ہر زبان کا دستور ہوتا ہے۔ پنجابی میں بہت بڑی مبارک کو لاکھ لاکھ بدھائی بولتے ہیں۔ کشمیر کے شہر شوپیاں میں رہنے والی پیلٹ متاثرہ لڑکی انشاء کے لئے دسویں پاس کرنا بڑی بدھائی کی بات ہے۔اس کی کچھ خاص وجہ ہے۔ پچھلے سال کشمیر میں برہان وانی کے جان بحق کئے جانے کے بعد کشمیر میںجگہ جگہ احتجاج کے طور پر پتھر ماری کے واقعات ہو رہے تھے۔ سرکاری بیان کے مطابق مشتعل ہجوموں کو قابو میں کرنے کے لئے پولیس اور سی آر پی ایف والے گولیوں اور پیلیٹ گنوں کا آزادنہ استعمال کرتے رہے ۔ پیلیٹ گن کے بہت باریک چھرے ہوتے ہیں جو کسی کے بدن پر لگیں تووہ بری طرح زخمی ہو جاتا ہے لیکن متاثرہ فرد جان سے بچ جاتا ہے۔ کشمیر میں البتہ ان کے بے تحاشہ استعمال سے نہ صرف پیلیٹ گنوں سے ہلاکتوں ہوئیں اور بہت سارے نوجوان بچے اور بچیاں گھمبیر طور زخمی ہوئے۔ کئی لوگوں کے چہرے ان سے چھلنی ہو گئے، کہیں ایک کی آنکھیں متاثر ہوئیں اور کہیوں کو اندھے پن کا روگ ملا۔ منہ بولتی حقیقت یہ ہے کہ کشمیر میں بہت سارے پیلٹ متاثرین میں زیادہ تر چھوٹی عمر کے بچے شامل ہیںجن میں وہ شامل ہیں جن کی بصارت ہمیشہ کے لئے گئی۔ انہیں کم نصیبوں میں انشاء لون بھی ایک ہے جس کی اپنے گھر میں بیٹھے بٹھائے پیلٹ کی اندھا دُھند بارش نے آنکھیں چھین لیں۔ وہ اس وقت نویں جماعت میں پڑھتی تھی۔ اس کی بصارت بچانے کے لئے سرینگر، دلی اور ممبئی میں بھی علاج معالجہ ہوا لیکن اس کی آنکھوں کی روشنی نہیں بچائی جا سکی۔ انشاء نے زندگی کا یہ کڑوا سچ بہادری کے ساتھ قبول کیا ۔ یہ ا س کا ذاتی وصف ہی ہے کہ اس نے رونے دھونے میں زندگی بسر کرنے کی بجائے اپنی پڑھائی جوں توں جاری رکھی۔ پہلے پوری لگن سے بریل لپی سیکھنے کا من بنایا۔ اگر چہ اس میں کافی وقت لگتا ہے لیکن وقتی طورانشاء نے دوسروں سے کتابوں میں لکھا سن کر یاد کرنا شروع کیا۔ یہ بھی کافی مشکل اور نئے قسم کا چلنج تھا لیکن اس کی بہادری اور ہمت سے ماورا نہ تھا۔ چنانچہ اس نے امتحان میں پرچہ لکھنے کے لئے ایک چھوٹی بچی کی مدد لی۔ اُس سے سوال سنے اور جواب بول کر لکھوائے۔ اس طریقے سے امتحان دیا اور دسویں کو پاس کیا۔ یہ عام دسویں نہیں بلکہ خاص دسویں جماعت اور یہ عام امتحان نہیں بلکہ خاص امتحان تھا۔ اس لئے انشاء عام مبارک باد کی نہیںخاص مبارک کی حقدار ہے۔ لاکھ لاکھ بدھائی ہو سر زمین کشمیر کی بیٹی اور ان کے اہل خانہ کو۔
انشاء خود کسی پتھراؤیا نعرہ بازی یا احتجاجی جلسے میں شریک نہیں تھی۔ کہتے ہیں کہ وہ اپنے گھر کی پہلی منزل پر رسوئی میں بیٹھی پڑھائی کر رہی تھی کہ کوئی ڈسٹرب نہ کرے کہ یک بار باہر سے پتھر چلنے، نعرے بلند ہونے اور گولیوں کی ہیبت ناک آوازیں آنے لگیں۔ ایسی صورت میں ہر ایک میں باہر کیا ہوا دیکھنے کی بے تابی یا تجسس ہوتا ہے، بچوں میں یہ بات کچھ زیادہ ہوتی ہے۔ انشاء مکان کی بالکونی سے کھڑکی کی اوٹ سے ماجرا دیکھنے لگی کہ پیلٹ گن کی گولیوں کی بو چھاڑ اس کے چہرے پر آن پڑی۔ آگ کی طرح جلتے ہوئے چھرے اس کی آنکھوں کے رٹنوں کو چیر کر ہیئے میں گھس گئے کہ اس کی دنیا میں سناٹا چھایا ، اسی وقت سے آنکھیں بے نور ہوگئیں اور کوئی چیز دکھائی دینے کی صلاحیت سے مفقود ہو گئیں ، وہ زور زور سے اپنی اس بے جرمی کی کری سزا پر چلانے لگی مگر افسوس اب اس کی آنکھوں کا چراغ بجھ گیا تھا۔
