہ ہوگا۔ ظاہر ہے جب جنگل راج میں بھیڑ یئے شکار کھیلنے کے لئے آزاد ہوں ، حکمران عوام سے کٹے ہوئے ہوں ، قانون کے رکھوالے مزے کی نیند سورہے ہوں تو کسی کمزور جان کا درندوں کے ہتھے چڑھ جانا کیونکر بعید ازامکان ہو۔ زینب اور آصفہ کی معصوم وبے چین روحیں اب اللہ کی عدالت میں ہی انصاف کی دہائیاں دیں گی۔ دنیا میںا نہیں انصاف ملے، ایسی توقع کر نا ایسی ہی طفلانہ بات ہوگی جیسے کوئی عقل کامارا پتھروں سے دودھ مانگے ۔ بلاشبہ رواں اسمبلی اجلاس میں آصفہ المیے پر اپوزیشن نے اتنا شور ہنگامہ کیا کہ حکومت نے کچھ اس کے دباؤ میں اور کچھ رائے عامہ کو سہلانے کے لئے مجسٹرئل انکوائری بٹھادی ، نیز متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کو نمائشی طور معطل کیا مگر ماضی کے تجربات کے پیش نظراس بات کا قوی امکان ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ہی یہ ساری رسمی کارروائیاں محض دائرے کا سفر ثابت ہوں گی ۔ حقائق گواہ ہیں کہ اس قسم کے سنگین جرائم پر جب کبھی یہاں شور بپاہواتو حکومت نے کسی نہ کسی بہانے اپنی پنڈچھڑا لی لیکن اگر معاملہ ٹیڑھی کھیر بنا تو زیادہ سے زیادہ کسی سرکاری کارندے کی معطلی یا تبادلے کا فرمان جاری کیا گیا یا تحقیقات کا اعلان ہوا، اللہ اللہ خیرصلا۔ ان بے نتیجہ اقدامات سے آج تک کسی مجرم کا بال بیکا ہوا نہ جرائم کی بھٹی سر دپڑی اور نہ جر م کے شکار کسی مظلوم کو انصاف ملا ۔ کنن پوش پورہ سے لے کر آسیہ نیلوفراور مظلومہ آصفہ تک پھیلی ہوئی دلآزار سرگزشت سے کم ازکم یہی ایک چیز متباور ہوتی ہے ۔ ظلم وزیادتی کی تازہ شکار بکروال طبقے سے تعلق رکھنے والی آصفہ دنیا ومافہیا سے بے فکر بچی تھی۔ اس معصوم کلی کو کیا معلوم تھا کہ دنیا بنت ِحوا کے لئے اس قدر کٹھور ہے،وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ کن انسان نما گِدھوں کے گھنے جنگل میں جی رہی ہے ،اُسے پتہ بھی نہیں تھا کہ کسی معصوم بچی کی عزت اور زندگی کا فاصلے پاٹنے کے لئے کوئی درندہ صفت انسان آدمیت کی تمام حدیں آناًفاناًپار کر کے اسے جیتے جی نوچ جائے گا۔ غریب مگرمحنت کش بکروال کسی ایک ٹھکانے پر قرار نہیں کرتے بلکہ صدیوں سے وقتاً فوقتاً مال مویشی لے کر ایک چراگاہ سے دوسری چراگاہ منتقل ہوکر خانہ بدوشی کی زندگی گزارتا ہے ۔ آصفہ کی ہلاکت کے بعد اس کوتاہ نصیب کے ماں باپ اور اہل خانہ کے ٹھکانے اور آشیانے حسب معمول اَدلتے بدلتے رہیں گے مگر اب سے ہر ڈگر پر اُن کا تعاقب اپنی کم نصیب لاڈلی کی کرب ناک یادیںکریں گی ، وہ جہاں جائیں گے آصفہ کی چیخ وپکار اور آہ وبکا اُنہیں تڑپاتی رہے گی ، وہ آنسوبہائیں گے ، آہیں بھریں گے ، سسکیوں میں ڈوب جائیں گے مگر ان کا غم غلط ہوگا نہ ان کے دردکا ناخوشگوار سفر کبھی تھم جائے گا ۔ اس کے برعکس حکمرانوں ، سیاست دانوں، پولیس والوں، اخباری رپورٹروں اور عام لوگوں کی یاداشت کی تختی پر اس المیے کے بعد نئے نئے المیوں کی اتنی پرتیں جم جائیں گی کہ ان کے نیچے آصفہ کا خون کھول دینے والاقصہ دب کر رہے گا ۔ آج تک اس قسم کے المیوں کے حوالے سے ہمارے یہاںیہی ہوتا رہاہے اور آئندہ بھی یہی ہونا ہے ۔ بالفاظ دیگر آصفہ کا غم خالص اس کے سگے سمبندھیوں تک محدود ہوگا اور بس۔ اصولی بات یہ ہے کہ آصفہ جس سنگین جرم کی بھینٹ چڑھی اگر اس نوع کے شرم ناک جرائم کا حکومتی سطح پر بر وقت نوٹس لیاجاتا ، مجرموں کی سرکوبی کے لئے قانون کا سر شتہ روایتاًکچھوے کی چال چلنے کے بجائے غیرمعمولی فعا لت ا ور تحرک کے ساتھ قانون ِ انسانیت کا دفاع کرتا تو کوئی وجہ نہیں کہ آج تک ایسے سنگین جرائم کا تھوڑا بہت سدباب نہ ہوا ہوتا ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ سال ہا سال قبل رنگا اور بلا نامی دوبدمعاشوں کو دو کم سن بچوں سنجے چوپڑا اور گیتا چوپڑا کو اغواء کرکے مار ڈالنے کی پاداش میں دلی کی پولیس نے برق رفتاری سے پکڑ لیا اور عدلیہ نے سریع الحرکت کارروائی کرکے انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ان کو پھانسی دی ۔اس سے کم ازکم لوگوں میں پیغام گیا کہ قانون ان کی محافظت پر کمر بستہ ہے ۔ بعینہٖ دلی میںدامنی کی عصمت لوٹنے اور زندگی چھین لینے کے جرم میں ملوث انسانیت کے دشمنوں کو فوراًسے پیش ترقانون کی زنجیروں میں جکڑ لیا گیا اور مجاز عدالت نے انہیں سزائے موت سنائی۔ ان اقدامات کا کچھ نہ کچھ اثر مجرمانہ ذہنیت رکھنے والوں پر لامحالہ پڑتاہے ۔ غالباً یہی سوچ کر اپنے وقت کے نائب وزیراعظم ہند اور وزیر داخلہ لال کشن ایڈوانی نے ببانگ دہل تجویز دی تھی کہ ریپ میں ملوث مجرموں کو سزائے موت دی جانی چاہیے ۔ اگر یہ تجویز مان کر کوئی آبروریزی مخالف قانون وضع کیا جاتا تو یقینی طور خواتین کے خلاف شرم ناک جرائم میں بہت کمی آنے کی امید کی جاسکتی تھی مگر یہ ایڈوانی کا خیال صرف ایک نیک خواہش تک محدودرہا۔ ہماری ریاست میں بالعموم اور وادی ٔ کشمیر میں بالخصوص خواتین کے خلاف سنگین جرائم کی داستان ا یک کریہہ الصورت حقیقت کی آئینہ دار ہے۔ گزشتہ اٹھائیس سال سے یہاں حوا کی بیٹیاں متواتر ناگفتہ بہ حالات کی چکی میں پستی جارہی ہیں ۔ نتیجہ یہ کہ جہاں طبقہ اُناث میںخودکشیاں ، خود سوزیاںاور جہیزی ہلاکتوں کاگراف بڑھ رہاہے، وہیں اُن کی عزتیں بھی داؤ پرلگی ہیں ۔ افسوس کہ حکومتیں اس صورت حال کی اَن دیکھی کر کے کشمیری خواتین کو عملی طور تحفظ دینے میں ناکام رہیں۔ اس رنجدہ صورت حال سے گلو خلاصی کے لئے ریاستی حکومت کو قانونی اور سماجی سطح پر تیر بہدف اقدامات کرنے کی اشد ضرورت سے انکار نہیں ہونا چاہیے اگر یہ واقعی وومنز ایمپاورمنٹ کے دعوے میں مخلص اور سنجیدہ ہے ۔ اسے آصفہ کی ہلاکت سے سبق حاصل کرکے تحفظ ِنسواں کے لئے ہر محاذ پر کارگر قدم اٹھانے میں کوئی پس وپیش نہیں کر نا چاہیے ،وہ بھی ان تشویش ناک سرکاری اعدادوشمار کے موجودگی میں جوواضح کر تے ہیں کہ ملک میں ہر بائیس منٹ کے وقفے میں عصمت ریزی کے ایک جرم کا ارتکاب ہوتا ہے ۔ اس سرکاری اعتراف وانکشاف سے بین السطور خواتین کے خلاف جرائم کی گھمبیر تصویر جھلکتی ہے ۔ فی الحقیقت خواتین کو قدم قدم پر جن نوع بہ نوع ہراسانیوں اورپریشانیوں سے دوچار ہونا پڑ رہاہے، سرکاری اعداد وشمار اُن کاتصور بھی نہیں کر سکتے ۔ المختصر آصفہ کو مکمل اور بلاتاخیر انصاف دینے کے علاوہ حکومت کوبنت حوا کا تحفظ وتکریم یقینی بنانے کے لئے ہر کارگر اور موثر کارروائی کر نی چاہیے مگر ساتھ ہی سماج کو بھی اپنا گریبان جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ ہم لوگ درندگی کی کن کن حدوں کو پار کر رہے ہیں اور اس کی تلافی کے لئے ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور کیا کیا کرنا چاہیے۔