نفرت کے بیاباں میں ،میں نے محبت کی چھوٹی سی حسین جنت بنا لی تھی۔مجھے اندیشہ تھا کہ جس شعلے کو میں اپنے اندر جگہ دے رہی ہوں وہ ایک دن مجھے خاکستر کرکے میرے لئے متاع ِغم بن جائے گا مگر یہ بات میرے وہم و گماں میں بھی نہ تھی کہ زندگی مجھے اِک نیا سبق سکھانے والی ہے۔ ایسا سبق جو میرے بابا کی لائبریری میں جمع سینکڑوں کتابوں میںبھی موجود نہ تھا ۔نہ جانے میں یہ محبت کا گناہ کیوں اور کیسے کر بیٹھی تھی؟ مگر اب جو کچھ ہونا تھا ہو چکا تھا۔ اب قدم پیچھے ہٹانا میرے لئے محال تھا۔ و یسے محبت عام دُنیا والوں کیلئے کوئی بڑا گنا ہ تو نہیں مگر میرے لئے تو تھا کیوں کہ میں ایک ایسے شخص سے دل لگا بیٹھی تھی جس کومیں صرف بغاوت کی صورت میں حاصل کر سکتی تھی۔
نہ جانے کیسے کر بیٹھی تھی میں محبت اُس نیلی آنکھوں والے سیراب نامی شخص سے، جس کے متعلق میں بابا کے منہ سے بچپن سے یہ جملہ سُنتے آر ہی تھی ’’یہ نیلی آنکھوں والا لڑکا ایک دن ضرور بد معاش بنے گا۔‘‘ کہنے کو تو وہ ہمارے پڑوسی تھے مگر محلے کے اکثر گھرانے اُن سے لا تعلقی بنائے رکھے تھے۔وجوہات کی فہرست کچھ یوں تھی کہ اُس کا بڑابھائی شرابی اور بد کار ہونے کے علاوہ ایسے کام سر انجام دیتا کہ ہر آئے گئے دن جیل کی ہوا کھاتا رہتا ۔اب کہنے والوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ اُس کے ابا کا ریکاڑ بھی کچھ ٹھیک نہیں رہا ۔ علاوہ ازیں اُن کے اور ہمارے معیشی درجوں میں بھی زمین و آسمان کا فرق تھا۔جہاں میرے بابا شہر کے مقبول ترین وکیل تھے وہیں دوسری طرف اُس کا باپ کسی کمپنی میں ایک معمولی کلرک تھا۔ بہرحال یہ وجوہات کافی تھیںہماری محبت کو ناکام بنانے کے لئے۔
شباب ہے ہی ایسا دور کہ انسان جذبات کی کشتی میں سوار ہو کراس طرح اُچھلتے سمندروں کی سیر کرنے لگتا ہے گویا کہ اُسے کنارے پر واپس آنا ہی نہ ہو، لہٰذا زندگی کی باقی تمام تلخ حقیقتیںاِسے وقتی طور پربے معنی لگنے لگتی ہیں۔ یہی حال کچھ ہمارا بھی تھا۔کالج کا آخری سال تھا اوراب امتحانات قریب تھے۔آخری سال کے بھاری بھرکم نصاب نے تمام طالب علموں کی حالت بگاڑ دی تھی، سوائے ہم دونوں کے۔ اُس دن جہاںسب لوگ لائبریری میں بیٹھ کر مطالعہ میں مصروف تھے تو دوسری طرف ہم دونوں کینٹین میں میری دوست شہلاکے ساتھ بیٹھ کر ہمارے مسئلے کا حل ڈھونڈھ رہے تھے۔کالج کے ابتدائی دور سے ہی ہماری محبت پروان چڑھ رہی تھی ۔میں نے کئی بار اُس سے انجام کے متعلق بات کی تھی مگر ہر بار اُس کی نیلی آنکھوں میں جدائی کے درد کی تصوردیکھ کر موضوع بدل دیتی تھی، لیکن اُس وقت وہ بے دھڑک بول پڑا’’بصیرت ۔۔۔میں تمہارے بغیراپنی آنے والی زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتا اور جانتا ہوں کہ تمہارا حال بھی یہی ہے ۔اِس لئے اب تم طے کرو۔۔۔تمہیں میرے بغیرعیش و آرام کی زندگی جینی ہے یا میرے ساتھ ایک معمولی سا خوشحال گھر بسانا ہے۔‘‘ اُس کے اشارے کو میں خوب سمجھ چکی تھی ۔اِس لئے جواباََ بول پڑی ’’ مگر بابا؟۔۔۔اُن کی عزت ؟ میرا یہ ایک قدم اُنہیں برباد کر دینے کے لئے کافی ہے۔میں اُ ن کی اِکلو تی اولا د ہوں اور۔۔۔‘‘ شہلا اچانک سر ہلا کر بول پڑی’’ہاں ہاں ! یہ بات بالکل درست ہے۔۔۔ایک دو سال کی محبت کے لئے تم اپنے بابا کو دھوکہ دو گی تو یہ نا انصافی ہو گی۔‘‘ سیراب شہلا کی طرف ناگوار نظروں سے دیکھ کر مجھے سے مخاطب ہو کر کہنے لگا’’بصیرت !۔۔۔شہلا کی بات بھی اپنی جگہ درست ہے ۔۔۔ ہم ایسی محبت پا کر کیا کریں گے جس میں بڑوں کی مرضی شامل نہ ہو۔۔۔بہر حال تم کچھ دن اچھی طرح سے سوچ سمجھ کر مجھے جواب دو۔۔۔ اور تمہارا جو بھی فیصلہ ہو گا میں اُس کی ہر گز تر دید نہیں کروں گا۔ ۔۔بلکہ تمہارے فیصلہ کو ہماری محبت کی قسمت سمجھ کر تسلیم کروں گا۔۔۔پھر چاہے فیصلہ کچھ بھی ہو۔‘‘ سیراب کی اِن باتوں نے جہاں ایک طرف مجھے امتحان میں ڈالا تھا تو وہیں دوسری طرف سیراب کی سوچ پر مجھے فخر محسوس ہو رہا تھا۔ میرا کلیجہ منہ کو آرہا تھا۔ نظریں چرا تے ہوئے میں اپنی کتابیں سمیٹ کر اُن سے کہنے لگی’’ ٹھیک ہے۔۔۔میں سوچ کر بتا تی ہوں۔۔۔ کافی لیٹ ہو گیا ۔۔۔مجھے چلنا چاہیے۔‘‘شہلا پوچھنے لگی ’’کہاں جا رہی ہو؟ لائبریری؟‘‘
’’نہیں میں تھک گئی ہوں ۔۔۔سیدھے گھر جائوں گی۔‘‘
’’اچھا ٹھیک ہے۔۔ ۔‘اللہ حافظ‘‘
’’اللہ حافظ‘‘
سیراب میں بہت کچھ ایسا تھا جس کی وجہ سے وہ میرے لئے نا قابلِ فراموش تھا۔کا لج کے پہلے دنوں سے ہی اُس کی نیلی آنکھیںصرف مجھے ڈھونڈا کرتیں اور اُس کے قدم صرف میرے تعاقب میں اُٹھتے رہتے تھے۔ میری چھوٹی سے چھوٹی پریشانی اُس سے دیکھی نہیں جاتی تھی اور وہ اپنے تمام کام چھوڑ کر اُس کوحل کرنے لگتاتھا۔وہ اپنے گھر والوں سے بالکل مختلف تھا۔اُس کی نیلی آنکھیں ، اُس کا سیدھا پن اورمیری طرف مخلصانہ رویہ اُس سے محبت ہوجانے کی وجہ تھی۔ایک طرف میری محبت تھی اور دوسری طرف میرے بابا ،اُن کی عزت ،اُن کا رتبہ۔’’نا کام محبت میرے لئے متاعِ غم بن جائے گی !مگربابا کو میں تباہ نہیں کر سکتی۔۔۔ لیکن سیراب سے جدائی۔۔۔۔کاش ! یہ فیصلہ کرنا میرے لئے آسان ہو جاتا۔ ‘‘میرا مضطرب دل کچھ بھی سوچنے سمجھنے سے قاصر تھا۔یہی سوچتے سوچتے میں کالج گیٹ تک پہنچ گئی ۔سکوٹی میں چابی ڈالتے ہی یاد آیا کہ بابا نے مجھے کالج لائبریری سے چند کتابیںلانے کو کہا تھا۔لہٰذا میں نے واپس لائبریری کا رُخ کیا۔
’’تمہیں بکنے کی زیادہ عادت ہو گئی ہے۔۔۔کم بکا کرو اور سوچ سمجھ کے بکا کرو۔۔۔میں اپنی منزل کے اتنے قریب پہنچ کر ہارنا نہیں چاہتا۔اِس لئے تم اپنی زبان سے آئندہ میرا نقصان کرنے کی جرأت نہ کرنا۔‘‘ ایک جانی پہچانی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی جب میں اُن کتابوں کو گھٹنوں کے بل بیٹھ کر سمیٹ رہی تھی ۔اب بس آخری کتاب کو ڈھونڈھنا باقی رہ گیا تھا مگر اُس آواز نے مجھے کھڑے ہو کر اُس شخص کا چہرہ دیکھنے پرمجبور کردیا۔ــــوہ سیراب تھا لیکن یہ شہلا سے اِس لہجے میں بات کیوں کر رہاتھا یہ سمجھنے سے میں قاصر تھی۔جبھی اچانک شہلا آنکھوں سے غصے کے شعلے برساتی ہوئی اُس سے کہنے لگی’’کیا غلط کیا میں نے؟تم کیوں کر رہے ہو یہ سب؟اگر تم شادی مجھ سے کر رہے ہو تو اُس سے کیا رشتہ ہے تمہارا۔‘‘
’’بہت گہرا رشتہ ہے۔۔۔نفرت کا رشتہ ہے۔۔۔بچپن سے دیکھتے آرہا ہوں۔۔۔وہ وکیل کوئی موقعہ جانے نہیں دیتا میرے ابا کو ذلیل کرنے کا ۔میں بصیرت کے وکیل باپ کی آنکھوں میں اِکلوتی اولاد کی وجہ سے وہی ذلت اور رسوائی دیکھنا چاہتا ہوں جو اُس کی وجہ سے ہر بار میرے ابا کی آنکھوں میں ہوتی ہے۔‘‘ سیراب کی زباں سے یہ زہریلے الفاظ سن کر میں ہکا بکا رہ گئی۔میرے ہاتھوں پھسل کر کتابیں زمین پر آگریں۔وہ دونوں مُڑکر میری اور دیکھنے لگے۔ دونوں میری آنکھوں سے ٹپکنے والے آنسوئوں کے منتظر تھے لیکن میری آنکھوں نے اس نیلی آنکھوں والے سیراب کو نیلاسراب بنتے دیکھا تھا۔
رابط؛طالبہ شعبہ اُردو کشمیر یونیورسٹی،سرینگر،[email protected]