غم اور صدمے سے نڈھال والدین اس کو ہسپتال لے گئے لیکن آنکھوں بارے کچھ پتہ نہیں لگتا تھا۔ ڈاکٹروں کی طرف سے آنکھو کی روشنی واپس آنے سے قریب قریب انکار تھا۔ جموں کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی بھی اس کو دیکھنے آئیں۔انشاء کو اسپیشل علاج ومعالجہ کے لئے دلی ایمز ہسپتال لیا گیا۔اس کے بعد ممبئی میں بھی کوششیں کی گئیں لیکن آنکھوں کی بینائی ختم ہو چکی تھی،اس لئے بحالی ناممکن بنی۔ انشاء کے غم زدہ باپ نے اپنی آنکھ دینے کی پیشکش کی لیکن ڈاکٹروں نے انکار کر دیا۔ آخر تندوتلخ حقائق کے سامنے ہار مان کر یہ کنبہ گھر واپس گھر لوٹ آ یا۔ عام لوگ اور رہنما متاثرہ کنبے سے ہمدردی کے لئے ان کے یہاں آتے جاتے رہے لیکن انشاء کی متاثرہ آنکھوں کی روشنی واپس نہیںلائی جا سکتی تھی۔
تین چار ماہ تک مسلسل چلنے والے عوامی احتجاج، پتھربازی کے اندولن میں قریب 100کشمیری مارے گئے، سینکڑوں زخمی ہوئے،20 کی ایک آنکھ کا تاعمرنقصان ہوا اور 6کی دونوں آنکھیں جاتی رہیں۔ اس سے تین چار سال پہلے بھی پیلیٹ گن سے ایک 25سالہ نوجوان اپنی دونوں آنکھوں سے محروم ہو گیا تھا۔یہ بہت دردناک اعدادوشمار ہیں۔ بہر صورت انشاء تشدد کی شکار اکیلی نہیں بلکہ اور بھی بہت سارے کم نصیب اس صف میں شامل ہیں لیکن وہ اس ظلم وجور کا استعارہ بن گئی ہے۔ اگر بالفرض یہ مانا بھی جا ئے کہ پولیس کے کسی سپاہی نے انشاء کو پہچان کر اس کو نشانہ نہیں بنایا ، اور اتفاق سے بے تحاشہ چل رہے پیلیٹ کی بوچھار اس کے چہرے پر آ گری لیکن اس کے باوجود اس کو سڑک حادثے کی طرح کا اتفاقی حادثہ کبھی نہیں کہا جا سکتا۔ یہ ہیبت ناک کھیل انسانوں کا بنایا تھا۔ ایک دوسرے کو چوٹیں لگانے، زخمی کرنے اور مارنے گرانے کا گھناؤناکھیل۔ انشاء اس کھیل میں شامل نہیں تھی۔ انشاء بے قصور تھی لیکن اس کو بڑی سزا ملی، ایک طرح کی ’capital punishment‘۔
اُن دنوں ہمارے اخباروں میں خاص طور پر جموں کشمیر سے شائع ہونے والے اخباروں میں پیلٹ گن سے چھلنی ہوئے بچوں کے چہروں کی بہت تصویر یں چھپتی رہیں۔سوجھی ہوئی گہرے نیلے رنگ کی آنکھیںبہت دردناک کہانی سناتی تھیں۔پبلک میڈیا اور فیس بک پر یہ تصویریں دیکھنے کو ملتی تھیں۔ ان تصویروں کے دیکھنے کے بعد ہر انسان کا کلیجہ منہ کو آتا ہے۔
UNO کے ایک اجلاس میں پاکستان کی خاتون سفیر نے ایک بچی کے جھلسے ہوئے داغ دار چہرے کی تصویر دکھائی کہ دیکھو بھارت کی فوجیں کشمیر میں بچوں اور بچیوں پر کتنا ظلم ڈھاتا ہے۔بعد میں یہ تصویر عرب کی کسی متاثرہ بچی کی نکلی۔ ہندوستان کے نمائندوں نے ملیحہ لودھی کے اس غیر ارادی تسامح پر’’ سکون ‘‘کا اظہار کیا، حالانکہ اس پر’’سکون‘‘ کی کوئی گنجائش نہیں تھی کیونکہ کشمیر کے بچوں اور بچیوںکی تصویریں اس تصویر سے بھی حد درجہ ہیبت ناک ہیں۔پھر اس میں بھی’’ سکون‘‘ کا کیا جواز کہ ایسی تصویریں اور ملکوں کی بھی ہیںبلکہ اس سے ہمارا دُکھ بڑھنا چاہیے۔ جس بچی کی تصویر دکھائی گئی تھی وہ بھی توانسان کی بچی تھی۔اس کا دردبھی ہمارا ہے، وہ بھی ہماری انشاء ہی ہے۔ہمارا یہ ضمیر کے ساتھ مصم عہد ہونا چاہیے کہ ایسا کسی بچی کے ساتھ نہ ہو،اس دنیا میں کہیںبھی نہیں۔
مانتے ہیں کہ پیلیٹ گن کا استعمال سیدھی گولی سے ہونے والی موتوں کی تعداد کو کم کرنے کے لئے کیا جاتا ہے لیکن کئی لوگوں کے پیلیٹ گن سے بھی اتنے دردناک زخم ہوئے کہ وہ بولنے لگے کہ اس سے تو بہتر یہ ہے کہ ایک ہی بار گولی مار کر کھیل ختم کر دیا جاتا۔ گولی کا بدل پیلیٹ گن تلاش کیا گیا اور اب پیلیٹ گن کا بدل بھی لال مرچ کے کارتوس یا ربڑ کی گولیوں میں تلاش کیا جا رہا ہے۔ دکھ کی بات ہے کہ بندہ کس چیز کی ریسرچ کرنے جا رہا ہے؟ زخموں کو جلدی تندرست کرنے کی دوائیوں کی یا بندے کو چوٹ دینے اور زخمی کرنے کی؟در اصل ان سب چیزوں کا متباد ل تو ایک ہی کہ منہ سے بات کرو۔ دنیا میں انسانوں بہت بڑی آبادی ہے۔اس آبادی میں بہت کچھ مشترکہ ہے اور بہت کچھ متفرقہ،اختلاف بھی ہیں ، جھگڑے بھی ہیں،جاتی برادری کے قضیے ہیں، مذہبی لڑائیاں ہیں،سیاسی تنازعے ہیں، حدوں اور سرحدوں کے تنازعات ہیں۔ ان کے حل مشکل ہو سکتے ہیں لیکن یہ انسانوں نے ہی کرنے ہیں، وہ بھی انسان بن کر اور منہ سے بات کرکے ، نہ کہ لاٹھی، پتھر، بندوق، پیلیٹ گن اور ربڑ کی گولیوں سے ۔اس کے لئے توپوں، ٹینکوں اور ایٹم بموں سے کچھ بھی نہیں ہونے والا۔
انشاء نے دسویں کا امتحان پاس کیا۔ ایک بار پھر لاکھ لاکھ بدھائی لیکن اس کے سامنے اور بھی امتحانات ہوں گے، اس سے بھی بڑے اور اس سے کہیں زیادہ مشکل۔ اس کو وہ سب ہمت اور محنت سے بغیر لڑکھرائے پاس کرنے ہوںگے۔ اس نے بریل لپی کی مہارت بھی حاصل کرنی ہے۔ اس کے علاوہ اس نے اس دنیا کا امتحان بھی لینا ہے۔ وہ دیکھ نہیں سکتی ہوگی لیکن وہ دنیا کو بہت کچھ دکھا سکتی ہے۔اس کی آنکھیں بند ہیں لیکن وہ ہم سب کی آنکھیں کھولنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اس کی آنکھوں پر لگی کالی عینک انسان کی ذات کو سبق دیتی ہے کہ ہنسا اور تشدد کتنی دردناک چیز ہے۔ انشاء تو اپنے امتحان میں پاس ہو گئی، اب دیکھنایہ ہے کہ کیا ہم بھی اس کے امتحان اورآزمائش کو پاس کرتے ہیں کہ نہیں؟ کیا ہمارے نیتا اور سربراہ اب بھی ہنسا اور تشدد سے توبہ استغفار کرتے ہیں کہ نہیں؟ کیا ہم اب بھی منہ سے اپنے حریف بات کرنا سیکھتے ہیں یا نہیں؟
رابطہ 098783 75903